اتراکھنڈ میں سب سے کم مدت وزیر اعلیٰ رہنے کا ریکارڈ بنا

سنگھ کے تربیت یافتہ حکمرانی کے قابل نہیں؟

ڈاکٹر سلیم خان

 

تیرتھ کی بد انتظامی اور احمقانہ بیانات سے آر ایس ایس نظام کی خامیاں اجاگر
تیرتھ سنگھ راوت کو الوداع کہتے ہوئے مودی جی کا مشہور مکالمہ یاد آتا ہے جو اب ضرب المثل بن چکا ہے ۔ ’2 مئی دیدی گئی‘۔ 2 مئی تو آئی گئی ہوگئی لیکن بی جے پی کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے ممتا بنرجی آج بھی موجود ہے۔ ممتا بنرجی نے اب مودی اور شاہ کے کٹھ پتلی گورنر جگدیپ دھنکر پر حوالہ کیس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے بدعنوان قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے ایک ’کرپٹ آدمی‘ کو گورنر بنائے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جین حوالہ کیس میں دھنکر کا نام شروع سے آخر تک ہے۔ ممتا کے جواب میں دھنکر نے پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ ابھی تک کسی کو جین حوالہ کیس میں سزا نہیں سنائی گئی ہے۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے حوالہ کیس میں ملزموں کو ابھی رہا نہیں کیا ہے اس لیے دھنکر کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ آنجہانی سشما سوراج نے ان ملزمین کو کسی آئینی عہدے پر رکھنے کی مخالفت کی تھی اس لیے عارف محمد خان سمیت جگدیپ دھنکر کی فوری چھٹی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ بدعنوانی کے ساتھ قومی سلامتی کا بھی معاملہ ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ آئینی مشکلات کے سبب آج تیرتھ تو کل ممتا کو جانا پڑے گا خام خیالی ہے۔
ایوان اسمبلی میں گورنر کو ٹی ایم سی کے علاوہ بی جے پی کا شور وغوغا بھی برداشت کرنا پڑا۔ یہ ستم ظریفی ہے بی جے پی کے سبب وہ اپنا خطبہ پورا نہیں کرسکے اور چند منٹوں میں اسے لپیٹ کر چلتے بنے۔ گورنر کے بعد ٹی ایم سی کا اگلا نشانہ حزب اختلاف کے رہنما شبھیندو ادھیکاری ہیں۔ ان کے خلاف بھی مورچہ کھول دیا گیا ہے۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا اور شوبھندو ادھیکاری کے درمیان ملاقات کا معاملہ سامنے آتے ہی ترنمول کانگریس نے سی بی آئی کے وکیل کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر درخواست کی کہ انہیں اس اہم عہدہ سے برطرف کردیا جائے۔ اس کے بعد تشار مہتا نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ادھیکاری سے ملاقات نہیں کی ہے۔ تاہم انہوں نے اقرار کیا کہ ادھیکاری ان کے گھر آئے تھے، مگر چونکہ وہ کسی اور میٹنگ میں مصروف تھے اس لیے ملاقات نہیں کر سکے، اس طرح وکیل صاحب خود پھنس گئے۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے شبھیندو کو اپنے گھر کیوں بلایا اور انتظار کرنے کو کیوں کہا تھا؟ انہیں تو چاہیے تھا کہ ملنے سے صاف انکار کر دیتے لیکن وہ اس کی جرأت نہیں کر سکے۔ شبھندو ادھیکاری کا گھر آنا اور ملاقات نہ ہونا بظاہر ناممکن ہے۔ یہ تو سیدھے سیدھے ’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘ والا معاملہ ہے۔
خیر بات تیرتھ سنگھ راوت کی چل رہی تھی۔ کون جانتا تھا 2؍مئی کو نہایت خوش نظر آنے والے تیرتھ پر لوگ ٹھیک دو مہینے بعد 2؍جولائی کو کہیں گے 2؍جولائی تیرتھ کی دھلائی‘ اور وہ بھی گنگوتری کے گنگا جل سے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ آخر جب مودی اور شاہ پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے تو اس دن تیرتھ سنگھ اتنے خوش کیوں تھے؟ 2؍مئی کو اتر اکھنڈ کے سلٹ اسمبلی ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہوا تھا۔ اس میں بی جے پی کے امیدوار مہیش جینا نے 4697 ووٹ سے کانگریس کے گنگا پنچولی کو شکست دے دی تھی۔ اس انتخاب میں جینا کو 21874 ووٹ ملے تھے اور پنچولی کو 17177 ووٹ ملے تھے۔ یہ تیرتھ سنگھ کے وقار کا مسئلہ تھا اور اس فتح کے بعد انہیں یقین ہو گیا تھا کہ 2022 میں صوبائی انتخاب میں بھی وہی کامیاب ہوں گے لیکن دو مہینے بعد ان کا خواب بکھر گیا اور نئی سرکار بنانا تو دور وہ اپنی پرانی کرسی بھی نہیں بچا پائے۔ آج وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوں گے تو انہیں خیال آتا ہوگا کہ کاش مہیش جینا کے بجائے وہ خود میدان میں کود کر انتخاب جیت جاتے۔ اس طرح مرکز کے لیے آئینی اڑچن کا بہانہ بناکر انہیں دوددھ سے مکھی کی مانند نکال باہر کرنا ممکن نہ ہوتا۔ وہ بھی یوگی آدیتیہ ناتھ کی مانند مرکز کے ساتھ چوہے بلی کی آنکھ مچولی کھیلتے۔
ایک سوال یہ ہے کہ آخر تیرتھ سنگھ راوت نے وہ انتخاب خود کیوں نہیں لڑا اور مرکز نے انہیں میدان میں کیوں نہیں اتارا؟ مرکز کے نزدیک شاید وہ آزمائشی دور میں تھے۔ اسے تیرتھ کی صلاحیت کا اندازہ نہیں تھا اس لیے اس نے جلد بازی کرنے کے بجائے انہیں اپنے کرتب دکھانے کا موقع دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی آزمائش میں وہ پوری طرح ناکام ہو گئے اس لیے انہیں خاصا رسوا کرکے نکالا گیا۔ تیرتھ نے خود انتخاب لڑنے پر اس لیے اصرار نہیں کیا کیونکہ ان کے اندر اعتماد کی کمی تھی۔ یہ کمی استعفیٰ سے پہلے تک موجود تھی۔ اتر اکھنڈ میں فی الحال دو نشستیں خالی ہیں۔ مرکز چاہتا تھا کہ وہ گنگوتری سے لڑیں لیکن ان کے اندر تو ہلدوانی سے لڑنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ پوڑھی گڑھوال کی محفوظ نشست سے اپنے رکن اسمبلی کو استعفیٰ دلوا کر وہاں سے قسمت آزمائیں۔ وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے باوجود اگر خود اعتمادی کا اس قدر فقدان ہو تو بھلاوہ رہنمائی کیسے کرسکتا ہے؟ سنگھ پریوار اپنے کارکنان کو بولنا تو خوب سکھاتا ہے لیکن ان کے اندر اعتماد نہیں پیدا کرپاتا اس لیے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
خود اعتمادی کی کمی سنگھ کی عام بیماری ہے۔ اتر پردیش میں فی الحال ایک وزیر اعلیٰ اور دو نائب وزرائے اعلیٰ ہیں لیکن ان تینوں حضرات نے ضمنی انتخاب لڑ کر اسمبلی میں جانے کی ہمت نہیں دکھائی اور سب کے سب بغیر انتخاب جیتے آئینی کونسل کے چور دروازے سے وزارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر پایا جانے والا خوف بیجا نہیں ہے۔ وزیر بننے سے قبل یوگی آدیتیہ ناتھ گورکھپور سے اور کیشو پرساد موریہ اعظم گڑھ میں پھولپور سے رکن پارلیمان تھے۔ ان دونوں نے صوبائی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد قومی سیاست سے کنارہ کشی کی تو ان کے حلقے میں ضمنی انتخاب ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برسوں کی گورکھپور سیٹ جو یوگی آدیتیہ ناتھ کو اپنے استاد اوریدیہ ناتھ سے وراثت میں ملی تھی بی جے پی ہار گئی۔ یہ بات قابلِ شرم ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے حلقہ انتخاب سے بی جے پی امیدوار کو کامیاب نہیں کر سکا۔ یہی حال کیشو پرشاد موریہ کا ہوا۔ وہاں بھی بی جے پی امیدوار کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ ان لوگوں کا یہ حشر دیکھ کر ڈاکٹر دنیش سنگھ جو لکھنو کے میئر تھے ڈر گئے اور ان تینوں بزدل رہنماوں نے کونسل میں پناہ لی۔
