اب انھیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر

پروفیسرصدیق حسنؒ:صداقت و انسانیت کے پاسباں

ڈاکٹر رضوان رفیقی، دلی

 

پہلا منظر:
مرکز جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خدمت خلق ونگ کا ایک کمرہ ، یہ کمرہ صبح نو بجے سے لے کر رات گیارہ، بارہ بجے تک مختلف سرگرمیوں کی علامت بنا ہوا ہے، اس آمدورفت اور گہماگہمی پرمرکز کے کارکنان کبھی کبھی چیں بچیں بھی ہوجاتے ہیں ،کہ اس شعبہ سے ہر وقت چائے کی فرمائش ہوتی رہتی ہے ، بے کار لوگ صرف چائے پینے کے لیے ادھر کا رخ کرلیتے ہیں ، مگروہ کمرہ دراصل سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کی زبوں حالی کودور کرنے کے لیے مرجع خلائق بنا ہوا تھا ، نحیف ونزار جسم کا حامل ایک شخص ہر وقت اسی ادھیڑ بن میں لگا رہتا تھا کہ شمالی ہند کی وہ ریاستیں ، جہاں ملت اسلامیہ ہند کی بڑی تعداد رہتی ہے ، اس کو کیسے اوپر اٹھایا جائے ، اس فکرو غم میں اس شخص کو اپنے آپ کو گھلانےمیں مزہ آتا تھا ، ایک روز صبح صبح وہ عظیم شخصیت آفس بوائے سے لجاجت بھرے لہجہ میں معافی کا خواست گار تھا : ’’ بھائی مجھے معاف کردو، شاید میری سخت باتوں سے آپ کو بہت تکلیف پہونچی، نہیں! آپ کو مجھے معاف کرنا ہو گا، آپ اس وقت تک یہاں سے نہیں جاسکتے،جب تک مجھے معاف نہیں کردیتے، لیجئے یہ پچاس روپئے اور مٹھائی لے آئیے اور اگر آپ نے میرے ساتھ مٹھائی کھائی،تومیں سمجھوں گا کہ آپ مجھ سے خوش ہیں ’’ انسانیت کی خدمت پر مامور عظمت کا یہ پہاڑ کتنا عظیم تھا ! ہمالیہ سے بھی زیادہ عظیم ۔ اس کی عظمت اس کے اسی کردار میں پنہاں تھی ۔
دوسرا منظر
ویژن 2016کے تعارف کے لیے پروفیسر صدیق حسن صاحب نے خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانیوں سے ملنے کا پروگرام بنایا ، کوشش ہوتی کہ ایک سفر میں کم ازکم دو ممالک کا احاطہ ہو جائے ۔ ایک سفر میں ہمارا قیام متوسط درجے کے ایک ہوٹل میں تھا، جس میں دو الگ الگ بیڈ لگے ہوئے تھے ، اور ساتھ میں ایک صوفہ بھی، جس پر تین آدمی آرام سے بیٹھ سکتے تھے ، ایک شب کسی دوسرے شہر سے ایک ارادت مند صدیق حسن صاحب سے ملاقات کے لیے ہوٹل حاضر ہو گئے ، گفتگو کا سلسلہ طویل ہوا اوردیر رات وہ واپس اپنے شہر کے لیے جانے کو تیار ہوئے ، مرحوم نے اس اراد ت مند کو باصرار روک لیا ، ہم دونوں اسی ادھیڑبن میں تھےکہ ہم میں سےکوئی ایک صوفے کو اپنا بستر بنا لےگا ، اور نیچے ریسپشن کی کرسیوں پر محو گفتگو ہو گئے ، آدھی رات جب کمرے پر پہونچے تو کیا دیکھتےہیں کہ صدیق حسن صاحب نے صوفے پر دراز ہو کر چادر تان لی ہے ۔ ہزار اصرار کے باوجود وہ کسی طرح بیڈ پر سونےپر تیار نہیں ہوئے اور بار بار یہی کہتے رہے کہ ہمیں اس پر زیادہ آرام ہے ، مجبوراً ہم دونوں کو بستر پر سونا پڑا۔
تیسرا منظر
