’سوپر پاور ‘افغانستان میںناکام، 20سال بعدنامراد واپسی

بہادر افغانیوں نے دکھائی استقامت۔ بگرام سےغیر ملکی افواج نے بوریا بستر سمیٹ لیا

مسعود ابدالی

 

امریکی فوج نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کردیا، یا یوں کہیے کہ واشنگٹن نے آشیانہ چمنِ افغاں سے اٹھالیا۔ ہم نے جان کر بلبل کے بجائے واشنگٹن لکھا ہے کہ بلبل محبت والفت کا استعارہ ہے، اس کے پیار بھرے نغمے باغ وچمن کی رونق کو لازوال بنا دیتے ہیں جبکہ بگرام کا امریکی اڈہ اہلِ افغانستان کے لیے قبضے اور دہشت کی علامت تھا۔ اس کے احاطے میں قائم عقوبت خانہ سے مظلوموں کی جو چیخیں بلند ہوتی تھیں، انسانی ضمیر اس کی گونج آج بھی محسوس کر رہا ہے۔ بگرام کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ 300سال قبل مسیح میں آباد ہونے والا یہ شہر گندھارا تہذیب کا مسکن تھا۔ دارالحکومت کابل سے 25 کلومیٹر شمال میں واقع بگرام اب صوبہ پروان کے دارالحکومت چاریکار کا مضافاتی علاقہ اور درہِ پنجشیر کا دہانہ ہے۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر طویل وادی پنجشیر جفاکش ودلاور افغان تاجکوں کا علاقہ ہے۔
پنج شیر، 42 سال گزرنے جانے کے بعد بھی روسی افواج کے دل ودماغ پر ایک خوفناک خواب کی صورت سوار ہے کہ 1979 کے حملے کے بعد سوویت یونین نے ایٹم بم کے سوا اپنے ترکش کا ہر تیر اور تشدد کا ہر حربہ استعمال کر لیا لیکن روسی، پنجشیر فتح کرکے کمک کا راستہ نہ ہموار کر سکے۔ اس زمانے میں وسط ایشیا سوویت یونین کا حصہ تھا۔ ماسکو شمالی افغانستان پر قبضہ کرکے سوویت یونین سے زمینی رابطہ بحال کرنا چاہتا تھا۔ اسی بنا پر حملے کے بعد روس نے بگرام اڈے کو اپنا مرکز بنایا۔ سوویت یونین نے 1950 میں بگرام کا ہوئی اڈہ تعمیر کیا تھا جسے 1980میں وسعت دی گئی۔
اکتوبر 2001 میں حملے کے بعد نیٹو نے اس اڈے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور جلد ہی اس کا شمار دنیا کے چند بہت بڑے اڈوں میں ہونے لگا۔ یہاں تعمیر کی جانے والی بیرکوں میں 10ہزار فوجیوں کے قیام کی گنجائش ہے۔ نو کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے خرچ سے 12 ہزار فٹ طویل رن وے تعمیر کیا گیا جس پر دیوہیکل مال بردار جہاز اور B52 سمیت خوفناک بمبار اتر سکتے ہیں۔ اس اڈے پر 110 طیارے کھڑے کیے جاسکتے ہیں جن کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔
یہ محض فوجی اڈہ نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانے چاریکار شہر کے بطن میں 30 مربع میل رقبے پر محیط ایک جدید ترین شہر ہے، جہاں چند روز پہلے تک تیز رفتار انٹرنیٹ، سیٹلائٹ فون سمیت وہ سہولتیں موجود تھیں جو بہت سے متمول امریکیوں کو اپنے ملک میں حاصل نہیں۔ جدید ترین آپریشن تھیٹر سے آراستہ پچاس بستروں پر مشتمل اسپتال میں دانتوں کا شعبہ بھی تھا جہاں عام علاج کے علاوہ مصنوعی دانت لگانے کی سہولت موجود تھی۔ شطرنج اور دوسرے board games کے لیے خصوصی کمروں کے ساتھ باسکٹ بال کورٹ اور کسرت کدہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرائشِ گیسو، مساج کدہ، میخانے، رقص گاہ اور سنیما گھر سمیت فوجی جوانوں کو عشرت کے تمام اسباب مہیا گئے تھے۔ امریکہ کی مشہور زمانہ Starbucks کافی coffee کے ساتھ پیزاہٹ، برگر کنگ اور لوزیانہ کی مشہور Popeyes Chicken نے بھی اپنی دوکانیں سجائی ہوئی تھیں۔