بی جے پی کے اسٹار پر چارک اور دبنگ رہنما یوگی کا اگر یہ حال ہے تو بیچارے تیرتھ سنگھ راوت کس کھیت کی مولی ہیں۔ وہ تو بدقسمتی سے اتر اکھنڈ میں کونسل نہیں ہے ورنہ تیرتھ وہیں پناہ لے لیتے۔ خیر بات بار بار اِ دھر اُدھر نکل جاتی ہے اس لیے تیرتھ پر مرکوز کی جائے۔ موصوف کو 10؍مارچ کے دن اتر اکھنڈ کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا۔ حلف برداری کے وقت انہوں نے مارچ کی گرمی کے باوجود اون کی کالی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ کالی ٹوپی اپنا سرگرم رکھنے کے لیے نہیں تھی کیونکہ اس وقت وہ ویسے ہی بہت گرم تھا۔ ان کے دماغ میں ہمالیہ پربت کی ٹھنڈک تو اب آئی ہے۔ وہ کالی ٹوپی دراصل یہ بتانے کے لیے تھی کہ ایک سنگھ پر چارک کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا ہے۔ عہدے کے لیے منتخب کیے جانے کے بعد تیرتھ سنگھ نے کہا تھا ’’میں سنگھ کا پرچارک رہا ہوں، سنگھ سے منسلک ہوا، ودیارتھی پریشد سے جڑا اور جنرل سکریٹری بنا۔ جو بھی ذمہ داری مجھے دی گئی، اسے میں نے نبھایا اور آگے بھی نبھانے کی پوری کوشش کروں گا‘‘۔ اس طرح آر ایس ایس کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑے فخر سے بیان کیا۔ سنگھ پرچارکوں کو اس سے یقیناً بڑا حوصلہ ملا ہوگا اور انہوں نے بھی بہت سارے خواب سجائے ہوں گے۔ تیرتھ کی اس رسوا کن بدائی پر آج وہ سارے لوگ سوگوار ہیں۔
اس وقت مرکزی قیادت یعنی وزیر اعظم، امیت شاہ اور قومی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے یہ عہدہ حاصل ہوگا۔‘‘ یہ بات درست ہے لیکن ان کے خواب وخیال میں یہ بات بھی نہیں رہی ہوگی کہ اس طرح پیٹھ میں چھرا گھونپ کر انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔ استعفیٰ سے تین دن قبل اتر اکھنڈ کے رہنے والے پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے تیرتھ کو دہلی بلوایا اور ملاقات کے لیے دس گھنٹوں تک انتظار کروایا۔ اس کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ کی رہائش گاہ پر تینوں رہنماوں کی ملاقات ہوئی تو کہا گیا کہ یہ نشست پارٹی حکمت عملی پر غور کرنے کے لیے تھی۔ اسی کے ساتھ اقتدار کے گلیارے میں کھسر پھسر شروع ہوگئی۔ دو دن بعد دوبارہ یاد کیا گیا اور یہ طے ہوگیا کہ تیرتھ کی یاترا سماپت (ختم) ہو گئی۔ 115 دن کے بعد ان کو صوبے کے سب سے کم دنوں کے اندر اپنے عہدے سے سبکدوش کیے جانے کا تمغہ تھما کر چھٹی کردی گئی۔ اس طرح ساری دنیا کے سامنے یہ حقیقت کھل کر آگئی کہ ایک سنگھ پرچارک کے اندر چار مہینے تک سرکار چلانے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ اس سے بہتر تو کانگریس اور اے جی پی سے نکل کر بی جے پی میں آنے والے آسام کے وزرائے اعلیٰ ہیں کہ ایک نے مدت کار مکمل کی اور دوسرا بڑے آرام سے حکومت کر رہا ہے۔
کالی ٹوپی پہن کر وزارت سنبھالنے والے تیرتھ سنگھ نے استعفیٰ کے وقت اپنی ٹوپی اتار کر پھینک دی۔ ان کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ پریس کانفرنس بلائی، اپنے کارنامے گنوائے، رہنماوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا لیکن جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ کیا آپ استعفیٰ دے رہے ہیں تو کچھ بولے بغیر چلے گئے۔ سنگھ پریوار اپنے پرچارکوں کو شکست کا غم برداشت کرنے کی تربیت نہیں دیتا۔ تیرتھ کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر جو تلاطم برپا تھا اسے وہ چھپا نہیں پائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں امید رہی ہو کہ نہ جانے کب مرکزی قیادت کا موڈ بدل جائے اور کوئی انجانی خوشخبری آجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اتر اکھنڈ کو 20 سال پہلے اتر پردیش سے الگ کر کے بنایا گیا تھا۔ اس طرح اس میں زیادہ سے زیادہ چار وزرائے اعلیٰ ہونے چاہئیں تھے حالانکہ اکیلے جیوتی باسو نے ساڑھے 22 سال حکومت کی تھی۔ تیرتھ کی ایسی تقدیر نہیں تھی حالانکہ وہ خاصے کم عمر تھے۔ دیر اور دور تک جاسکتے تھے۔ اتر اکھنڈ کے اندر ان 20 سالوں میں صرف کانگریس کے این ڈی تیواری نے اپنے 5 سال پورے کیے اور اس کے بعد بی جے پی کے ترویندر سنگھ راوت نے 4 سال حکومت کی۔ اب ان دونوں کے نو سال نکال دیئے جائیں تو باقی گیارہ سال چھ وزر ائے اعلیٰ میں منقسم ہو جاتے ہیں۔ بی جے پی اس سے پہلے بھی 2012 میں الیکشن سے قبل رمیش پوکھریال نشنک (جو اب انسانی وسائل کے وزیر ہیں) کو ہٹا کر بھون چند کھنڈوری کو وزیر اعلیٰ بنا چکی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور پارٹی الیکشن ہار گئی۔ اب یہ حالت ہے کہ بی سی کھنڈوری کے بیٹے منیش کھنڈوری نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے کیونکہ بی جے پی کو راوت برادری کے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ ویسے مثل مشہور ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ عمر سے شیر کی ایک سال کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ اسی طرح ترویندر اپنے 4سالوں میں اتنے مقبول نہیں ہوئے جتنے چار مہینوں میں تیرتھ ہو گئےحالانکہ دونوں نے بھی کوئی قابل تعریف کام نہیں کیا لیکن یہ مودی اور یوگی کا زمانہ ہے۔ اس میں ہر سیاست داں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کے اس شعر کو عملی جامہ پہناتا دکھائی دیتا ہے ؎
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
اپنی مختصر سی مدت کار میں تیرتھ اپنے پانچ متنازع بیانات کے سبب ذرائع ابلاغ پر چھا گئے۔ حلف برداری کے تین بعد تیرتھ کو پھٹی ہوئی جینس پتلون میں کوئی خاتون نظر آ گئی اور وہ بھول گئے کہ پرچارک کا پیشہ چھوڑنے کے بعد انہوں میرٹھ کی ملکہ حسن کو شادی کے لیے چنا تھا۔ اس مقابلے میں شرکت کرتے وقت پہنے جانے والے لباس کی تصاویر اگر وہ دیکھتے تو انہیں پھٹی جینس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ مثل مشہور ہے کہ اپنی آنکھ کا شہیتر نظر نہیں آتا دوسرے کی آنکھ کا تنکا دکھائی دیتا ہے۔ خیر ان کے اندر کا پرچارک اچانک بیدار ہو گیا اور پروچن دینے لگے کہ آج کل کی خواتین پھٹی ہوئی جینس پہنتی ہیں۔ ان کے گھٹنے نظر آتے ہیں، یہ کون سی تہذیب ہے، یہ اقدار کہاں سے آرہے ہیں؟ اس سے بچے کیا سیکھ رہے ہیں؟ خواتین آخر معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟ تیرتھ اپنی درست بات پر قائم نہیں رہ سکے اور جب شور شرابہ خوب بڑھا تو معافی مانگ لی۔ اس طرح پتہ چل گیا کہ سنگھ پریوار کے بزدل لوگ اپنے موقف کا پُرزور دفاع کرنے کے بجائے بڑی آسانی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
سنگھ کے بھگت تیرتھ سنگھ نے اس کے دو دن بعد اپنی رام بھکتی کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے وزیر اعظم کا شری رام سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے وقتوں میں ہم نریندر مودی کو بھی رام کی طرح ماننے لگیں گے۔ اس سے رام کے تقدس کی ساری عمارت ہی ڈھیر ہو گئی اور چاپلوسی کی ایک بہت بڑی مثال قائم ہو گئی۔ اس ابن الوقتی کے مظاہرے پر ’جس ہندو کا خون نہ کھولے خون نہیں وہ پانی ہے‘ کا نعرہ لگانے والی جعلی بھکتوں کی غیرت کو جوش نہیں آیا۔ کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے تو اعتراض کیا مگر سنگھ پریوار کو سانپ سونگھ گیا۔ ہریش نے کہا اس پر ہنسا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے مذہبی عقیدے کی توہین ہے۔ رام اور کرشن جنہیں ویدوں نے بھگوان کا سوروپ مانا ہے یہ ان کی توہین ہے۔ مودی خود اس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ انہیں اوتار مانا جائے۔ ہریش راوت کا خیال غلط نکلا مودی نے اسے پسند کیا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن ناپسند بھی نہیں کیا ورنہ اسی وقت تیرتھ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رام راج پر مودی راج کو فوقیت حاصل ہو گئی ہے۔
