اداریہ: میڈیا کی آزادی کا مطلب

 

صحافیوں اور میڈیا پر حکومت وقت کی جانب سے قدغن لگانے کی کوشش نئی نہیں ہے یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔البتہ نئی بات یہ ہے کہ میڈیا خود اقتدار کے آگے گھٹنے ٹیک دے یا حکمرانوں کے سامنے رینگنے لگے۔ بھارت میں پہلی بار ہوا ہے کہ میڈیا اور سیاسی چپقلش کے سبب ایک پورے چینل بلکہ اس کے تمام ایک ہزار ملازمین کے خلاف ممبئی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔اس بدنام زمانہ چینل پردرج مجرمانہ کیس کا فیصلہ تو اگلے قانونی و عدالتی مراحل میں طئے ہوگا۔ لیکن یہ کیفیت حکومت اور چینل کی انا کےٹکراؤ اور ایجنڈے پر چلنے والی اس صحافت کا مظہر ہے جس کے نزدیک صحافتی اصولوں سے زیادہ نیتاؤں کی جی حضوری اور اپنی ٹی آرپی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔حد تو اس وقت ہوئی جب خود وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر نے ٹویٹر پر کچھ یوں نصیحتیں کیں کہ گویا کانگریس ہی آج بھی میڈیا کا استحصال کر رہی ہے اور بی جے پی خود دودھ کی دھلی ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہرپارٹی اپنے دورحکومت میں اپنی پسند کے میڈیا کی حمایت اور ناقدین کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ ایک طرف وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر کہتے ہیں کہ’’پہلے پیڈ نیوزاور فیک نیوز ہوا کرتی تھی اور اب ٹی آر پی جرنلزم کادور ہے۔‘‘ وزیرموصوف نے آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ کی ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’’ ٹی آر پی کی خاطر اشتعال انگیزی پر مبنی جاری صحافت کو فوراً روکنا ہوگا اور حکومت پریس کی آزادی میں یقین رکھتی ہے‘‘۔ سیاسی پشت پناہی سے آگے بڑھ کر کھلے عام وزراء اور بر سرِ اقتدار پارٹی کے لیڈروں نے ملزم چینل اور اس کے مبینہ صحافیوں کے حق میں بیانات جاری کیے۔ کیا اس طرح سیاسی وزن ایک چینل کے پلڑے میں ڈال کر پولیس کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی صورت اختیار نہیں کی گئی؟
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
ایک چینل کی دروغ گوئی اور اشتعال انگیز مباحثوں پرپولیس کیس درج ہوتاہے تو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن تلملا اٹھتی ہیں اور نفرت پھیلانے والے چینل کےخلاف کاروائی کو مہاراشٹر میں ایمرجنسی جیسی صورت حال سے تعبیر کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں ذرائع ابلاغ کاایک حصہ آمرانہ اور انتہاپسندانہ نظریات کے حاملین کے تمام جرائم میں شریک کار کے طورپر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی مار جب تک صرف مسلمانوں پر پڑتی رہی یہاں کی سیاسی جماعتوں اور اکثریتی باشندوں نے اپنی آنکھیں موند رکھی تھیں لیکن جوں جوں معاشرے کے دیگر طبقات اس کی نفرت انگیزی اور دوغلے پن کی زد میں آنے لگے، عوام و خواص کو شرانگیز میڈیا سے یک گونہ نفرت سی ہونے لگی۔ بعض سینئر صحافیوں نے مایوسی کے عالم میں یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ اب اس میڈیا کابگاڑ کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ یہ رائے بجائے خود شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ میڈیا کا ایک طبقہ نفرت کے ایجنڈے کو دو بنیادوں پر آگے بڑھا رہا ہے اول حکومت کی پشت پناہی اور دوم ٹی آر پی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر موٹی کمائی کا حصول! جب کہ سن 2019کے پارلیمانی انتخابات کے آخری مراحل میں نریندر مودی کے جادو کے ماند پڑنے کے اندیشوں کے پیش نظر اسی میڈیا نے حزب اختلاف کا کَوَریج بڑھا دیا تھا۔ زمان ومکان کے ساتھ میڈیا کا طورطریق ہمیشہ تبدیل ہوتا آیا ہے لہذا یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ چینلوں کی چیخ پکار کا موجودہ انداز اگلے برسوں میں بھی اسی چاؤ کے ساتھ دیکھا اور سنا جائیگا۔اسی رفتار سے پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا بھی اپنا رنگ ڈھنگ بدلنے میں لگا ہوا ہے جس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ الکٹرانک میڈیامیں بھی تبدیلی آنا لازمی ہے۔شاید اسی کی آہٹ سن کر مرکزی حکومت نے ڈیجیٹل میڈیا پر قدغن لگانے کی بات سپریم کورٹ میں کہی اور اصل مسئلے پر جواب دینے سے پہلوتہی کی تھی۔ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان کی خبریں اور نشریات جمہور عوام کے حق میں ہوں، آئین سے نہ ٹکراتی ہوں اور عوامی مفاد میں ہوں لیکن سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ حکومت اور انتظامیہ کو جواب دہ بنائیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ میڈیا سوال کرنے کے بجائے حکومت اورانتظامیہ دونوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرنے میں اپنی عافیت سمجھنے لگا ہے بلکہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میڈیا، پولیس انتظامیہ اور حکومتوں کےبیچ ایک طرح کے ٹکراؤ کی صورت حال پیداہو گئی ہے۔
ویسے توحکومت کے کاموں کی تشہیر کا کام وزارت اطلاعات و نشریات اورسرکاری اخبار ورسائل اور چینلوں کاہوتاہے۔ ان پرمستزاد ڈی جی آئی پی آرجیسے سرکاری محکمے نیز حکومتوں کے مشیر، ترجمان اور پی آر او بھی مقررکیے جارہے ہیں جو تمام میڈیا میں سرکاری پروپیگنڈے کی ذمہ داری کوسنبھالتے ہیں جس کے لیے حکومتیں کروڑہاروپیوں کابجٹ مختص کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود اگرغیر سرکاری ذرائع ابلاغ بھی حکومت کےگُن گانے کا کام انجام دینے لگیں تواسے کسی بھیطرح جمہوریت کے لیے مفید نہیں قراردیاجاسکتاہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں میڈیا کی آزادی باضابطہ قانون کے ذریعے عطا کی گئی ہے جبکہ بھارت کےآئین میں اس کا کوئی علحدہ قانون نہیں ہے بلکہ شق 19(1) کے تحت ملک کے ہر شہری کوبات کرنے اور اظہار کی آزادی حاصل ہے اوراسی ’’اِظہارکی آزادی‘‘ کے تحت بھارتی میڈیا کی آزادی کا حق شامل ہے۔ اظہار کے لفظ کی وسعت میں خیالات کی تبلیغ کے تمام طرح کے ذرائع شامل ہیں۔ البتہ بعض بنیادی پابندیوں کےساتھ اس کو مشروط بھی کیاگیاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اس حق کا کچھ زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور عام شہری اپنے سماجی وسیاسی حالات کے تحت اپنے اس حق کو برتنے سے قاصر رہتا ہے۔ لیکن جب عوام میں بیداری آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ نفرت بھرے ایجنڈے پر چلنے والے چینلوں کو بجاج اور پارلے جیسی مؤقر کمپنیاں اپنے اشتہارات دینے سے منع کردیتی ہیں۔ در اصل کوئی بھی میڈیا ہاؤس اشتہارات کو کھونا نہیں چاہے گا۔
تازہ ترین جھوٹی ٹی آر پی کا معاملہ نہ صرف دو چینلوں کے ایڈیٹروں کی انا کے ٹکراؤ کا ہے بلکہ اشتہارات کے بازار میں زیادہ حصہ داری کا بھی ہے۔ لہذا عوام ایک صارف(Consumer) کے طور پر میڈیا کے لیے ہمیشہ اہم رہیں گے۔ لازم ہے کہ عوام میڈیا پر اپنے اس حق سے واقف ہوں۔ اب جب کہ میڈیا کامعاملہ پولیس اور عدالتوں میں زیردوراں ہے تو میڈیا کے لیے بھی خود احتسابی کا موقع ہے۔ فی الحال اخبارات کے تنازعات اور معاملات کوسلجھانے کے لیے ایک پریس کونسل آف انڈیا موجود ہے۔ اس سے قبل میڈیا کونسل بنانے کی ایک تجویز آچکی ہے۔ جس کے تحت پرنٹ یعنی اخبارات، الیکٹرانک یعنی ٹی وی چینل اور ویب یعنی مختلف پورٹل اور یو ٹیوب وغیرہ کے مواد کو کنٹرول کرنے، نگرانی کرنے اور از خود ریگولیشن کروانے کی توقع ہے۔ یہ کام حکومتوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا لیکن میڈیا بھی خود کے لیے کوئی نظم نہیں بنا پارہا ہے۔ اسوقت تک عوام کو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے اور حکومت اورکارپوریٹ کی فنڈنگ اور دباؤ سے آزاد متبادل میڈیا کو تقویت پہنچانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ بعض ویب پورٹلوں نے اس سمت میں کوششیں کی ہیں، ہماری ملت بھی اس طرح کے پروجکٹ پر کام کیوں نہیں کرسکتی خاص طور پر جب کہ اس میں لاگت بھی کم ہے اورسبسکرپشن کے ذریعے خبروں کے لیے خرچ کرنے کامزاج بھی پیداہوتا جائیگا۔ اسی طرح عوام کو خود مختار اور آزاد میڈیا سے خبریں حاصل ہو سکیں گی۔ اس کے ساتھ ہی اشتہارات دینے والی کمپنیوں پر سماجی و مالی دباؤ پیدا کرنے کے لیے عوام کے بیچ تحریک کی ضروت ہے۔ ساتھ ہی اشتعال انگیزی اور نفرت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے انفرادی و اجتماعی کاوشیں جاری رکھی جائیں‌۔ میڈیا پر نظر رکھنے اور جمہوری طریقوں سے مکالمے کرنے کے لیے ملگ گیر سطح پر نہ سہی تو کم از کم ریاستی سطح پر ہمیں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020