اختلاف رائے کی آواز دبانا چاہتی ہے حکومت :شرجیل امام

15ماہ سے عدالت میں نہیں ہوئی پیشی۔ٹیلیفونک انٹرویو میں جدوجہد جاری رکھنے کا عزم

تروشی آسوانی، آزاد صحافی ،نئی دلی

 

ہندوستان میں سیاسی اقتدار کو اجارہ دار کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اورمسلم مخالف فطرت اس اجارہ داری کا ایک اہم پہلو بن گیا ہے۔ ایک سیاسی مخالف کے طور پرتینتیس سالہ شرجیل امام پچھلے تقریباً اٹھارہ مہینوں سےبغیر کسی پیشی کےجیل میں بندہے اور اسے مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے۔آرٹیکل 14 نامی ایک ویب پورٹل کے نمائندے کو تہاڑ جیل سے ٹیلیفونک انٹرویو دیتے ہوئےشرجیل امام نے خود یہ بات کہی۔
آرٹیکل 14کو دیے گئے اپنے ٹیلیفونک انٹرویو میں شرجیل امام نے کہا کہ سن 2019 کے بعد جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی ، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے کوشش اور سی اے اے کی منظوری جیسے مختلف مسلم مخالف فیصلوں کے خلاف وہ برابر لکھ رہے تھے اور تاریخ اور سیاست کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک سافٹ ویئر انجینئر کی حیثیت سے اپنے کریئر کو بھی چھوڑدیا تھا مگردہلی پولیس نے اٹھائیس جنوری 2020 کو بہار کے ان کے آبائی گاؤں سے انہیں ان فیصلوں کے خلاف احتجاج کر نے پر گرفتار کیا۔
پانچ ریاستوں دہلی ،یوپی ، آسام ، اروناچل پردیش اور منی پور میں شرجیل امام کے خلاف مقدمات اور دہلی میں دائر ایف ائی آر میں ان پر بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کے بعد انہیں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
ریاستی پولیس افسران کے ذریعہ پچیس جنوری 2020 کوشرجیل امام کے خلاف عام لوگوں کی طرف سے کوئی شکایت نہ کیےجانےکے باوجود بھی پانچ شکایتیں درج کیں۔اگرچہ بھارت میں پولیس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے اس کے باوجود بھی پولیس اکثر ایسا نہیں کرتی ۔اب پندرہ ماہ گزرجانے کے بعد بھی امام کے خلاف عوام نے کوئی شکایت نہیں کی ہے ۔ اگر شرجیل امام قصوروار قرار دیے جاتے ہیں توان کے خلاف جو الزامات ہیں اس کے مطابق ان کی قید میں تاحیات توسیع کے امکانات ہیں۔ لیکن نیشنل کرائم بیورو کےریکارڈ کے مطابق یو اے پی اےکے تحت بغاوت کے مقدمہ کے لئے سزا کی شرح 3.3 فیصدہے اور دہشت گردی کے لئے 29.2 فیصدہے۔
جولائی 2020 میں آرٹیکل 14 کی جانب سے کیے گئے تجزیے سے پتہ چلتا ہےکہ یو اے پی اے کی دفعات کےتحت دائر مقدمات اکثر غیر متعلقہ تھے۔ کیونکہ یو اے پی اے خاص طور پر نہ صرف دہشت گردی کی مبینہ کارروائیوں کے لیے پیشگی ضمانت سے انکار کرتا ہے بلکہ یو اے پی اے میںمبینہ دہشت گردی کی تمام کاروائیاں ، بشمول جلسوں اور مظاہروں میں شرکت ، تقریریں کرنا ، قرض دینا بھی جرم کی فہرست میں شامل ہے۔
آرٹیکل 14 کے ڈیٹا بیس کے اعداد وشمار کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدے پر رہتے ہوئے 2014 اور 2020 کے دوران گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک میں بغاوت کے معاملات میں اٹھائیس فیصد اضافہ ہوا ہے ، اس میں زیادہ تر اضافہ احتجاجی تحریکوں کی وجہ سے ہے۔
گرفتاری کے 535 دنوں بعد (15 جولائی 2021 تک) ، دہلی کی تہاڑ جیل میں شرجیل امام کو ان الزامات کی بنا پر قید کیا گیا ہے جو تاحال ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ اس دوران جولائی 2020 میں گوہاٹی سنٹرل جیل میں رہتے ہوئے شرجیل امام کورونا پازیٹیو ہو گئے تھے۔
شرجیل امام کے خلاف دائر کی گئی مختلف ایف آئی آر میں بغاوت،طبقات کے مابین دشمنی کو فروغ دینے اورسازش رچنے جیسے دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔بعض ایف ائی آر میں