اسی کے ساتھ بگرام کے ایک حصے میں وہ قید خانہ بھی ہے جس کی سرگرمیوں کے بارے میں جب ایک رپورٹ امریکی سینیٹ میں پیش کی گئی تو کیلی فورنیا کی سینیٹر محترمہ ڈائن فینسٹائن اجلاس سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں کہ انکے لیے اسے سننا ممکن نہیں۔ باہر آکر آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے حیرت سے پوچھا ’کیا یہ سب کچھ ہماری سی آئی اے کرتی تھی؟‘ یہاں تشدد کے لیے مصری فوج کے جلاد بلائے گئے تھے۔
بگرام جیل، افغان شہریوں کے لیے اب بھی خوف کی علامت ہے، ایک ضعیف افغان شہری نے امریکی صحافی کو بتایا کہ والدین اپنے روتے ہوئے بچوں کو اس جیل کا نام لے کر ڈراتے ہیں۔ امریکی حملے کے ابتدائی دس سالوں تک پاکستان اور افغانستان سے شہریوں کا لاپتہ ہوجانا عام تھا اور انکا سراغ بگرام کی کسی کوٹھری ہی سے ملتا تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس جیل میں چھ سال گزارے ہیں۔ ذبیح اللہ کا کہناہے کہ بگرام کا لفظ سنتے ہی ان کے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ امریکی سی آئی نے فلپائن، تھائی لینڈ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں کئی جگہ عقوبت کدے بنا رکھے ہیں جنہیں کوچہ سیاہ یا dark sites کہا جاتا ہے لیکن نائن الیون کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد پر تشدد کے لیے کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے، عراق میں ابوغریب جیل اور بگرام میں خصوصی مراکز قائم کیے گئے۔اِس وقت بھی کئی ہزار قیدی بگرام میں بند ہیں۔
گزشتہ ماہ جب نیٹو افواج نے انخلا شروع کیا تو افغانستان بھر میں پھیلے اڈوں کو تالہ لگا کر تمام سپاہی بگرام منتقل کردیے گئے۔ ہلکے ہتھیار افغان فوج کو عطا ہوئے اور بھاری سامان امریکہ ویورپ منتقلی کے لیے بگرام لایا گیا۔ امریکی فوج کی مرکزی کمان کے ایک ترجمان کے مطابق یہاں موجود اسلحہ C-17 المعروف گلوبل ماسٹر طیاروں کی763 پروازوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ ان طیاروں کی باربرداری کی گنجائش 77500 کلوگرام ہے۔ عینی شاہدین نے اڈے سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں نے حساس نوعیت کا ناقابل استعمال اسلحہ تلف کر دیا ہے۔
امریکیوں کے سوا نیٹو کے باقی سپاہی جون کے وسط تک افغانستان چھوڑ چکے تھے اور دو جولائی کو امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے پر بگرام کا اڈہ کا بل سرکار کے حوالے کر دیا گیا۔ بگرام میں نیٹو کے 650 سپاہی اب بھی موجود ہیں جو افغانستان میں امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارتکاروں اور سفارتی تنصیبات کو تحفظ فراہم کریں گے۔ پیچھے رہ جانے والے دستے میں ترک فوجی بھی شامل ہیں جو کابل ایئرپورٹ کا حفاظتی انتظام سنبھالیں گے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے نیٹو سپاہیوں کی تعیناتی قطر امن معاہدے کے مطابق ہے۔ اب تک اس بندوبست پر طالبان کی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا بلکہ طالبان کے ترجمان نے بگرام اڈہ خالی کردینے کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ بتیس برس پہلے 1989 میں اسی اڈے سے روس کی حملہ آور فوجیں واپس گئی تھیں اور اب بگرام کی تنگ وتاریک گلیاں ایک اور عالمی طاقت کی پسپائی کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی 4 جولائی کو افغانستان سے چلے گئے۔
