مسلمانِ عالم عیدالفطر کے بعد اب عیدالاضحیٰ بھی کورونا وائرس کی وبائی صورتحال کے درمیان منانے جارہے ہیں ۔ ہر سال ذی الحجہ کا مہینہ آتا ہے تو مسلمانانِ عالم کو عید کی روحانی مسرتوں کے ساتھ حج کا تحفہ بھی دے کر جاتا ہے۔ لیکن امسال اقطاع عالم کے مسلمان، حج کو مقامی شہریوں اور سعودی عرب میں مقیم بیرونی شہریوں کی ایک مختصر تعداد کے لیے محدود کر دینے کے سبب اس فریضے کی ادائیگی سے محروم ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس بار دنیا توحید کے عالمی مرکز پر اس عالمگیر اجتماع کو دیکھ نہیں پائے گی جو اپنے اندر خدائے واحد کی بندگی، امن و سلامتی اور عالمی اخوت کا پیام سموئے ہوئے ہوتا ہے ۔اس صورتحال سے مسلمانوں کے دل یقیناً مغموم ہیں۔
عید الاضحٰی کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور حاضر ہوکر دوگانہ نماز کی ادائیگی کے بعد قربانی کے عمل کو ایک بار پھر دہراتے ہیں جسے ان کے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے ہزاروں سال پہلے محض اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بیٹے اسمٰعیل کی گردن پر چھری رکھ کر انجام دیا تھا۔ یہ ایک ایسی آزمائش تھی کہ جس سے بڑی کسی آزمائش کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسمٰعیلؑ کے اس جذبہ قربانی کو قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لیے ایک عظیم عبادت اور ایک لازوال اسوہ بنادیا ہے۔چنانچہ عید الاضحٰی کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ اگر دل میں ایمان ہے تو اللہ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ عید قرباں منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام و ایمان کی وہی روح اور اللہ کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی کیفیت پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہےتو وہ عید کے موقع پر محض ایک رسم پوری کرتا ہے۔ جب اہل ایمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں تووہ اپنے اس ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں کہ در حقیقت ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ اللہ کا ہے اور وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ چنانچہ قربانی کے وقت یہ الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ’’ بے شک میری نماز اور قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘
اسوۂ ابراہیمی توحید کی علامت اور حنیفیت (یکسوئی) کا اظہار ہے کہ ہماری پوری زندگی کا رخ اس اللہ کی طرف ہونا چاہیے جو بیت الحرام کا رب ہے۔ زندگی کا رْخ ایک، قبلہ ایک، مقصد ایک اور منزل بھی ایک ہونی چاہیے۔ اس فرمان کےعین مطابق جس کا اقرار ہم ہر دن کرتے ہیں:’’میں نے یکسو ہو کر اپنا رْخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ ’’عید الاضحٰی‘‘ اسوۂ ابراہیمی کی یادگار کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کے مکمل ہونے کا جشن بھی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفات کے میدان میں نازل ہونے والی یہ آیت دین کے مکمل ہونے کی خوش خبری ہے:’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔‘‘(المائدہ 3:5)۔ خوشی کے اس دن کو سنتِ ابراہیمی کے ساتھ جوڑ کر یہ طے کردیا گیا کہ اس دین کو ماننے والے اپنے ایمان کی تکمیل کے لیے اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح قربانی کریں جن کی ساری زندگی ہی قربانیوں سے عبارت تھی ۔
حضرت ابراہیمؑ اپنے دور میں جن حالات سے دوچار تھے کچھ ایسے ہی حالات سے آج دنیا بھر میں مسلمان دوچار ہیں۔ وقت کی نمرودی طاقتوں کو سب سے بڑا خطرہ اگر کسی سے محسوس ہوتا ہے تو وہ اسلام اور اس کی نظریاتی طاقت ہے۔ مسلمانوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ پیغام توحید اور احکام دین پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ’’ان کے من پسند اسلام‘‘ کو اختیار کریں اور اس تہذیب کے ڈھانچے میں خود کو ڈھال لیں جو اسلامی تہذیب کی عین ضد ہے۔ خود ہمارے ملک میں ہندتوا تحریک اپنے عروج پر ہے۔ غور کریں تو کچھ ایسی ہی صورتحال حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کا نقطہ آغاز تھی۔ اس وقت کا عراقی معاشرہ چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ الہ واحد کی بندگی کے بجائے مشرکانہ زندگی پر سمجھوتہ کرلیں جس میں سورج، چاند اور ستارہ پرستی کے علاوہ بے شمار چیزوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ ان سب کے خلاف حضرت ابراہیمؑ نے دلائل کی قوت کے ساتھ آواز اٹھائی تو قوم دشمنی پر اتر آئی اور آپ کو ہجرت پر مجبور کردیا۔ دراصل یہ وہی رویہ ہے جسے ہر دور میں باطل پرستوں نے حق پرستوں کے ساتھ روا رکھا ہے۔ آج بھی مسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں باطل طاقتوں کا نشانہ ستم بنے ہوئے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کےمختلف علاقوں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، فلسطینی مسلمان اپنی ہی سرزمین پر پناہ گزینوں جیسی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، عراق، شام، مصر اور لیبیا سمیت کئی مسلم ممالک مخالف اسلام طاقتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ گویا اولادِ ابراہیم ؑکے لیے آج بھی آزمائش کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ان نازک اور پرفتن حالات میں مسلمانوں کے لیے اسی روش کا اختیار کرنا ضروری ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے اختیار کی تھی یعنی پورے ایمانی جوش و جذبے اور صبر کے ساتھ نہ صرف حق کے راستہ پر جمے رہنا بلکہ اس کی طرف خلق خدا کو دعوت دینا ہے۔ عید قرباں کا پیغام یہی ہے کہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے دین و شریعت اور اسلامی تشخص اور شعائر اسلامی کے بقا و تحفظ اور اپنی نسلوں کے ایمان کی سلامتی کے لیے وقت کی نمرودی طاقتوں کا مقابلہ صبر و استقامت سے کیا جائے اور نور توحید کے اتمام کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی طرح جانفشانی کے ساتھ جدوجہد کی جائے اور اس راستے میں اپنی خواہشات ، آرام و سکون، جان و مال اولاد اور قیمتی سے قیمتی چیزوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے آپ میں ایک امت تھے اور آپ کی دعوت عالمی وحدت امت کا ایک پیغام ہے لیکن امت مسلمہ نے منتشر اور پارہ پارہ ہو کر بہت سی آفتیں خود ہی اپنے سر ڈال لی ہیں۔ آج یہ امت اگر امت واحدہ کی شکل میں باطل طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تو اتنی آفتیں در نہ آتیں۔ یہ عید دراصل ملت کے لیے انفرادی و اجتماعی خود احتسابی کا ایک پیام بھی ہے۔ ہم عید کی سوغات کے زیادہ حقدار اسی وقت ہوں گے جب اس احتساب میں کھرے ثابت ہوں گے۔ عید کا یہ موقع ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنے کا بھی پیغام دیتا ہے۔ قربانی جیسی عظیم عبادت کی انجام دہی میں جذبہ تفاخر کے بجائے شان بندگی کا عجز نمایاں ہونا چاہیے۔ قربانی کرنے والے اپنے برف خانوں کو گوشت سے بھرنے کے بجائے اپنے دلوں کو غرباو مساکین کی محبت سے بھرلیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہمارے آس پاس لاک ڈاؤن کے مارے کوئی سفید پوش عید کی ان نعمتوں سے محروم نہ رہیں۔ عید کے موقع پر ایسے افراد کی خاص طور پر دلجوئی کریں اور ان تک ان کا حصہ ضرور پہنچائیں۔
الغرض سنت ابراہیمی کے اس ایمان افروز موقع پر اہل ایمان اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے دین کی خاطر اس کی راہ میں ہر طرح کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ درحقیقت قربانی ہی وہ جذبہ ہے جو انسان سے بڑے سے بڑا کام کروالیتا ہے اور دین حنیف کو اس وقت سب سے زیادہ اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح ملت ابراہیمی میں بھی اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر وہ نہتے ہونے کے باوجود نمرود وقت کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بے خطر کود پڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِِ بام ابھی
درحقیقت قربانی ہی وہ جذبہ ہے جو انسان سے بڑے سے بڑا کام کروالیتا ہے اور دین حنیف کو اس وقت سب سے زیادہ اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح ملت ابراہیمی میں بھی اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر وہ نہتے ہونے کے باوجود نمرود وقت کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بے خطر کود پڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