الشفاء ہاسپٹل کے پہلے مرحلہ کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی ، ہاسپٹل کو چلانے کے لیے بھاری بھرکم مشینیں اور آلات خریدی جا چکے تھے،مگر ہاسپٹل شروع کرنےمیں کچھ قانونی پیچیدگیاں حائل تھی ، کیرلا میں امیرحلقہ رہتے ہوئے بااثر شخصیات سے آپ کے دوستانہ مراسم تھے ، مگر معاملہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہا تھا ، صدیق صاحب کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ، ایک شام کمرے میں متفکر بیٹھے تھے کہ کسی کا فون آیا کہ شاہین باغ میں ایک صاحب ہیں آپ سےملاقات کرلیں ، شاید ان کے ذریعے بات بن جائے ، میں نے کہا کہ آپ مجھے ان کا نمبر دیں ، میں ان کو بلا لاتا ہوں ، صدیق صاحب نے فرمایا ، بالکل نہیں ! میں ان سے ملنے ان کے گھر جاؤں گا ، کام ہمارا ہے ، اور پھر بائک پر پیچھے بیٹھنے میں ان کو کوئی تکلف بھی نہیں تھا ، اس وقت صدیق صاحب ویژن کے ذمہ دار ہونے کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے۔
چوتھا منظر
ایک پروجیکٹ کے تعلق سے دہلی میں ایک صاحب ثروت سے ملاقات طے تھی ، پروجیکٹ کو تیار کرانے اور پیشکش کے قابل بنانے میں وہ ڈیزائنر کو ایسے مشورے دے رہے تھے، جیسے تعمیرات کے ماہر ہو ں ، اچانک وہ ملاقات ملتوی ہو گئی اور دوسرے دن کا وقت طے پایا، اسی وقت گھر سے فون آیا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے بہت ہی قریبی کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے، قربت کی چغلی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو کھا رہے تھے، پھر تو فون آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ،تدفین میں اتنا وقت تھا کہ وہ بآسانی شریک ہو سکتے تھے ، مگر انہوں نے دوسرے دن کی ملاقات کو ترجیح دی اور یہ کہا کہ یہ ملاقات اہم ہے، اگر ڈونرمان گیا تو نئی نسل کی تعلیم وتربیت کا سامان ہوجائے گا،اوراس خطے میں ایسے اداروں کی شدید ضرورت ہے، دعا تو ہم یہاں سے بھی کرسکتے ہیں ، اس کے بعد تعزیت کے لیے حاضر ہو جائیں گے ۔
پانچواں منظر
پروفیسر صدیق حسن صاحب ابھی عمرہ کے مناسک ادا کرکے فارغ ہوئے ہیں ، بالوں کی تقصیر ابھی باقی ہے کہ موبائل پر ایک میسیج آتا ہے کہ ترکی میں نجم الدین اربکانؒ کا انتقال ہو گیا ہے ، تدفین کل ہے ، پوری دنیا سے اسلامی تحریکات کے قائدین پہنچ رہے ہیں ، پروفیسر صاحب فوری فیصلہ کرتے ہیں اور بذریعہ فون امیر جماعت سے اجازت حاصل کرتے ہیں ، جدہ میں ایمبسی بند ہے ، ویزہ حاصل کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے ، لیکن وہ پر امید ہیں ، کہ سفر ضرور ہو گا ، ان شاء اللہ ، اس شخصیت کے جنازے میں شرکت کا موقع ملے گا، جس کے ہاتھوں ترکی میں اسلام کی نشاط ثانیہ ہوئی ہے اور ایسے لوگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو گا جو اس تاریک دور میں اسلام کی لو جلائے ہوئے ہیں ، بالآخر اتھارٹیز کے حکم پر ایمبسی کھولی گئی اور ویزہ حاصل ہوگیا ، اور دو دن کے بعد صدیق حسن صاحب دوبارہ اپنے مشن پر جدہ لوٹ آئے۔
پروفیسر صدیق حسن ؒ کی وفات کی خبر کے بعد سی ہی ذہن کے پردے پر ایسی حسین یادیں یکے بعد دیگرے گردش کررہی ہیں اور ہر ادا میں ہمارے لیے ایک سبق ہے، پروفیسر کے اے صدیق حسن عبد اللہ ۱۹۴۵ء میں ہندوستان کے سرسبزوشاداب صوبہ کیرالا میں پیدا ہوئے، ہائی اسکول تک کی تعلیم اپنے گاؤں کے گورنمنٹ اسکول میں حاصل کی، دینی تعلیم کی غرض سے ان کے والد نے درس نظامیہ میں داخلہ کرادیاجہاں سے افضل العلماء کی ڈگری حاصل کی ، عربی زبان وادب میں کالی کٹ یونیورسٹی سے ایم ۔اے کیا۔
