اب اُنہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
عبدالباری مومن، ایک باکمال شخص، تحریک اسلامی کا پابند ڈسپلن سپاہی
مومن ذکیہ عبدالباری صالحاتی ، بھیونڈی
’’ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست اور بخشنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الملک)
دِل بے حد غمگین ہے کہ ہمارے انتہائی شفیق والدِ محترم عبدالباری مومن ہم سے رخصت ہو گئے۔ لیکن یہی نظامِ فطرت ہے کہ ’ کلُ نفسٍ ذَائقۃ الموت‘ (ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے)۔ لیکن کیا کریں دل آپ کی جدائی پر کسی طرح یقین کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ ابو کے رخصت ہو جانے کے بعد یہ احساس شدید تر ہو گیا کہ والدین کا بدل اس دنیا میں کوئی نہیں۔
ابو کی پوری زندگی ایک جہد مسلسل سے تعبیر تھی لڑکپن کے دور میں ہی دادا کی بیماری کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آگئی۔ انتہائی سخت حالات میں کانڈی مشین اور پاور چلاکر گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی اور بطور استاد رئیس ہائی اسکول میں آپ کا تقرر ہوا۔ ابو کی شادی کے کچھ ہی دنوں بعد دادا کا انتقال ہو گیا۔ یوں اپنے دیگر بھائی بہنوں کی کفالت بھی کی اور بخیر و خوبی اپنا یہ فرض بھی نبھایا۔ ابو ایک باکمال انسان تھے۔ اقامت دین کے لیے شروع سے ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور آخر دم تک ایک جانباز سپاہی کی حیثیت سے تحریک سے جڑے رہے۔ آپ ملنسار اور با اخلاق، نیک اور مضبوط سیرت و کردار کے مالک اور بڑے مہمان نواز تھے حق گوئی اور بے باکی آپ کی نمایاں صفت تھی۔ تحریک کے کاموں کو آپ نے ہمیشہ مقدم رکھا۔ نظم و ضبط کے بہت پابند تھے۔ اور اخلاقی و شرعی اصولوں پر سختی سےکار بند رہتے تھے۔ میں میری بڑی بہن ہم دونوں کو عالمیت و فضیلت کی تعلیم کے لیے ابو نے جامعۃ الصالحات رامپور میں داخلہ دلوایا اور اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ہمیشہ ہم لوگوں کو رامپور لے جانے اور چھٹیوں میں گھر لے آنے کی ذمہ داری خود اٹھاتے رہے۔
ابو رئیس ہائی اسکول میں کامرس کے معلم تھے اور بھیونڈی میں کمپیوٹر کی تعلیم کے بانی ہونے کا کریڈٹ بھی آپ ہی کو جا تا ہے۔ ابو ایک اچھے مضمون نگار اور خطیب و امام بھی تھے۔ اکثر اخبارات و رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ پینتالیس (45) برس تک مسجدِ قدیم بھیونڈی میں جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے خطبہ اور امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ابو نے اپنے آپ کو تحریک کے کاموں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھی اکثر و بیشتر حالتِ سفر میں رہتے تھے۔ آئیٹا کے کاموں کے لیے ملک کے تقریباً ہر حصے میں تشریف لے گئے اور اپنی جہد مسلسل اور سعئ پیہم سے اس کی تشکیل نو کی۔ اپنے آخری وقت تک آئیٹا کے ترجمان ’افکار معلم‘ کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ ابو نے ہم لوگوں کو بہترین دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کی پوری فکر کی۔ الحمداللہ ابو کی اس فکر مندی اور اللہ کی نصرت کے ذریعہ ہم سب بھائی بہن بھی تحریک سے وابستہ ہیں اور اپنے دنیاوی امور بھی بخیر و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ ابو کسی بی مسئلہ کو چٹکیوں میں حل کر دیا کرتے تھے۔ تحریکی اجتماعات کے سلسلہ میں اگر کبھی دور دراز کا سفر درپیش ہوتا اور محرم کا مسئلہ ہوتا ابو فوراً ہم لوگوں کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو جاتے۔ ابھی رواں سال جنوری میں اورنگ آباد میڈیا ورکشاپ میں شرکت کرنے کے لیے ابو کے ساتھ ہی سفر کیا۔ ہم سب کو اس مقام پر پہنچانے میں جتنا رول ابو کا ہے امی بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ ہر مشکل گھڑی اور کڑے وقت مین وہ ابو کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں۔ خود روکھا سوکھا کھایا۔ لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی۔ ہم ان کے احسانوں کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو بہترین جزا سے نوازے۔ (آمین)
ابو کی وفات جہاں ہمارے لیے انتہائی باعث رنج و غم ہے وہیں یہ بات سکون کا باعث ہے کہ ابو نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اللہ کے دین کے لیے لگایا۔ حدیث کے مطابق وباء میں موت ہونے کی وجہ سے انشاء اللہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں شہید کی حیثیت میں قبول فرمائے۔ (آمین)
ساتھ ہی اللہ کا خاص فضل تھا جو اس نے ابو کو عطا کیا کہ اتنے شدید حالات میں ایسی آسانیاں پیدا فرمائیں۔ انفیکشن کے باوجود بھائیوں کا اپنے ہاتھوں سے ابو کو غسل دینا اور تجہیز و تکفین کرنا، آخری دیدار کی سہولت، چھوٹے بھائی کا ابو کی نماز جنازہ پڑھانا، (یہ سب باتیں کووِڈ ڈیتھ میں خاصی مشکل ہوتی ہیں) یہ سب اللہ کی خاص رحمت سے ہی ہو پایا۔ یقیناً اللہ کو ابو کے اعمال پسند ہوں گے تو اپنے ایسے بندے کی بے بسی کی موت کو کیسے پسند فرماتا؟ اللہ کا بہت زیادہ شکر کرنے کا مقام ہے۔
ایسی ہی باتیں ہیں جس کی بناء پر دل کو قرار آجاتا ہے اور مصیبت میں صبر کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ دنیا مومن کے لیے ایک تکلیف دہ جگہ ہے آزمائش گاہ ہے۔ اور وہ جب اس دنیا سے جاتا ہے حدیث کے مطابق راحت پا لیتا ہے کیونکہ وہ اپنے رب کی مہمانی میں جا رہا ہوتا ہے۔ یا اللہ ہمارے ابو کا شمار صدیقین، شہدا اور صالحین کے زمرے میں کردے، ان کی مغفرت فرما، جنت میں ان کے درجات کو بلند فرما، قبر کی آزمائش سے ان کو بچالے، ہمارے مرنے کے بعد ہم سب کو جنت کے اعلیٰ مقامات میں اکٹھا کردے، ہم پر صبر و سکینت نازل فرما۔ اور ہم سب بھائی بہنوں کو اس بات کی توفیق دے کے ابو کے مشن کو آگے بڑھائیں اور پورے خلوص کے ساتھ اس کو جاری و ساری رکھیں۔ (آمین)