اداریہ

ڈھائی لوگوں کی کابینہ

 

ڈھائی لوگوں کی کابینہ
منتاز صحافی، ماہر اقتصادیات اور واجپئی کابینہ میں رہے سینئر وزیر ارون شوری نریندر مودی کابینہ کو ’’ڈھائی لوگوں کی کابینہ‘‘ کے لقب سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ ایک وزیر اعظم، خود دوسرے وزیر داخلہ اور ان کے چنندہ افسروں کو بقیہ نصف میں شمار کرتے تھے۔ حالیہ کابینی تنظیمِ نو اور توسیع کے نام پر جو کرتب دیکھنے کو ملے ہیں ان کے بعد کیا مرکزی حکومت کی اُس کیفیت میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے خود وزیر اعظم کا وہ بیان کافی ہے جو انہوں نے نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد دیا ہے۔ نئی مرکزی کابینہ کی تشکیل اور پرانی کابینہ کہ بعض وزرا کو باہر کا راستہ دکھانے کے بارے میں نریندر مودی نے بتایا کہ ’’سسٹم کی وجہ سے وزیر بدلے گئے ہیں!‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ’سِسٹم‘ یہ چاہتا ہے کہ کرسی ہر حال میں محفوظ رہے؟ کیا موجودہ سسٹم میں باشندگانِ ملک کی خبر گیری پر سرمایہ داروں کو ترجیح دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے؟ کیا اس سسٹم کے سر پر اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا پھوڑنے کے بعد حقیقی ذمہ داران کو پناہ مل جانا ہی بھارتی عوام کا مقدر بن چکا ہے؟ آخر سسٹم بد عنوان کیسے ہو جائے گا جب تک کہ اس کو چلانے والے افراد ہی بد عنوان نہ ہو جائیں؟ ظاہر ہے کہ چہرے بدلے جا رہے ہیں اور ان کے بعد جو لوگ قلم دان سنبھال رہے ہیں وہ بھی اسی ’سسٹم‘ کو آگے بڑھانے کے لیے مجبور ہوں گے۔ تو پھر نئے ’چہرے‘ لا کر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک و معاشرے کے ایشوز جوں کے توں برقرار رہیں تو پھر ایک جَمبو کابینہ کی تشکیل کر کے ہم نے پہلے سے کمر ٹوٹ چکی معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے سوا اور کیا حاصل کیا ہے؟ ملک کو اب تک یاد ہے کہ سنہ ۲۰۱۴ میں جب بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تب ملک سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ’کم سے کم حکومت اور زیادہ حکمرانی‘ کے طرز پر کام کیا جائے گا۔ لیکن اب ایک جمبو وزارت نے اس دعوے کی قلعی کھول دی۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ’سب کا ساتھ اور سب کی ترقی‘ ہو گی جس کی سچائی کو ڈھونڈنے کے لیے شاید بڑی سے بڑی خوردبین بھی ناکافی ہو گی۔ ’سب کو اعتماد‘ میں لینے کا وعدہ بعد کے دور میں اضافی طور پر شامل ہوا اور اس کی پول کھولنے کے لیے ہر روز کا اخبار اور اس میں دلتوں، مسلمانوں، خواتین پر ظلم کی داستانوں سے پُر صفحات پر ایک نظر دوڑانا کافی ہو گا۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں نِت نئے ظالمانہ و متعصابہ قوانین نے ملک میں عدم اعتماد کی فضا میں اضافہ نہیں تو اور کیا کِیا ہے بھلا؟ اس پر مستزاد بگڑتی ہوئی معیشت پر لاک ڈاؤن کی مار کا پڑنا ہے۔ جس میں وزیر خزانہ نے کارپوریٹ طبقے کا خیال تو رکھا لیکن حقداروں کو ان کے حق سے ہی محروم کر دیا۔ گزشتہ سات برسوں کی کارکردگی کا جائزہ اور موجودہ کابینی ردوبدل دونوں میں فی الحال کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس سے بدحال عوام کو راحت ملنے کا امکان ہو۔ جانکاروں کی رائے اب بھی یہی ہے کہ کابینی تنظیمِ نَو در اصل کووڈ وبا کے دوران حکومت کی ناقص کارکردگی سے پیدا شدہ عوامی ناراضگی اور عالمی بدنامی سے پلّہ جھاڑنے کی ایک کوشش ہے تو دوسری طرف سرمایہ داروں کے چنگل میں اقتدار کے پھنسے ہونے کا ایک مظہر بھی!
سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں تمام تر اختیارات وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) میں مرکوز ہیں۔ وزیر اعظم کی مرضی اور نام کے بغیر کوئی وزارت شاید ہی کھل کر فیصلے اور کام کرنے کی ہمت کر سکتی ہے۔ خود عدالت میں حکومت نے بتایا کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن فراہمی کی کمان وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے خود سنبھال رکھی ہے لیکن پھر بھی اموات کا سلسلہ جب دراز ہوا تو ریاستوں پر اس کا الزام دھرا گیا۔ آخر وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن سے استعفیٰ لے کر ان کو بَلی کا بکرا بنا دیا گیا لیکن جنہوں نے آکسیجن سپلائی میں کوتاہی برتی ان کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔ یہاں کابینی توسیع کے حق میں دی جانے والی یہ دلیل بھی غلط ثابت ہو رہی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر استعفی جات لیے گیے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو جس اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی پر خود پارلیمانی کمیٹیوں نے بد انتظامی اور بعض بد عنوانیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی، جن کے ماتحت اوقاف کے ڈیجیٹلائزیشن میں خرد برد ثابت ہوئی ان کی کرسی کیوں سلامت ہے؟ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ جئے شنکر نے بالترتیب چین اور عالمی سطح پر بھارت کا کماحقہ دفاع نہیں کیا۔ جس وزیر خزانہ نے لاکھوں مزدوروں کو مئی اور جون کی چلچلاتی گرمی میں ملک کی شاہراہوں پر ننگے پاؤں چلنے پر مجبور کر دیا تھا، جن کی وزارت میں موجودگی سے ملک کی معیشت کا دم گھٹ رہا ہے، جن کے کابینہ میں رہتے ملک کی بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے ان کی کرسی کو تحفظ کیوں حاصل ہے؟ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ خود پی ایم او آخر کس چیز کی ذمہ داری لے گا اور کب اس کی جواب دہی طے ہو گی؟
مودی حکومت کے دوسرے دور میں پہلے کابینی رد وبدل میں ایک نئی وزارت ’کوآپریٹیو وزارت‘ قائم کی گئی اور پی آئی بی نوٹ میں حکومت نے بتایا کہ ’’انتظامی، آئینی اور پالیسی فریم ورک فراہم کرنے نیز نچلی سطح تک ایک حقیقی عوامی تحریک کو لے جانے کے لیے‘‘ یہ علیحدہ وزارت کام کرے گی۔ مودی حکومت کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت ہے کہ وزیر داخلہ ہی کو اس کی اضافی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے۔ یہ تاثر نہ لیں کہ اس کے تحت دیگر وزارتوں کے مابین باہم اشتراک و تعاون مقصود ہے، بلکہ ملک میں امدادِ باہمی کی انجمنوں کو فروغ دینے کا منشا ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بتا دیں کہ مہاراشٹر کی کوآپریٹیو تحریک پر ایک طویل عرصے سے کانگریس اور اب شرد پوار کی این سی پی کا غلبہ رہا ہے جب کہ کیرالا میں بائیں بازو کا غلبہ ہے۔ گجرات میں کوریئن کی امدادِ باہمی تحریک کو کمزور کرنے کا الزام بھی حکمراں بی جے پی کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ ان حالات میں شرد پوار کا یہ بیان معنیٰ خیز ہے کہ ’’کوآپریٹیو شعبہ میں آئینی حد بندی موجود ہے۔ ریاستوں کے دائرہ کار میں مرکز مداخلت کا مجاز نہیں‘‘ اسی بنا پر مرکز کی نیت پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اس شعبے میں اپنے نظریاتی حریفوں کو کچلنے کا خفیہ منصوبہ لے کر چلنے والی ہے۔ حالانکہ خود وزیر داخلہ امیت شاہ نے ٹویٹ کر کے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت پچھلے سات برسوں سے ملک کے گاؤں، غریبوں اور کسانوں کی فلاح اور ان کو خود کفیل بنانے کے لیے لگاتار مصروفِ کار ہے۔ اور یہ ’تاریخی‘ فیصلہ کوآپریٹیو سیکٹر کو ’نئی اونچائیوں تک‘ لے جائے گا۔‘‘ لیکن گجرات کے کوآپریٹیو بنکوں کے الزامات کے گھیرے میں آنے کے بعد سابق بی جے پی وزیر ارون شوری کے الفاظ میں نوٹ بندی کو سب سے بڑا منی لانڈرنگ اسکیم اور پاگل پن والا عمل بتایا گیا تھا۔
’سوشل انجینئرنگ‘ کے نام پر وزارت کی تشکیل و تنظیم میں ایک عجیب کسرت دیکھی گئی۔ حلف براداری سے عین قبل وہاٹس ایپ میسیج گردش کرنے لگے تھے کہ کیسے مودی حکومت نے ’’اپنے ۴۳ نئے وزیروں میں ۲۷ او بی سی، ۱۲ شیڈولڈ کاسٹ، ۸ قبائیلیوں کو نمائندگی‘‘ دے کر کمزور اور پس ماندہ طبقوں کا خیال رکھا ہے۔ حالانکہ بی جے پی اس بات پر فخر کرتی رہی ہے کہ وہ ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر سب کی خدمت کرتی ہے۔ لیکن گجرات سے ۵ اور یو پی سے ۷ وزیروں کو کابینہ میں شامل کرنا جن میں ایک برہمن، ٣ پس ماندہ، تین او بی سی ہیں نیز علاقائی توازن کو ملحوظ رکھنا بھی محض انتخابی تیاریوں کی جانب اشارہ لگتا ہے نہ کہ بہتر حکمرانی کے لیے کی گئی تدبیر؟ ان سب کو کارپوریٹ طبقے کے حق میں کام کرنے اور حکومت کو پیسہ فراہم کرانے کے لیے سرکاری کمپنیوں کو بیچنے کا کام ہر وزارت کو مزید تیزی سے آگے بڑھانا ہو گا۔ کابینہ کی توسیع سے قبل گورنروں کی تبادلے اور تقررات اپنی وزارت کے تال میل کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہارورڈ اور ہارڈ ورک دونوں کو اہمیت دینے کا دعویٰ بھی سچ نہیں لگتا۔ ٨٣ سالہ تھاور چند گہلوت کو کرناٹک کا گورنر کس قابلیت کی بنا پر مقرر کیا گیا؟ اب تو گورنروں کے عہدے ہی ختم کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے، جیسا کچھ مہاراشٹر میں بھگت سنگھ کوشیاری اور مغربی بنگال میں جگدیپ دَھنکر نے ایک سیاسی فریق بن کر اپنے عہدے کا وقار پامال کیا ہے، ان کو تبدیل نہ کر کے ایک غلط عندیہ دیا گیا ہے۔ اب صرف توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ ہماری حکومت ’ڈھائی لوگوں سے آگے‘ نکل کر ایک مکمل وزارت کے طور پر کام کرے گی اور ہر وزیر خود مختار ہو کر اپنی وزارت سے متعلق فیصلے لے سکے گا نیز، ایک رہنمایانہ اور قائدانہ کردار میں وزیر اعظم اپنی کابینہ سے ملک و معاشرے کی خدمت لے سکیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہی کہا جائے گا کہ ’کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور‘ جس میں آر ایس ایس کا کردار اور اس کی مرضی حکومت پر مزید مسلط ہونے کی بات سے انکار ممکن نہیں ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021