تعلیم کی ملازمت گورنمنٹ کالج میں ہوگئی، یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں رضاکارانہ طورپر ریٹائر ڈ ہوگئے ۔ مسلسل تین میقات تقریباً 15 سال جماعت اسلامی کیرلاکے امیر رہے ۔اس دوران آپ کی قیادت میں ریاست کیرلامیں تحریک اسلامی نے عوامی نفوذکی راہیں تلاش کیں ، اور اس ضمن میں کئی کامیاب تجربات کیے ، جس میں ملیالم زبان میں روزنامہ مادھیمم کا اجرا بھی ہے ، جو کیرلا کے بیشتر اضلاع کے علاوہ خلیج کے تمام ممالک سے پابندی سے شائع ہوتا ہے اور ملیالم زبان کا مقبول عام روزنامہ ہے ۔
۲۰۰۵ء میں امیر جماعت اسلامی ہندڈاکٹر عبد الحق انصاریؒ کی طلب پر دہلی حاضر ہوگئے اور سکریڑی شعبہ خدمت خلق مقرر ہوئے ، اس کے بعد نائب امیر جماعت مقرر ہوئے۔دہلی میں آکر آپ نے خدمت خلق کے ایسے محاذ کھولے ، جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ ویژن 2016 کی تخلیق کا سہرا جن دو شخصیات کو دیا جاسکتا ہے ، وہ قائد تحریک ڈاکٹر عبد الحق انصاریؒ کے ساتھ پروفیسر صدیق حسنؒ کی ذات گرامی ہے ، قائد کو صدیق حسن ؒ کی ذات پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے وسط میقات میں ہی اس کار عظیم کے بار اٹھانے کی دعوت دےدی ، بعد کے تجربات نے ان کے حسن انتخاب کی بھرپور تائید کی ۔پروفیسر صدیق حسنؒ اکیسویں صدی میں اسلاف کا نمونہ تھے،ان کے اندرلوگوں کو قریب کرنے اور قریب رکھنے کی مقناطیسی صفت تھی ، جو ایک بار ان سے مل لیتا ،ان کا ہو کر رہ جاتا،اگر انہیں پیر کامل کا لقب دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔
انسانی زندگی میں بعض لوگ زندہ رہ کر بھی معدوم ہو جاتے ہیں اور کچھ مرکر بھی موجود رہتے ہیں، طویل ترین علالت کے دوران بارہا مختلف مشکل حالات میں ذمہ داران فاؤنڈیشن کو صدیق حسن صاحب کی ضرور یاد آئی ہو گی ، اسی لیے وژن کے ذمہ داران بعض مواقع پر اپنے اجلاس دہلی کے بجائے کالی کٹ ، کیرلا میں رکھتے کہ اسی بہانے سالارکارواں سے استفادہ کا موقع ملے گا اور مزاج پرسی کا ثواب بھی ۔
ویسے تو پروفیسر صدیق حسن ؒ کی شخصیت اخلاص ، للہیت ، فعالیت ، تحریک ، اضطراب کا حسین مرقع تھی،مگر درج ذیل سطور میں ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کو سمونے کی کوشش ہے، جو ان کی عظیم تر رفاہی سرگرمیوں اور انسانی خدمات کی وجہ سے پسِ پردہ چلی جاتی ہیں۔
تعلق باللہ والقرآن
پروفیسرصدیق حسنؒ نے شاید امام حسن البنا ؒ کی اس نصیحت کومضبوطی سے ٹانک لیاتھا کہ ’’جب اذان کی آواز سنوتو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو، حالات کیسے بھی ہوں ورنہ ایسا شخص،جو ہروقت کاموں کے انبار میں دبا ہوا ہو ، نت نئی مصروفیات اس کے پورے وجود کو جکڑے ہوئے ہوں ، کیوں کرمسجد میں پہلی صف کا مستقل ممبر بن سکتا ہے ، صدیق حسن صاحب کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ پہلی صف میں جگہ پالیں ، اور سفر میں بھی نماز کو اول وقت میں ادا کریں ، سفر میں جہاں وہ ایک طرف جمع و قصر کے قائل تھے ، وہیں دوسری طرف نالہ نیم شبی کی لذت سے آشنا تھے ، اسی لیے وہ لازما فجرسے قبل ضرور اٹھ جاتے ، پہلے ورزش کرتے اور اس کے بعد وضو کرکے چار رکعت نفل ضرور پڑھتے ، سفر میں عموماً نماز فجر کی امامت آپ فرماتے اور ہوٹل میں اگر مصلے کا انتظام ہوتا تو قبل ازوقت پہونچ جاتے،ان کے پیچھے نماز پڑھنے والا قرآن الفجر کی حلاوت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ، ان کی کوشش ہوتی کہ نماز فجر ذرا طویل ہو تاکہ قرآن سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوا جائے۔سفر ہو یا حضر اپنا مصحف اپنے ساتھ ضرور رکھتے ،اس کے بعض صفحات پر بعض حواشی لکھے ہوئے ہوتے ، قرآن کی تلاوت کے وقت آپ کی کیفیت دیدنی ہوتی ، بعض آیات سے گزرتےہوئے آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے اور جب انہیں محسوس ہوتا کہ کوئی دیکھ رہا ہے ، تو چپکے سے آنسو چھپا لیتے ۔ قرآن کو ترتیل اور تجوید سے پڑھنا پسند کرتے اور خواہش ہوتی کہ دوسروں سے قرآن سناجائے ، دہلی میں مستقل سکونت کے بعد قاری عبد المنان صاحب ( امام مسجد اشاعت اسلام ، مرکز ) سے خواہش کی کہ مجھے قرآن سکھا دی جائے ، چند ہفتوں کے بعد جب قاری صاحب نے کہا کہ ماشاء اللہ آپ قرآن اچھا پڑھ لیتےہیں ، تو فرمایا ! بھئی اسی بہانے میں آپ سے قرآن سن
لیتا ہوں ۔
قناعت و استغنا
پروفیسر کے اے صدیق حسنؒ تحریک اسلامی ہند کی ذمہ داری کے اس مقام پر تھے کہ وہ ہر طرح کی سہولیات سے بہرہ ور ہو سکتے تھے ، کیرلا کے مقابلے دہلی کی آب وہوا کی تبدیلی کے پس منظر میں وہ اس کے مجاز بھی تھے کہ ان کے لیے خاص انتظام کیا جاتا، مگر انہوں نے کوئی اضافی مراعات اپنے لیے روا نہیں رکھی ، بلکہ ان کی کوشش ہوتی کہ دوسرے رفقاء کو مراعات دی جائیں اور اپنے لیے عزیمت کا راستہ اختیار کیا جائے ، وژن 2016 کے لیے مالیات کی فراہمی میں وافر حصہ آپ کا تھا ، مگر آپ جماعت کے محدود کفاف پر قانع رہے اور وژن کے ذیلی اداروں کے ذمہ داران اور کارکنان کے لیے وسیع الظرفی کا مظاہرہ کیا۔ صدیق حسن صاحب کا حلقہ ارادت بھی بہت وسیع تھا ، ارادت مندوں کی بھی خواہش ہوتی کہ کسی طرح ان کے کسی کام آسکیں ، مگر وہ کبھی اس کا موقع نہیں دیتے ، ورنہ ان کے ایک اشارے پر ہر خواہش کی تکمیل ہو سکتی تھی۔ میٹنگ اور کانفرنس کے تقاضوں کےتحت صدیق صاحب گرچہ خوش پوش نظر آتے ، مگر کمرے میں پہونچ کر مچھر دانی نما بنیان کا دیدار کرنا پڑتا ، ان سے جب نئی بنیاں خریدنے یا اچھی شرٹ پہننے کی گزارش کی جاتی ،تو یہی کہتے کہ شرٹ تو کو ٹ کے اندر ہوتی ہے ، اسے کون دیکھتا ہے ؟ کوٹ تو ’’ستار العیوب ‘‘ ہے ، تمام داغ ، دھبوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔
بیت المال کے تعلق سے حساسیت