اسے فروری 2020 کے دہلی میں ہونے والے فسادات میں شامل بتایا گیا ہے اور اسی طرح ڈسمبر 2020 میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تشدد سے بھی جوڑا گیا ہے ۔اکثر ایف ائی آر میں آئی پی سی کے سیکشن 124 اے کے تحت ان پر ملک کے خلاف بغاوت کا الزام ہے ۔بتایا گیا ہے کہ دہلی ، یوپی اور آسام کے پولیس دستوں نے اپنی ایف آئی آر پر کارروائی کی ہے جبکہ منی پور میں کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ مئی 2020 میں ، اروناچل پردیش میں امام کو ضمانت مل گئی ، کیونکہ پولیس ان کے خلاف نوے دن کے اندر چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام رہی۔
حالانکہ آسام پولیس کے ذریعہ دائر مقدمات میں ، امام کو بائیس مئی 2020 کو ضمانت مل گئی تھی ، لیکن بنیادی طور پر دہلی فسادات میں سازش کے لیے دائر UAPA ایف آئی آر کی وجہ سے انہیں جیل سے چھٹکارا نہیں ملا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں امام کو تشدد سے جوڑنے کے معاملے میں شرجیل امام کے وکیل احمد ابراہیم نے ضمانت کی درخواست دی تھی لیکن کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے اس معاملے کی سماعت نہیں ہوئی ۔ ابراہیم نے کہا کہ اگر مقدمے کی سماعت میں اتنا طویل عرصہ لگ جائے گا تو ضمانت کا مقصدہی فوت ہو جائے گا۔ پندرہ جولائی کو بغاوت کے مقدمے میں ضمانت طلب کرتے ہوئے شرجیل امام نے کسی احتجاج یا مظاہرے کے دوران کسی بھی طرح کے تشدد میں شریک ہونے یا اس کی ترغیب دینے سے انکار کردیا۔ اے ایس جے راوت نے امام کے وکیلوں کے پیش کردہ دلائل سننے کے بعد معاملہ کی اگلی سماعت دو اگست تک متلوی کردی ۔
تہاڑ جیل سے آرٹیکل 14 کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے شرجیل امام نے بتایا کہ بی جے پی کے ہندوستان میں اختلاف رائےرکھنے والوں کی آواز کو دبانے اور عدم اتفاق کو انٹرنیٹ بند کرکے روکا جارہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ ’ آپ نے جیل میں کتنے دن پورے کیے ؟ شرجیل نے بتایا کہ ’ میں نے اٹھائیس جنوری 2020 کو دہلی پولیس کے سامنے خود سپردگی کی تھی۔ ساتھ ہی میں نے مختلف ریاستوں کی پولیس تحویل میں تقریبا ایک ماہ اور گوہاٹی سنٹرل جیل میں تقریبا چھ ماہ اور تہاڑ سنٹرل جیل میں نو ماہ سے زیادہ عرصہ حراست میں گزارا ہے۔ جب ان سے ان کے خلاف لگےالزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں’ ایک ہی دن پانچ ریاستوں میں پانچ ایف آئی آر کی توقع نہیں کر رہا تھا‘۔ مجھے خصوصاً شاہین باغ کے مظاہرین کی طرف سے کچھ ردعمل کی توقع تھی۔ اسی طرح جب چھ ماہ بعد مجھے دہلی فسادات کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیاتومجھے احساس ہوا کہ حکومت مجھے عبرتناک سزا دے گی تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان دوبارہ یہ خطرہ مول لینے کی ہمت نہ کر پائیں ۔ گوہاٹی سنٹرل جیل میں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں شرجیل نے بتایا کہ وہ اپنا وقت لائبریری میں شمال مشرقی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ گزارتا تھا۔ اس مدت میں اس نے درجنوں کتابیں پڑھیں، کچھ بنگلہ دیشی اور کچھ آسامی زبان سیکھی۔اس نے کہا کہ ’میں نے وقت کے ساتھ ہی دونوں زبانوں میں اخبارات پڑھنا شروع کردیے تھے۔ عدالتی احکامات پر تقریبا سترہ ہزار صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کی سافٹ کاپیاں پڑھیں‘۔