اس موقع پر بوجھل دل کے ساتھ اس 20سالہ بے مقصد خونریزی کے افسوسناک اعدادوشمار پیش خدمت ہیں۔ امریکہ کے موقر تعلیمی ادارے جامعہ براون کے مطابق جنگ میں 47 ہزار افغان شہری، 70 ہزار افغان سپاہی، ڈھائی ہزار امریکی، اتحادی افواج کے ساڑھے گیارہ سو سپاہی اور چار ہزار کے قریب امریکی فوج سے وابستہ نجی ٹھیکیدار (contractors) مارے گئے۔ افغان شہریوں کی ہلاکت کے جو اعدادو شمار دیے گئے ہیں وہ امریکی فوج کے جاری کردہ اور حقیقت سے کہیں کم ہیں۔ حکمرانوں کا یہ شیطانی شوقِ کشور کشائی کا بھگتان ہے جو امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو سوا دو ہزار ارب (20 کھرب 260 ارب) ڈالر کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
جمعہ 2جولائی کو بگرام فوجی اڈہ خالی ہونے کے ساتھ ہی واشنگٹن میں یہ افواہ اُڑگئی کہ 4 جولائی کو امریکہ کے یوم آزادی پر فوجی انخلا مکمل ہونے کا سرکاری اعلان کردیا جائیگا۔ ایک صحافی نے صدر بائیڈن سے سوال بھی پوچھ لیا کہ ’کیا افغانستان سے انخلا کا عمل چند دن میں مکمل ہو رہا ہے؟ اس پر امریکی صدر نے سر کے اشارے سے ’نہیں‘ کہا۔ اس صحافی نے جب وضاحت کے لیے سوال دہرایا تو امریکی صدر کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور انہوں نے نسبتاً بلند آواز میں کہا ’ یقین کریں، ہم اگلے دو دنوں میں انخلا مکمل کرنے والے نہیں، تاہم تمام سرگرمیاں منصوبے کے عین مطابق ہیں اور امریکہ (11) ستمبر تک انخلا مکمل کر لے گا‘۔
صدر بائیڈن کی گفتگو سے لگتا ہے کہ سرکاری اعلان گیارہ ستمبر تک ہی ہوگا لیکن افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا 2 جولائی کو مکمل ہوچکا اور اب سفارتکاروں کے تحفظ کے لیے امریکی وترک سپاہیوں کے سوا مزید کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں۔ اسی کیساتھ بھاری اسلحے کی منتقلی بھی مکمل ہوگئی ہے۔ جمعہ کو امریکہ کے محکمہ دفاع کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ (VOA) کو بتایا کہ امریکہ اور بین الاقوامی فورسز نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ترجمان فواد امان نے اپنے ٹویٹ میں کہا’ تمام اتحادی اور امریکی افواج بگرام ایئر بیس سے گزشتہ رات یعنی 2 جولائی کو چلی گئی ہیں اور یہ اڈہ افغان فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے‘
عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکی فضائیہ کے کچھ بمبار اور ڈرون کا بیڑہ بگرام میں موجود ہے جس کے لیے ایک علاقہ مخصوص کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس اثاثے کی دیکھ بھال افغان فوج کر رہی ہے یا اس کے لیے امریکی ماہرین اب بھی موجود ہیں۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ بگرام سے اڑنے والے ڈرون کو گوادر کے قریب بحر عرب میں تعینات امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز آئزن ہاور سے کنٹرول کیا جائیگا یا اس مقصد کے لیے برطانوی بحریہ کا الدّقم (عُمان) اڈہ استعمال ہوگا۔ اس ضمن میں بحرین اور مشرقی ازبکستان کے قرشی خان آباد المعروف کے ٹو اڈے کا نام بھی لیا جارہا تھا۔ کے ٹو کے لیے گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ ٹونی بلیکن نے امریکہ کے دورے پر آئے اپنے ازبک ہم منصب سے بات بھی کی لیکن کہا جا رہا ہے کہ ازبکستان نے معذرت کرلی ہے۔
