شہر المواساۃ

رمضان المبارک ہمدردی کا مہینہ

عتیق احمد شفیق اصلاحی، بریلی

 

دلوں کی نرمی اور عمل کی تحریک روزوں کی قبولیت کا مظہر
رمضان کا مہینہ مواساۃ کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ روزداروں کو ہمدردی، غم گساری، غم خواری کی تربیت دیتا ہے ایک روز دار بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اللہ کے بے شمار بندے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی نہیں مل پاتی ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کے بعض حصوں میں پانی کے لیے میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ کتنے انسان ہیں جن کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ وہ کس کرب میں زندگی گزارتے ہیں ان کے تئیں ہمدردی و مدد کا جذبہ ابھرتا ہے۔ یہ مہینہ دلوں کو نرم کرنے والا ہے۔ سماج کے بے سہارا، یتیموں، بیواوں، غریبوں، محتاجوں، ضعیفوں اور کمزوروں کے ساتھ مروت، ہمدردی، بھائی چارگی، خیر خواہی، نرمی و شفقت کا رویہ اختیار کرنے کے لیے قلوب تیار ہوتے ہی۔ملک میں کتنے ہی انسان ہیں جو بھوک کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ کتنے بچے ہیں جو تغذیہ کی کمی وجہ سے بچ نہیں پاتے ہیں۔ کتنی ہی مائیں ہیں جو دوران حمل اچھی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ولادت کے وقت اپنی جانیں گنواں دیتی ہیں۔ سماج میں کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو کچرے کے ڈھیر پر پھینکے گئے خراب پھل اٹھا کر کھا لیتے ہیں اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہی باپوں کی تنگی حالی کی وجہ سے بہت سے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کا نظم نہیں ہو پاتا ہے۔
ہمدردی ومواساۃ کا ایک طریقہ انفرادی ہے کہ ہر فرد اپنے طور پر اپنی استطاعت بھر لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے ان کی پریشانیوں، مشکلات اور مسائل کو حل کرنے میں مدد و رہنمائی کرے، بھوکوں کوکھانا کھلائے۔ دوسرا اجتماعی طریقہ ہے۔ اجتماعی طور پر بیت المال کا قیام ہو اور وہاں سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کی جائیں۔ جب لوگ انفرادی و اجتماعی طور سے اس طرح کے کام کریں گے تب ہی معاشرے میں خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔
ہمدردی کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں لوگوں کی مالی امداد کرنا ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا۔بیماروں کی عیادت کرنا ان کاعلاج معالجہ کرانا۔قیدیوں کو رہائی دلانا لوگوں کے کام میں ہاتھ بٹانا لوگوں کی حقیقی اور جائز کاموں و ضرورتوں کے لیے سفارش کرنا لوگوں کے معاملات میں اچھے اور نیک مشورے دے دینا لوگوں سے ہمدردی کی بات کرنا لوگوں کے غم میں شریک ہونا لوگوں سے نرم خوئی سے پیش آنا۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ مواساۃ اور خیر خواہی کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ہی ایک پر امن سماج تشکیل پاتا ہے۔ رمضان کے مہینہ میں خصوصیت سے اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن میں باری تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے ۔
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى
(نحل۔۹۰) اللہ تعالیٰ عدل کااحسان کا اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔
احسان
احسان سے مراد یہ ہے کہ معاملات میں فیاضانہ، ہمدردانہ، درگز، باہمی مراعات کا رویہ اختیار کیا جائے، انسانوں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے سے تعلقات میں بہتری آتی ہے ۔
صلہ رحمی:۔ صلہ رحمی کے معنی شفقت اور رحمت و رافت ہیں۔ مفہوم یہ کہ انسان اپنے رشتہ داروں کے حقوق کو ادا کرے۔ ان کا خیال رکھے۔ ان کی ضروریات کو پور اکرنے کے لیے فکر مند رہے۔کسی کو کھانا میسر نہیں ہے تو اس کے لیے کھانے کا نظم کرے یا کروائے، موسم کے لحاظ سے کپڑوں کی ضرورت ہو یا عید کے موقع پر وہ نئے کپڑے بنانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے لیے کپڑوں کا نظم کیا جائے۔ غرض ہر صاحب استطاعت و فارغ البال، خوش حال افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی ضروریات کا خیال رکھے۔ صلہ رحمی کے معنی رشتوں کو جوڑنا ہے رشتے اسی وقت استوار اور بہتر ہوتے ہیں جب کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ قرآن مجید میں تمام انسانوں کے حقوق و فرائض بتائے گئے ہیں ان سب کی ادائیگی ضروری ہے لیکن اللہ نے اپنے کمزور بندوں کی ادائیگی اور ان کے ساتھ خیر خواہی پر خصوصی تاکید کی ہے۔ کوتا ہی پر متنبہ کیا ہے۔ انسان کی کامیابی و ناکامی بڑی حد تک اللہ کے کمزور بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر منحصر ہے۔
لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ۔ (بقرہ۔۸۳) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ رشتے داروں اور یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی با ت کہنا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا۔
نبی اکرم ﷺنے فرمایا :دین خیر خواہی ہے میں اور یتیم کا سرپرست یتیم چاہے اس کا رشتہ دار ہو یا اجنبی ہو جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں (شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی) کو ملا کر بتایا۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ہلاک اور تباہ ہو نے دیتا ہے۔ جس نے اپنے بھائی کی حاجت پوری کی اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرے گا،جس نے کسی مسلمان سے سختی اور مصیبت کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی ہولناک سختیوں میں سے کسی سختی کو اس سے دور کر دے گا اور جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی کرے گا۔
جو لوگ ضرور ت مندوں، محتاجوں، قیدیوں، مسکینوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔
وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ۔ (بقرہ۔۱۷۷) اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر مسکینوں اور مسافروں پر مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔
اللہ کی خوشنودی و فلاح کے لیے ضروری ہے کہ دولت مند واہل ثروت کمزوروں کا خیال رکھیں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔(روم۔۳۸) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: قیدی کو چھڑاو اور بھوکے کو کھانا کھلاو اور بیمار کی عیادت کرو۔ تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملے یہ نیکی ہے اور اپنے ڈول سے تھوڑا سا پانی اپنے بھائی کے برتن میں ڈال دے یہ بھی نیکی ہے۔
جو لوگ مسکینوں، محتاجوں، یتیموں، قیدیوں، بیواوں اور فقیروں کے حقوق ادا نہیں کرتے ان کے ساتھ مواساۃ و خیر خواہی کا معاملہ نہیں کرتے، بھوکوں کوکھانا نہیں کھلاتے پیاسوں کو پانی نہیں پلاتے وہ اللہ کے نزدیک مجرم اور سزا کے مستحق ہیں۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ۔وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ۔ (فجر:۱۷،۱۸) ہرگز نہیں! بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے۔ جو لوگ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے ہیں قیامت کے روز گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔
خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ۔ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ۔ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ۔إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ ۔وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔(حاقہ ۳۰ تا ۳۴) (حکم ہو گا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑدو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔
جنتی لوگ جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ کیا چیز تم کو جہنم میں لے آئی تو وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے ۔
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔ (مدثر۔ ۴۳؍۴۴) وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ نبی ﷺنے فر مایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں کیسے آپ کی عیادت کرتا آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔
اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو نے مجھے نہ کھلایا۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا حانکہ آپ تو ساری کائنات کے پروردگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا اور تو نے اسے نہیں کھلایا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاں پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو تو نے مجھے پانی نہیں دیا ۔وہ عرض کرے گا اے میر ے رب! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا حانکہ آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں۔ اللہ تعالی فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اس پلائے ہوئے پانی کو میرے یہاں پاتا۔ (مسلم)