جب شرجیل امام سے پوچھا گیا کہ آپ کوکس چیز نے احتجاج پر مجبور کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ احساس ہورہا تھا کہ سیاست تیزی سے مسلم دشمنی کی طرف جا رہی ہے اور اقتدار چند افراد کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی پر بھی سمجھوتہ کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ 1984 کے بعد پہلی بار کسی پارٹی کو بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار ملا تھا اس لیے اس حکومت نے مختلف خطوں کے مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے سخت فیصلے لیے ۔میں کچھ برسوں سے اس طرز سیاست پر لکھ رہاتھا اور گزشتہ دو سالوں میں ، تاریخ ، تقسیم اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق وغیرہ کے مطالعہ کے لیے میں خود کو فارغ کرنا چاہتا تھا اس لیے سافٹ ویئر انجینئر کی حیثیت سے اپنی باقاعدہ ملازمت چھوڑ کر جز وقتی ملازمتیں حاصل کی تھیں۔ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ شرائط صرف نام (سیک) کے لیے ہیں اور کانگریس یا بی جے پی کی ہو ، کسی بھی مضبوط پارٹی کے ذریعہ اس کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حالیہ دنوں میں ہندوستان کے آئینی سیٹ اپ میں موجود فطری خامیوں نے مجھے احتجاج کرنے پر مجبور کیا۔
سی اےا ے یکطرفہ کیسے منظور ہوا ؟کئی کئی مہینوں تک انٹرنیٹ کیسے بند کیا گیا۔ کشمیر سے دفعہ 370 یک لخت کیسے منسوخ کیا گیا؟ ان باتوں سے محسوس ہوا کہ سسٹم میں بنیادی طور پر کچھ غلط ہے۔ شرجیل امام کا کہنا تھا کہ بھارت اظہار رائے کی محدود آزادی کے ایک مرحلے میں داخل ہورہا ہےاس لیے کسی کی رائے سے عدم اتفاق کو دہشت گردی بتایا جا رہا ہے ۔
اس سے قبل ، تنظیموں کو دہشت گرد سمجھا جاتا تھا ، لیکن بی جے پی کے ذریعہ لائے گئے قوانین کے بعد افراد کو بھی دہشت گرد سمجھا جاسکتا ہے۔اس ترمیم سے یو اے پی اے کے دائرہ کار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ علیحدگی پسند تنظیمیں اپنی جگہ لیکن اب علیحدگی پسند افراد بھی سرکاری عتاب کے شکار ہو سکتے ہیں۔ نائن الیون کے حملے کے بعد ، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے پوری دنیا کی حکومتوں کوگویا اختلاف رائے دہندگان کو مجرم قرار دینے کا لائسنس دیا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے انتظام میں تبدیلی کی خواہش ہے تو مجھے دہشت گرد کہنا اب بہت آسان ہوگیاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسانوں کے خلاف یو اے پی اے نہیں لگا سکتےکیوں کہ مسلمانوں کو ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دینا آسان ہے ، جبکہ کاشت کاروں کے لیے اگر وہ حکومت مخالف ہوں تب بھی انہیں ملک دشمن کالیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی دفعات کافی مبہم ہیں۔
اپنی پڑھائی اور تعلیم کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ابھی میں سی اے پڑھ رہا ہوں،میں کوشش کر رہا ہوں کہ جیل میں رہتے ہوئے اپنے تھیسس کے لیے سیکنڈری پڑھائی کروں، تقسیم کے سلسلے میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات ایم فل اور پی ایچ ڈی دونوں میں میرا موضوع ہےاور فرقہ وارانہ فسادات (دہلی فسادات) کے ماسٹر مائنڈکے الزام میں ہی مجھے گرفتار کیا گیا ہے ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا احتجاج کی فعال آواز بننے پر کبھی آپ کو افسوس ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’ مجھے اس پر افسوس نہیں ہے‘۔ ان سے جب حب الوطنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ’ حب الوطنی ایک مبہم اصطلاح ہےمیں اس کے بجائے یہ ثابت کروں گا کہ میں ایماندار ہوں اور ایک ایسے مباحثے میں حصہ لے رہا ہوں جو جمہوری نظام کو مزید مضبوط ،اور مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ میں محب وطن کہلانے کی خواہش نہیں کرتا ، بلکہ مجھے ایک جمہوریت پسند کہا جائے، ساتھ ہی میں ایک مسلمان ہوں جو اسلامی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
یاد رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران شاہین باغ اور دیگر شہروں میں شرجیل امام کی تقریریں ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ کے نعرے کے ساتھ مشہور ہو گئی تھیں ۔
www.article-14.com
ترجمہ و تلخیص: سالک ندوی
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021