جانے دو! میں نے اسے معاف کیا

پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!

برہان احمد صدیقی

 

زندگی تیز رفتار کیا ہوئی چاہنے والوں کا قحط پڑ گیا۔ آشنا تو بہت ہیں لیکن، وہ معدوم ہیں جن کی رفاقت میں سکون ملتا ہے، جن سے ملاقات نہ ہو تو دل بے چین ہو جاتا ہے۔ میرا وہ رفیق بالکل ایسا ہی ہے۔ اب گرچہ مصروفیت نے ہمیں آگھیرا ہے تب بھی بہانے بے بہانے ہم ایک ساتھ بیٹھتے ضرور ہیں۔ وہ آج کل بڑا خوش تھا، نیا پروجیکٹ ملا تھا اسی میں مصروف تھا، ہر ملاقات پر دعوت کا وعدہ کر کے نکل جاتا تھا اور میں خیالوں ہی خیالوں میں نئی نئی ڈِشوں کا انتخاب کر کے رہ جاتا لیکن یقین تھا کہ وہ دعوت کرے گا ضرور۔ بس ڈر یہ تھا کہ ہماری پسند کی ڈشس پر پابندی عائد نہ ہو جائے۔ ویسے بھی دن بہ دن با ذوق افراد کے ہجوم نے ہمارے محبوب ریسٹورنٹ میں قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ اِدھر اس کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا اُدھر اس کی قیمتوں میں ایسی برکت جیسے کسی معصوم کی دعا لگ گئی ہو۔
اب تو اسے آسمانی بہانہ ملنے کو تھا، رمضان جو شروع ہونے کو تھا۔ اسی لیے میں جلد ہی اپنے خیالوں کے مینو کارڈ کو دستر خوان پر سجا ہوا دیکھنا چاہتا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ آج رمضان کا دوسرا ہفتہ تھا مسجد سے نکلتے ہی وہ مل گیا لپک کر معانقہ کیا حلیہ بدلا ہوا تھا بڑا شریف لگ رہا تھا ۔
کیا بات ہے! خواب میں کسی فرشتے سے ملاقات تو نہیں ہو گئی یا حج کو جانے کا ارادہ ہے؟
نہیں یار! بس یوں ہی سوچتا ہوں کہ اب بے عمل زندگی نہیں گزارنی ہے کچھ اچھا کر لیا جائے آخر ایک دن جانا تو اللہ کے پاس ہی ہے۔
بھائی خیریت تو! بڑے بدلے بدلے لگ رہے ہو لگتا ہے روزے پورے ہو رہے ہیں ما شاء اللہ۔
یہ سن کر اس نے نظریں نیچی کرلیں، نہیں یار،، کہتا ہوا ۔۔ بہت افسردگی میں اس نے گردن اوپر اٹھائی۔
کیوں طبیعت تو ٹھیک تھی ناں؟ خبر تو کرتے۔جسم تو صحت مند تھا البتہ! عزم اور حوصلہ بیمار ہو گیا تھا، اس کی خبر نہیں کی جاتی، اسے سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شکر ہے اس بزرگ کا جنہیں دیکھ کر اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ بزرگ میرے گھر کی پاس والی گلی میں رہتے ہیں، روزانہ صبح ہی منڈی کے لیے نکل جاتے ہیں، سبزیاں خرید کر ٹھیلے پر اس گلی اس گلی انہیں بیچ کر با عزت زندگی بسر کرتے ہیں۔ کل دو پہر کو میں ان سے سبزیاں لینے گیا، پسینے میں شرابور خشک ہونٹ اوپر سے دھوپ اور اس کی شدت ۔۔۔
چچا اتنی دھوپ ہے آرام کرلیا کرو! صبح ہی سے دوڑ دھوپ میں لگ جاتے ہیں آپ۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کھانے کے ارادے سے کھیرا اٹھایا ہی تھا کہ ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
بیٹا! رمضان کا مہینہ ہے عصر کے بعد جتنا جلدی گھر پہنچ جاؤں اتنے ہی سکون سے افطار کے دستر خوان پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ دن بھر روزہ رکھو، دھوپ اور سختیاں برداشت کرو، وقت پر نماز پڑھو، گناہوں سے بچو پھر افطار کے دستر خوان پر اپنے رب سے باتیں کرو، دعائیں کرو، مزہ آ جاتا ہے۔۔
چچا کیا آپ رمضان کے پورے روزے رکھتے ہیں؟
بیٹا! اگر رمضان میں روزے نہ رکھا، عبادات کا حق ادا کرنے کی کوشش نہ کیا تو کیا کیا؟
بیٹا! رمضان رحمت و مغفرت کے چشمے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے آتا ہے، دیکھنا ہے کون کتنا سیراب ہوتا ہے اور کون پیاسا لوٹ جاتا ہے۔
سبزی کی تھیلی لیے میں بوجھل قدموں سے گھر پہنچا، تنہائی میں خوب رویا اور یہ سوچ لیا کہ بہانوں کے سہارے نہیں جینا ہے بلکہ حوصلوں کی راہ پر چلنا ہے۔
کیا پیاری بات کہی تھی اس بزرگ نے جو میرے دل میں گھر کر گئی۔ اور کیوں نہ کرتی؟ وہ با عمل جو ہیں۔ وہ جو کہہ رہے تھے ان کا عمل اس کا ثبوت پیش کر رہا تھا۔
شکریہ یار! مجھے بھی حوصلہ ملا، خیالات میرے بھی ڈانواڈول ہو رہے تھے۔
ہم رخصت ہونے لگے ۔۔
چلو ملتے ہیں دعاؤں میں یاد رکھنا ۔۔
دعا سے یاد آیا۔ دعوت کب کر رہے ہو؟ شیر خرمے میں ایڈجسٹ کرنے کا ارادہ ہے یا ریسٹورنٹ لے چلو گے۔
ٹھیک ہے کل افطار کے بعد کا وعدہ پکا، ان شاء اللہ۔
