اداریــــہ

افغانستان:امریکہ کی شکست سے ابھرتا نیا منظر نامہ

افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد ’تیسرے سوپر پاور‘ امریکہ کو بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر نہایت کم وسائل کے ساتھ طالبان کی کامیابی سے دنیا حیرت زدہ ہے اور اس مخمصے میں ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں یا نہیں۔ افغانستان میں بیس سال تک غیر قانونی قبضہ اور جارحیت کے بعد امریکہ، برطانیہ، نیٹو اور آسٹریلیائی قابضین نے اپنا بوریا بستر تو لپیٹ لیا لیکن ان کی شکست کے ملبہ سے بہت سارے سوالات ابھر رہے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ اپنی اگلی نسل کو اب مزید افغان جنگ میں نہیں جھونک سکتا۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ افغانستان میں استحکام فوجی حل کے ذریعہ ممکن نہیں ہے اس لیے امریکہ نے اس تھکا دینے والی طویل اور مہنگی جنگ سے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے۔ ایک اور بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر امریکہ یہ فیصلہ پانچ سال یا پندرہ سال بعد لیتا صورتحال بہرحال بدلنے والی نہیں تھی۔ شاید اس سے زیادہ واضح اعترافِ شکست ممکن نہیں ہے۔ لیکن کیا امریکہ سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ اگر افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں تھا تو امریکہ اور اس کے اتحادی بیس برسوں تک وہاں کیا کرتے رہے اور افغانیوں پر کیوں مسلط رہے؟ دو عشروں کا عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی معمولی عرصہ تو نہیں ہوتا اس قدر طویل مدت تک افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد اسے اب یہ خیال کیوں آیا کہ افغانستان کا فوجی حل ممکن نہیں ہے؟ وہ بیس سال تک افغان شہریوں کو کس جرم کی سزا دیتا رہا ان کی ترقی خوشحالی اور آزادی میں کیوں رکاوٹ بنا رہا اور کس بین الاقوامی قانون کے تحت اس نے بیس برسوں تک افغانستان پر اپنا قبضہ جمائے رکھا؟
افغانستان پر قبضہ کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جارحانہ قبضوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ برطانیہ نے 193 ممالک پر قبضے کیے جبکہ آسٹریلیا نے 85 فرانس نے 82 امریکہ نے 72 (عالمی جنگ دوم کے بعد 52) جرمنی نے 39 اور کناڈا نے 25 ملکوں پر قبضے کیے۔ جب کہ اقوام متحدہ کا منشور کسی دوسرے ملک پر صرف اسی وقت قبضہ کی اجازت دیتا ہے جب (الف) اس ملک نے حملہ کیا ہو (ب) اس ملک کے حکمرانوں نے دعوت دی ہو یا (ج) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اجازت دی ہو۔ افغانستان کے معاملے میں ان تینوں میں سے کوئی بات بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی بین الاقوامی قانون کو پامال کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی اور بڑے پیمانہ پر قتل وغارت گری کرتے ہوئے تقریباً ڈھائی لاکھ افغانوں کی نا حق جان لی۔ کیا ان بے قصور افغان شہریوں کے خون کا حساب نہیں لیا جانا چاہیے؟ کیا اقوام عالم اور ذرائع ابلاغ کو یہ سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں؟ اور کیا جنگی جرائم کے مجرمین کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرنا چاہیے؟
طالبان کی اس کامیابی کے ساتھ عالمی سیاست میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی ہے۔ خاص طور پر چین نے جو عالمی قیادت کے امریکی دعویٰ کے کمزور پڑ جانے اور طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد عالمی ساکھ مجروح ہوجانے سے حوصلہ مند ہے، سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ادھر جنوبی ایشیا کا منظر نامہ بھی ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔ اس بدلتے منظر نامے پر چین کے ساتھ جہاں روس، ترکی اور پاکستان اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں وہیں بھارت اور ایران اپنے مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی طے کرنے میں مصروف ہیں۔ میڈیا بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ نے ان تمام برسوں میں دنیا کے سامنے طالبان کی جو تصویر بنائی اور خود طالبان نے اپنے سابقہ عہد حکمرانی میں ایک سخت گیر تنظیم کی حیثیت سے اپنی جو چھاپ چھوڑی ہے، شاید دنیا کو اس کے اثر سے باہر نکلنے میں ابھی وقت لگے گا۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان انتقامی کارروائیوں سے گریز کرتے ہوئے بار بار عام معافی کا اعلان کر رہے ہیں، نیز شریعت کے دائرہ میں ایک شمولیتی حکومت، خواتین کے حقوق کا احترام، حجاب اور داڑھی کے معاملہ میں سختی نہ برتنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے مسلسل یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اب وہ 1999 والے طالبان نہیں رہے۔ اس کے باوجود دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ طالبان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طرف طالبان کسی خونریزی کے بغیر ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے امن و امان کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف مغرب کی پروپیگنڈہ مشنری دنیا کو یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ طالبان امن کے دشمن ہیں اور اس دعوے کے ثبوت میں مبالغہ آمیز کہانیاں گھڑی جاری ہیں۔ اس اندیشہ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جن طاقتوں کو اسلامی قانون شریعت اور مسلمانوں سے بغض ہے وہ ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرتے ہوئے افغانستان کو سیاسی عدم استحکام کے دلدل میں
دھکیل سکتے ہیں۔
یہ حالات افغانیوں کے لیے سخت آزمائشی ہیں اس لیے انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ ایک طرف انہیں ملک کو چلانے کے لیے اہل قیادت فراہم کرنی ہے تو دوسری طرف دنیا سے اپنی حکومت کو تسلیم کروانے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ نیز جنگ سے تباہ حال اور ایک غریب ملک ہونے کے ناطے معاشی استحکام کے ذریعے اپنے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لے آنا اور ان کی توقعات پر کھرے ثابت ہونا بھی ایک چیلنج ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انہیں مالی امداد کی ضرورت ہو گی اور دنیا کے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کو استوار کرنا ہو گا۔ اس دوران افعانستان میں تشکیل حکومت کے ضمن میں مشاورت کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ نئی افغان حکومت سب کو ساتھ لے کر بنائی جائے گی۔ افغانستان میں مختلف لسانی ومذہبی گروپوں کے وجود کے مد نظر جامع نمائندگی والی حکومت کے ذریعے ہی اس تباہ حال ملک کو مضبوط و مستحکم، خوشحال اور پر امن بنایا جا سکتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021