ایک سفر میں ترقی یافتہ ملک کے ایک رفیق ہم سفر رہے ، ایرانڈیا کی فلائٹ تھی ، ایرپورٹ پر پہنچتے ہی انہوں نے کھانا کھانے کی خواہش کا اظہار کیا،صدیق صاحب کو ایرپورٹ کےکھانے کی قیمت کا اندازہ تھا ، مجھ سے معلوم کیا کہ فلائٹ میں کھانا ملے گا کہ نہیں ، میرے اثبات میں جواب دینے پرکہا کہ ہم لوگ فلائٹ میں کھا لیں گے ، مگر ان کو ضرور کھلائیے ، اور سلیقہ سے ہم دونوں کے لیے معذرت کر لیجیے ۔
مرکز جماعت میں ایک تحریکی ساتھی نے وژن کے ایک پروگرام کے لیے ایک خطیر رقم صدیق حسن صاحب کی خدمت میں پیش کی ، اتفاق سے اس وقت بیت المال کے ذمہ دار موجود نہیں تھے ، اس کی وجہ سے وہ رقم انہوں نے اپنی تحویل میں رکھ لی اور اسی وقت اپنی ذاتی ضرورت کے لیے پیشگی مشاہرہ کی ایک درخواست جماعت کے بیت المال میں بھجوادی ، استفسار پر فرمایا کہ ’’میری تحویل میں موجود رقم فاؤنڈیشن کی امانت ہے، اسے میں کیسے ہاتھ لگا سکتا ہوں ؟‘‘
اصول پسندی و حق گوئی
اکیسویں صدی کی دوسر ی دہائی مشرق وسطیٰ میں عوامی اضطراب اور تحریک کے حوالے سے یاد کی جائے گی ، آمرانہ استبداد کے خلاف عوام کا سڑکوں پر اترنا اور پر امن احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات رکھنااس عوامی تحریک کا شاخسانہ تھا،محترم صدیق حسن صاحب اس عرب بہاریہ کو اسلامی تحریکات کے لیے ایک نوید جاں فزا کی حیثیت سے د یکھتے تھے اور دوسری طرف اسے اسلامی تحریکات کے لیے ایک چیلنج بھی تصور کرتے تھے۔ 24/ جون 2012 كو ہم لوگ کویت میں قیام پذیرتھے،محترم صدیق حسنؒ اور جناب ٹی کے ابراہیم صاحب نے اس دن پروگرام میں تخفیف کرالی تھی کہ آج مصر کی تاریخ میں جمہوری انداز میں صدر کا انتخاب ہو رہا ہے،ہم لوگ مل کر نتائج کا مشاہدہ کریں گے، انتخابی نتائج سے صدیق حسن صاحب کے چہرے پہ خوشی کا مشاہدہ آسانی سے کیا جاسکتا تھا ، آخر جب حتمی نتیجے کا اعلان ہوا ، تو ان دونوں بزرگوں نے سجدہ شکر ادا کیا ، دوسرے دن ایک عرب سے ملاقات ہوئی ، ہمارے ایک رفیق نے مشورہ دیا کہ وہ صاحب اخوان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں ، اگر ان کے سامنے اخوان کی کمزوریوں پر آپ گفتگو مرتکز رکھیں ، تو وژن کے پروجیکٹس کی اسپانسرشپ میں آسانی ہوگی ، صدیق صاحب نے برملا کہا ، بھائی!’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کی مرضی اور خواہش کا احترام کروں اور اس احترام میں اپنے اصولی موقف سے ہٹ جاؤوں، میں اخوان المسلمون کی بعض کمزوریوں سے بھی آگاہ ہوں ، مگر ان کی خدمات اور قربانیاں بہت عظیم ہیں، میں ایک حقیر سودے کے لیے اس کو جائز نہیں سمجھتا کہ ان کی کمیاں گنا کر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ترقی کے سامان کا بندوبست کروں‘‘۔
دوسرے دن ایک ملاقات میں ایک عرب شیخ سے ملاقات رہی ،ان سے یہ ملاقات وژن 2016 کی سرگرمیوں اور منصوبوں سے متعلق تھی ، باتوں ہی باتوں میں مصری الیکشن کا ذکر چھڑگیا ، اور پروفیسر صدیق حسن ؒ کی گفتگو سے شیخ نے اندازہ کرلیا کہ ان کا جھکاؤ کدھر ہے اور فوری سوال کردیا ’’کیا آپ اخوانی ہیں‘‘ صدیق صاحب نے ایک سیکنڈ کے وقفے سے کہا ’’لست إخوانيا ولكنهم إخواني‘‘ میں تو اخوانی نہیں ہوں، لیکن وہ میرے اخوان ( بھائی) ہیں ۔
بے تکلفی اور بذلہ سنجی