آج افطار کا زیادہ انتظار تھا۔ رمضان میں یوں تو اللہ کی نعمتوں سے دسترخوان سجا رہتا ہے لیکن دوست ایک انتظار کے بعد ریسٹورنٹ میں دعوت دے تو افطار کی خوشی دو بالا ہو جاتی ہے۔ ابھی عصر کی اذان بھی نہیں ہوئی تھی فون کی گھنٹی بجنے لگی اسکرین پر اس کا نام دیکھ کر دل بیٹھنے لگا کہ کہیں دعوت کینسل تو نہیں ہو گئی؟ چوک والی مسجد میں نماز پڑھنا، وہیں ملتے ہیں۔ بھائی خیریت! منصوبہ بدل تو نہیں گیا؟ میں نے ہنستے ہوئے کال ڈسکنیکٹ کی۔
نماز سے فارغ ہو کر ہم نے بازار کا رخ کیا۔ وہ کچھ بتا نہیں رہا تھا بس اس دکان سے اس دکان دوڑا رہا تھا۔ تین افطار کے پیکیٹ تیار کروایا، ہر ایک میں کچھ پھل، کچھ کھجوریں اور ایک میں سبزیاں۔ میں اس ادھیڑبن میں تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ تھوڑی دیر میں تین افطار اور ایک سبزی کی جھولی تیار تھے۔ بھائی کچھ بتاو تو سہی یہ ہو کیا رہا ہے؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ افطار کا ٹائم ہو رہا ہے آنتیں احتجاج کر رہی ہیں۔
کالونی کے کشادہ مکانوں کے پیچھے یہ چھوٹا سا مکان، دروازہ ایک بچی نے کھولا، ایک روم کا یہ مکان البتہ صاف ستھرا اور سلیقے کا نمونہ تھا، افطار کا دستر خوان بچھا ہوا تھا جس کے گرد بچے بڑی خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے، ان کے سامنے ایک موز اور پانی کا گلاس تھا۔ میری نگاہیں افطار کے بقیہ لوازمات کو تلاش کر رہی تھیں لیکن وہاں کچھ نظر نہیں آیا۔ افطار کا ایک پیک دوست نے بہت اپنائیت سے چچا کے ہاتھ میں تھمایا اور منے سے پیار کرتا ہوا باہر چل دیا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اب کے ہم جس گھر میں داخل ہوئے وہاں بس ایک بزرگ خاتون بیٹھی تھی، شائستگی سے پلو سر پر ڈالے رکھا تھا اور ہاتھ میں تسبیح، مسکرا کر دروازہ کھولا، شکریہ کے ساتھ افطار پیکٹ لیا، اس نے سبزی کی تھیلی بھی انہیں دے دی۔ خاتون نے ہم دونوں کے سر پر ہاتھ رکھا دعائیں دینے لگی۔ بہت اپنائیت سی محسوس ہوئی عجیب سکون اور خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔
تیسرا پیکٹ لیے ہم مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے، میں چاہ کر بھی اپنے دوست سے کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا، اس نے آج میرا دل جیت لیا تھا۔ خالی دستر خوان کے گرد بیٹھے بچے! کیا اس پاکٹ کے انتظار میں خاموش تھے یا چپکے سے ارد گرد بسنے والے خوشحال لوگوں کی شکایت اپنے رب سے کر رہے تھے میں نہیں جانتا۔ البتہ اتنا یقین ضرور ہے کہ اگر انہوں نے ایسی کوئی شکایت کی ہو گی تو بستی والوں کی ساری عبادت ایک طرف اور ان کی شکایت ایک طرف ہو گی۔ بزرگ خاتون نے ہمیں کیا دعا دی میں سن تو نہیں سکا البتہ اتنا یقین ضرور ہے کہ ان کے ہر لفظ پر فرشتوں نے آمین کہا ہو گا۔ میرا دوست جو کل روزے چھوڑ رہا تھا آج روزے بھی رکھ رہا ہے اور روزے کے تقاضے بھی پورے کر رہا ہے۔ اس نے خود کو بدلنے کا سوچا اور بدل بھی لیا تھا۔ خیر کے مواقع آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کامیاب ہے وہ شخص جو ان سے فائدہ اٹھائے اور کچھ اچھے کام کر جائے اور جب روز محشر فرشتہ لغزشیں گنائے تو اللہ کہے جانے دو اسے ، میں نے اسے معاف کیا۔ امام صاحب شیریں آواز میں سورۃ ذاریات کی تلاوت کر رہے تھے اللہ کے نیک بندوں کا ذکر ہو رہا تھا:
’’ان المتقین فی جنات و عیون آخذین ما آتاھم ربھم انھم کانو قبل ذلک محسنین کانوا قلیلا من اللیل ما یھجعون و بالاسحارھم یستغفرون۔ وفی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم ‘‘
(البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے وہ راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور وقت سحر معافی مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق حصہ ہوتا تھا)
میں مسجد سے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ مصافحہ کرتے ہی وہ بولا چلو! گھر میں امی نے شاندار بریانی بنائی ہے۔ کیا ریسٹورنٹ کی بھیڑ بڑھائی جائے چلو میرے گھر چلو۔
اور میں خوشی خوشی اس کے ساتھ چل دیا۔
***

خیر کے مواقع آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کامیاب ہے وہ شخص جو ان سے فائدہ اٹھائے اور کچھ اچھے کام کر جائے اور جب روز محشر فرشتہ لغزشیں گنائے تو اللہ کہے جانے دو اسے ، میں نے اسے معاف کیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021