دوسری طرف افغانستان کے لیے روسی صدر کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف نے علاقے میں امریکی اڈوں کے قیام کی شدید مخالفت کی ہے۔ روسی خبر رساں ایجنسی RIA سے باتیں کرتے ہوئے روسی سفارتکار نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کو امریکی اڈوں کی دوسرے ملکوں کو منتقلی میں تبدیل کردینا مناسب نہیں۔ انہوں نے افغانستاں میں وسیع البنیاد حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں روس علاقے کے دوسرے ملکوں کیساتھ مل کر کام کر رہا ہے لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ بیرونی مداخلت اور طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل نہیں اور ساری دنیا کو افغانوں کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔
بگرام کا انتظام اب کابل سرکار کے پاس ہے۔ طالبان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ طالبان کے خلاف استعمال ہوگا چنانچہ یہ اڈہ اب طالبان کا ترجیحی ہدف ہے۔ بگرام کے شمال مشرق میں کپیسا کے دارالحکومت محمود راقی سمیت صوبے کے کئی علاقے طالبان کے دباو میں ہیں۔محمود راقی بگرام سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اڈے کے جنوب مشرق میں کوہ صافی کے بڑے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے تو جنوب مغرب میں کابل سے بھی شدید لڑائی کی خبریں آرہی ہیں۔ طالبان نے سارے افغانستان میں سرکاری فوج کو الجھایا ہوا ہے، اسلیے کابل کے لیے بگرام کی جانب کمک بھیجنا بہت مشکل ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر اشرف غنی کے لیے سقوطِ بگرام کسی طور قابل قبول نہیں کہ اس کے بعد کابل کا دفاع ناممکن ہو جائیگا۔ امریکہ بھی بگرام کو طالبان کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دے گا۔ سرکاری فوج اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد تو شائد واشنگٹن کو بگرام پر ملاوں کے قبضے پر اعتراض نہ ہو لیکن انخلا کے ساتھ ہی اس اہم عصبی مرکز پر طالبان کا قبضہ کابل سرکار تو ایک طرف امریکہ اور نیٹو کو بھی بے دست وپا کر دے گا۔
واشنگٹن کو حالات کی نزاکت کا پورا احساس ہے۔ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے چچا سام کیا کرسکتے ہیں؟؟؟ اسرائیل اور امریکہ، عسکری ہدف کے حصول کے لیے فضائی قوت کے وحشیانہ و بے رحم استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدرکا کلیدی ہتھیار ڈرون ہے اور ڈر ہے کہ ’جوبائیڈرون‘ طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے اوباما دور کی یاد تازہ کردین گے ڈرون کے آسرے پر جہاں کابل انتظامیہ کے باز صفت اہلکار شعلے اگل رہے ہیں وہیں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امن کے بارے میں اب بھی پُرامید ہیں۔ بگرام سے نیٹو کے انخلا پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا ’یہ درست ہے کہ لڑائی کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن دوحہ (قطر) میں اس وقت بھی کابل حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

بتیس برس پہلے 1989 میں اسی اڈے سے روس کی حملہ آور فوجیں واپس گئی تھیں اور اب بگرام کی تنگ وتاریک گلیاں ایک اور عالمی طاقت کی پسپائی کا مشاہدہ کررہی ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی 4 جولائی کو افغانستان سے چلے گئے۔
اس موقع پر بوجھل دل کے ساتھ اس 20سالہ بے مقصد خونریزی کے افسوسناک اعدادوشمار پیش خدمت ہیں۔ امریکہ کے موقر تعلیمی ادارے جامعہ براون کے مطابق جنگ میں 47 ہزار افغان شہری، 70 ہزار افغان سپاہی، ڈھائی ہزار امریکی، اتحادی افواج کے ساڑھے گیارہ سو سپاہی اور چار ہزار کے قریب امریکی فوج سے وابستہ نجی ٹھیکیدار (contractors) مارے گئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021