مال داروں کے مال میں محتاجوں کا حق قرار دیا گیا ۔ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ۔(الذاریات۔۱۹) اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔ اگر آدمی خود تنگ دست ہے تو اس وقت بھی نرم خوئی سے معذرت کرنے حکم دیا گیا ہے اور جھڑکنے سے منع کیا گیا۔ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى۔وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ (بقرہ۔ ۲۶۳) ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر جس کے پیچھے دکھ ہو۔
سائل اور فقیر
سائل اور فقیر وہ ہے جو اپنی حاجت بلا کسی جھجک کے لوگوں کے سامنے رکھ دے ۔ مسکین:۔ مسکین وہ جو ضرورت مند ہے لیکن خود داری کی وجہ سے اپنی حاجت وضرورت کو کسی کے سامنے نہیں رکھتا ہے بلکہ اپنی خستہ حالی پر پردہ ڈالے رہتا ہے۔
رمضان کا مہینہ ہمیں ان تعلیمات پر مزید عمل کرنے کا موقع عنایت کرتا ہے۔ اس لیے کہ دن بھر کا روزہ معاشی تنگی سے بھوکے رہنے والوں کی تکالیف کا اندازہ کرادیتا ہے کہ ان پر کیا گزرتی ہوگی۔ جو بے گناہ لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں اور ان کے ذمہ ہی گھر ہوتا ہے ان کے قیدی بن جانے کے بعد گھر کے دیگر افراد پر کیا کچھ مصائب آتے ہوں گے۔ اس ماہ میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے اس لیے بھی روزہ دار کے اندر ان اعمال کے کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے ۔ نبی ﷺنے افطار کرانے کی بڑی اہمیت بتائی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ مہینہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روز دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزدار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی یہ اجر اس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوادے یا ایک کھجور کھلا دے یا گھونٹ پانی پلادے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اللہ تعالی اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا (اس حوض سے پانی پی کر) پھر اسے پیاس محسوس نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔ جو شخص روزہ دار کو افطار کرائے گا اسے روزہ دار کا سا اجر ملے گا اور روزہ دار کا اجر کم نہ ہو گا۔
افطار و سحری مال داروں کے بجائے ان غریب و تنگ حال لوگوں کو کرانے کا اہتمام کیا جائے جو اچھے اور معیاری انداز سے نہیں کر پاتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ کامعمول
نبی اکرم انساینت کے لیے سراپا رحمت ورافت تھے ۔ہمیشہ غریبوں محتاجوں، ضرورت مندوں، بیواوں، یتیموں اور غلاموں کا خیال رکھتے اور اسی کی تعلیم دیتے تھے۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ کا دل مزید رقیق ہو جاتا تھا اور جود وفیاضی بخشش، عنایات میں اور شدت و تیزی آجاتی تھی۔ حضرت عباسؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺکا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی و فیاض تھے اور سب زیادہ فیاض اس وقت ہوتے جب رمضان میں حضرت جبریلؓ آپ سے ملاقات کرتے تھے۔حضرت جبریلؓ آپ ﷺسے رمضان میں ہر رات ملاقات کرتے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا۔ آپ ﷺروزانہ حضرت جبریلؓ کے سامنے قرآن پڑھتے تھے جب حضرت جبریل آپ سے ملتے تھے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔
رمضان کے روزے کی قبولیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ انسان کا دل انسانوں کے تئیں نرم پڑ جائے۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو۔ رمضان گزر جانے کے بعد بھی اللہ کی مخلوق پر شفقت، پریشان حال لوگوں پر ترس آئے، غربا و مساکین کے ساتھ حسن سلوک کا داعیہ پیدا ہو سکے۔
***

جو لوگ مسکینوں، محتاجوں، یتیموں، قیدیوں، بیواوں اور فقیروں کے حقوق ادا نہیں کرتے ان کے ساتھ مواساۃ و خیر خواہی کا معاملہ نہیں کرتے، بھوکوں کو
کھانا نہیں کھلاتے پیاسوں کو پانی نہیں پلاتے وہ اللہ کے نزدیک مجرم اور سزا کے مستحق ہیں۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ۔وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ۔ (فجر:۱۷،۱۸)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021