عام طور لوگوں کے ذہن میں صدیق حسن صاحب کی تصویر ایک متفکر ،سنجیدہ اور متین شخصیت کے طورپر محفوظ ہے، وہ زیادہ تر ملک وملت کی فکر میں غرق رہتے تھے ، لیکن احباب کی نشستوں میں وہ کھل کر گفتگو کرتے ، سفر کے دوران ان کی کوشش ہوتی کہ رفقاء کےاحوال سے واقف ہوں،اوربسا اوقات گھریلو معاملات کی جزئیات سے بھی واقفیت حاصل کرتے، اگر ملیالی حلقے کے کسی رفیق کے یہاں دعوت ہوتی ، تو کھانے سے فراغت کے بعد اہل خانہ سے ضرور ملاقات کرتے اور میکہ اور سسرال کی پوری تفصیلات جاننے کی کوشش کرتے اور اگر شمالی ہند کے کسی رفیق کے یہاں سامان ضیافت ہوتا ، تو صاحب خانہ کو مجبور کرتے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھانےمیں شریک ہو تاکہ بچوں کی تعلیم وتربیت، نشوونما نیز تحریک سے ان کی وابستگی کے بارے میں جان سکیں۔ جماعت کے اعلیٰ ذمہ دار ہوتے ہوئے بعض رفقاء بلا تکلف ہندوستان میں اپنے اعزہ کےلیے ہدیہ ان کے ہاتھوں بھجوانے میں گریز نہیں کرتے اور وہ بھی خوشی خوشی دہلی تا کالی کٹ اس امانت کی ڈیلیوری کرتے ۔ایک بار شمالی ہند اور جنوبی ہند کا موازنہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ’’کیرلا کے لوگوں کا دہلی میں قیام کرنا بہت مشقت کا کام ہے ، موسم کی تبدیلی طبیعت کی ناہمورای کا سبب بنتی ہے، آپ یہی دیکھئے کہ شمالی ہند میں پانی ٹھنڈا پیا جاتا ہے اور ہمارے یہاں گرم ، آپ لوگ چائے پینے کے معاملہ میں لب دوز ، لب ریز اور لب سوز کے قائل ہیں اور ہم لوگ چائے کو ٹھنڈا کرکے پیتے ہیں‘‘
ایک بار ازراہ تفنن فرمایا : ’’ سفر میں نمازوں کی تخفیف(قصر) ہوجاتی ہے ، لیکن رفقاء و احباب کے اصرار پر کھانے کی روٹین میں تین کے بجائے پانچ اور چھ بار دسترخوان کا رخ کرنا پڑتا ہے – آپ لوگوں کا معدہ تو برداشت کرلیتا ہے ، مگر میری قد و کاٹھی تین وقت کے کھانے کی بھی اجازت نہیں دیتی ‘‘
پروفیسر صدیق حسنؒ کا شمار تحریک اسلامی کے ان قائدین میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اپنے تعلقات اور اثرات کو صرف تحریکی دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی صلاحیتوں سے ملک وملت کے کئی نامور فورمس اور پلیٹ فارمس نے استفادہ کیا، ملت کے نمائند ہ ادارے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن رکین رہے ، تو علماء کی عالمی تنظیم ’’الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین‘‘کی مجلس الأمناء کے ممبربھی، رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنسوں میں مدعو خصوصی کی حیثیت سے بلائے جاتے رہے تو دوسری طرف رفاہی تنظیموں کے وفاق ’’ انٹرنیشنل فیڈریشن فار ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ ‘‘کے تاسیسی ممبر رہے۔
اللہ کی رحمتیں ہوں اللہ کے اس ولی پر ۔جنت کی نوازشیں ہوں انسانیت کے اس خادم پر
٭٭٭

پروفیسر صدیق حسنؒ اکیسویں صدی میں اسلاف کا نمونہ تھے،ان کے اندرلوگوں کو قریب کرنے اور قریب رکھنے کی مقناطیسی صفت تھی ، جو ایک بار ان سے مل لیتا ،ان کا ہو کر رہ جاتا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021