ہمارا ملک بھارت نوجوانوں کا ملک ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس کی تقریباً ۲۹ فیصد آبادی ۱۵ تا ۲۹ سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی تعداد تقریباً چھتیس کروڑ ہے۔ دنیا بھر میں اس عمر کے نوجوانوں کی کل تعداد ۱۸۰ کروڑ ہے جن میں سے بیس فیصد نوجوان اسی ملک میں رہتے ہیں۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نوجوان افرادی قوت کی قلت کا شکار ہیں وہیں چھتیس کروڑ نوجوانوں کی یہ معتد بہ تعداد بھارت کی ایک زبردست قوت اور اہم اثاثہ ہے۔ لیکن نوجوانوں کی یہ کثرت ملک کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔ یہ چیلنج ان کو تعلیم فراہم کرنا، انہیں ہنرمند بنانا، انہیں روزگار فراہم کرنا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کی قوتوں کو مثبت طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہے ورنہ یہی نوجوان کل ملک کا اثاثہ بننے کے بجائے الٹا ایک بوجھ بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بات بہت اچھی ہے کہ ثانوی اور اعلیٰ سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے جس کے سبب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مختلف پیشہ ورانہ مہارتوں سے لیس ہوکر ملک و بیرون ملک اچھے روزگار سے وابستہ ہونے کے لیے تیار ہوئی ہے۔ لیکن جس رفتار سے ہنرمند نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے اس رفتار سے روزگار میں ان کی شمولیت نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار تک پہنچانے میں بھی انہی نوجوانوں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے مودی جی کے دلفریب نعروں اور خوش کن وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے لیے ایک تابناک مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیا تھا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق ان کے خواب اور ان کی امنگیں ریت کے گھروندے کی مانند زمین بوس ہوگئیں اور تابناک مستقبل کے بجائے مایوسی اور بے روزگاری کا ایک مہیب اندھیرا ان کے سامنے چھا گیا۔ ملک کے حکم رانوں کے پاس ان نوجوانوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے جن کی بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ شدید مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق 2011-12 کے دوران تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تھی جو 2017-18 میں اچانک تین گنا بڑھ کر 17.8 فیصد ہو گئی۔
گزشتہ دنوں نوعمروں کے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 کے دوران ملک بھر میں 11,396 بچوں نے خود کشی کی تھی۔ 2019 میں یہ تعداد 9613 تھی یعنی ایک سال کے دوران ہی خود کشی کرنے والے بچوں کی تعداد میں 18 فیصد اضافہ ہو گیا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے ان بچوں میں اکثر نے گھریلو مسائل، بیماری، بے روزگاری اور ناکام محبت جیسے اسباب کی بنا پر خود کشی کی ہے۔ ان اعداد وشمار کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں روزانہ ۳۱ بچے یا ہر گھنٹہ ایک بچے کی خود کشی کے ذریعے موت ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کووِڈ کے دوران لاک ڈاون، اسکولوں کے بند ہونے، گھروں تک محدود رہنے اور دوستوں، اساتذہ اور دیگر متعلقین سے رابطہ نہ ہونے کے سبب بچے غیر معمولی جذباتی تناو اور صدمے کا شکار ہوئے۔ ماں باپ کی بے روزگاری اور گھرکے معاشی مسائل نے انہیں مختلف قسم کی مایوسیوں کا شکار بنا دیا ہے۔ بچوں پر ان جذباتی صدموں اور مایوسیوں کا اس قدر شدید غلبہ ہے کہ یہ معصوم اپنے ہاتھوں اپنی جانوں کو ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہ بچے جو کل ملک کا مستقبل بننے والے ہیں ان کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت، سماجی تنظیموں، اسکولوں، اساتذہ اور والدین سب کو فکر مند ہونا چاہیے۔ ان بچوں اور نوجوانوں کی بروقت مشاورت، رہنمائی اور نفسیاتی، جذباتی اور مادی و مالی مدد ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اس مسئلے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اولین ذمہ داری جس برسر اقتدار طبقہ کی تھی اس نے ان نوجوانوں کو کوئی مثبت پروگرام فراہم کرنے، ان کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی بے روزگاری کو دور کرنے کے بجائے انہیں اپنے ناپاک ایجنڈے کی تکمیل میں لگا رکھا ہے۔ اس وقت انہیں نقلی دیش بھکتی کا نشہ پلایا جا رہا ہے، انہیں اپنے ہی ہم وطنوں سے نفرت کرنا سکھایا جا رہا ہے، انہیں عقلی بنیادوں پر سوچنے اور غور وفکر کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے توہمات کا سبق پڑھایا جا رہا ہے، غیر حقیقی و غیر سائنسی واقعات کو خوشنما بنا کر انہیں حال کے بجائے ماضی کے اندھیرے غاروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان سب کوششوں کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے ذریعے دکھائے گئے اعداد وشمار کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ امت مسلمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو ان مسائل کے دوران نا امیدی اور مایوسی سے نکالیں، ان کے اندر امید کی جوت جگائیں اور پورے حوصلے کے ساتھ مشکلاتِ حیات سے نبرد آزما ہونے کی تعلیم دیں۔ اگر ان مسائل پر فوری توجہ نہیں دی گئی تو نوجوانوں کی یہ عظیم الشان تعداد جو ملک کا بہترین اثاثہ بن سکتی ہے ملک کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ بن جائے گی اور یہ ملک کے ساتھ ساتھ ملت کا بھی بہت بڑا خسارہ ہو گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 7 نومبر تا 13 نومبر 2021