21؍مارچ کو تیرتھ نے مسلمانوں کی جانب رخ کیا اور کہا کہ جن کے زیادہ بچے ہوتے ہیں انہیں لاک ڈاون میں زیادہ راشن ملتا ہے گویا ہندو سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لیے زیادہ بچے پیدا کریں۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے تیرتھ سنگھ راوت نے خود ایک بیٹی پر اکتفا کیوں کرلیا؟ تیرتھ سنگھ راوت نے ایک اور بیان میں سنگھ کے تربیتی نظام کا معیار بھی ظاہر کر دیا۔ تیرتھ نے یہ انکشاف کیا امریکہ نے 200سال تک ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ جو وزیر اعلیٰ برطانیہ اور امریکہ کا فرق تک نہیں جانتا ہو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ سنگھ میں عام معلومات کا معیار کیا ہے؟ خیر مارچ کے بعد اپریل اور کمبھ کا میلہ ایک ساتھ آئے اور تیرتھ کے اندر کا فول باہر آگیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ماں گنگا کی کرپا سے کورونا نہیں پھیلے گا۔ اس کا مرکز تبلیغ سے موازنہ درست نہیں ہے کیونکہ وہاں لوگ بند کمرے میں تھے اور یہاں کھلی فضا میں ہیں۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ خود تیرتھ کورونا سے متاثر ہوگئے اور پھر احتیاط کا پروچن دینے لگے۔ ساری دنیا میں کمبھ کے سبب ملک کی جو بدنامی ہوئی اور شمالی ہندوستان میں جو تباہی وبربادی آئی اس میں تیرتھ سنگھ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کمبھ سے آنے والے تیرتھ یاتریوں کو بی جے پی سرکاریں پکڑ پکڑ کر قرنطینہ میں بھیج رہی تھیں۔
تیرتھ سنگھ کو بہت کم وقت ملا لیکن اس بیچ انہوں نے ایک بڑا گھپلا کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر دیا۔ کمبھ میلے کے دوران ہائی کورٹ نے روزانہ 50,000 کورونا کی جانچ کا حکم دیا تھا۔ یہ کام تیرتھ سرکار نے مختلف تجربہ گاہوں اور ایجنسیوں کو دے دیا اور ہر ٹسٹ کے لیے 350روپے کا نرخ طے کر دیا۔ آگے چل کر ریاستی حکومت کے ترجمان سبودھ اونیال نے میڈیا کو بتایا کہ کمبھ کے دوران ہریدوار میں 5مقامات پر ٹسٹ کرنے والی دہلی اور ہریانہ کی تجربہ گاہوں کے خلاف معاملہ درج کرنے کا حکم صادر ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جملہ 4لاکھ میں سے ایک لاکھ سے زیادہ ٹسٹ جعلی پائے گئے۔ ان میں 50ہزار سے زیادہ ٹسٹ صرف ایک ہی موبائل پر جاری کیے گئے تھے۔ اس طرح اپنی یادگار مدت کار میں سنگھ کی شاکھا کے اندر حاصل کی جانے والی تربیت کا بہترین فائدہ اٹھاتے ہوئے تیرتھ سنگھ راوت نے چاردھام کی یاترا کرتے ہوئے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ اس کے لیے وہ اور ان کا سنگھ پریوار مبارکباد کا مستحق ہے۔ تیرتھ کی طرح چونکہ ممتا بھی رکن اسمبلی نہیں ہیں اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ ’تیرتھ تو بہانہ ہے ممتا پر نشانہ ہے‘ لیکن اس طرح کے کئی نشانے ماضی میں خطا ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ سنگھ کے لوگ اگر مودی کو رام کا اوتار مانتے ہیں تو بنگال کے لوگوں نے ممتا کو درگا کا اوتار مان لیا ہے۔ یہ لڑائی اب سیاسی کم اور مذہبی زیادہ ہو گئی ہے۔ ابھی تک تو دُرگا کا پلہ بھاری ہے آگے کیا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
***

کالی ٹوپی پہن کر وزارت سنبھالنے والے تیرتھ سنگھ نے استعفیٰ کے وقت اپنی ٹوپی اتار کر پھینک دی۔ ان کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ پریس کانفرنس بلائی، اپنے کارنامے گنوائے، رہنماوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا لیکن جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ کیا آپ استعفیٰ دے رہے ہیں تو کچھ بولے بغیر چلے گئے۔ سنگھ پریوار اپنے پرچارکوں کو شکست کا غم برداشت کرنے کی تربیت نہیں دیتا۔ تیرتھ کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر جو تلاطم برپا تھا اسے وہ چھپا نہیں پائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں امید رہی ہو کہ نہ جانے کب مرکزی قیادت کا موڈ بدل جائے اور کوئی انجانی خوشخبری آجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021