’زندگی دائمی خوشیوں سے عبارت ہے‘

غم سے نجات کے لیے ربِّ کائنات کی پناہ میں آجائیں

نعیم جاوید،سعودی عرب
ڈائریکٹر ادارہ ’ہدف‘ شخصیت سازی

اس فریبِ سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
(حفیظ میرٹھی)
سکون و راحت کی اکہری تعبیریں ہم سے متاع دانش چھین لیتی ہیں۔ مسرت اور غم کوئی ایک رخی راستہ نہیں۔ اس کی تعبیر زندگی کا گہر اشعور مانگتی ہے۔ نفسیات و اعصاب کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی خیال کے تعاقب میں جذبات و احساسات کا دورانیہ صرف چند ہی لمحوں کا پڑاو رکھتا ہے۔ پھر بدن کا نظام اس کو معمول پر لے آتا ہے پھرغم اوجھل ہو جاتا ہے۔ ہمارا وجود فکر کی تھکن بھول جاتا ہے بلکہ مسرت کی قیمتی لذت بھی فراموش کردیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ میں مدت سے پریشان ہوں یا ایک زمانے سے دکھی ہوں تو اس حماقت مآب شخصیت پر دو سنگین جرم کے الزام لگتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے دوسرا، وہ غم کی آنے والی ہر لہر کو جانے نہیں دیتا بلکہ اپنے اختیار سے تھامے رکھتا ہے۔ رب کریم نے ہمارے وجود میں غم بھولنے کی نعمت کو سرشت کے طور پر رکھ چھوڑا ہے۔ ہم انسان ہیں ’صاحبِ نسیان‘ بھولنے والی ذات۔ غم ہو کہ مسرت سب پل دو پل میں فراموش کرنا ہی ہماری پہچان ہے۔ راحت و اذیت میں گھری ہماری زندگی ایک بحر بیکراں ہے۔ اس میں ایک موج غم کی تو دوسری موج مسرت کی آتی ہے۔ اسی تموج میں تیرنا ہی جینا ہے۔ خود کو غموں کے تھپیڑوں کے حوالے کر دینا تیراکی کا فن نہیں سکھاتا۔علامہ اقبالؔ نے ’رموزبے خودی‘ میں خوف سے پیدا ہونے والے غم کو ’ام الخبائث‘ کہا ہے جو زندگی کی شاہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ جس کا علاج صرف رب کائنات کی پناہ میں ہے یعنی توحید ربانی میں ہے۔
یہ موضوع ادھورا ہے اگر ہم نبی رحمتﷺ کے شمائل کا باب نہ دیکھیں۔ انہیں ہر دیکھنے والے نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ’’محمدﷺ مسکراتے تھے‘‘۔ عداوت رکھنے والوں نے بھی تصدیق کی کہ ’’یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا‘‘۔ مسکراہٹ کی دلکشی میراث محمدﷺ ہے۔ ہمیں اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھنا ہو گا۔ میری تمنا ہے کہ ہر مسلمان نبی کے روپ رنگ کی اس پہچان کو اپنے گھر کے مرکزی حصہ میں ایک طغرا سا آویزاں کردے جسے پر لکھا ہو کہ ’’محمدﷺ مسکراتے تھے‘‘ جسے دیکھ کر ہمارے مزاجوں کے ہنگام کو قرار آجائے۔
ہماری صفوں میں جانے کہاں سے غم کی تنظیم کا خیال آیا کہ ہم منظم غم منانے لگ گئے۔ ایک فرقہ نے تو غم کو عقیدہ کی بنیادوں میں اُتار دیا۔ پھر جنتری کو زندگی سے جوڑ دیا گیا۔ مرنے کے تین دن، دس دن، چالیس دن اور پھر سالہا سال جشنِ گریہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن دبے پاوں ان دکھ بھری محفلوں میں مسرت شامل ہو گئی، تفریح نے غم کو کھسکا کر اپنی جگہ نکال لی بلکہ میلے ٹھیلے، روشنیاں سب اپنے حصہ کا ہنگام لے آئے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان جشن، تقریبات اور ہنگامہ پسند کرتا ہے۔ کسی نہ کسی بہانے اس کے دل کو شان و شوکت کی جلوہ نمائی کی طلب ہوتی ہے۔ خود بھی خوش ہوتا اور اوروں کو اپنے مسرت میں شامل کرتا ہے بلکہ اپنے مخالف گرہوں کو جتلا جتلا کر اپنی مسرت پر ڈینگیں مارتا ہے۔ جشن منانے کے لیے وہ کوئی پیکر تراشتا ہے۔ عروس میں پنکھا، علم، کاغذی گنبد اور جانے کیا کیا کچھ۔ عقل کا یہ المیہ ہے کہ جہاں وہ وحی کے حالہ نور سے نکلتی ہے تب وہیں وہ تھک کر کوئی صنم کدہ تعمیر کر لیتی ہے۔ کوئی پیکرِ محسوس ڈھونڈ لیتی ہے۔ اس مقام پر غم اور مسرت گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ بقول برہمانند جلیس ؔ ؎
مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں
وہ ناداں زندگی کا راز اکثر کم سمجھتے ہیں
علامہ اقبال کا ایک فارسی شعر دیکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ شعلوں سے کھیل گئے جس میں انہوں نے ’’تصورِ عید‘‘ پر ہمیں اپنا نور بصیرت دیا ہے۔
’’عیدِ آزادں شکوہ ِ ملک ودین
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین‘‘
یعنی مسرت و انبساط کی وہی گھڑیاں اعتبار و وقار رکھتی ہیں جو آزاد ذہنوں کے سبب دنیا کو ملتی ہیں۔ عید اس سعادت کے سبب مبارک کہلانے کا حق رکھتی ہے جہاں ملک کی سرحدوں کو وسعت ملے۔ زندہ نظریہ کی شان و شوکت دنیا دیکھے۔ جب کہ غلام زادے تو عید کے دن بھیڑ سے بہل جاتے ہیں۔ ان کی سرسری اور سپاٹ سرگرمیاں میلے ٹھیلے اور تفریح سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ آزادوں کی عید جیسے غزوہ بدر کی فتح ’’عید رمضان ‘‘ ٹھہری اور فتح مکہ ’’عید قربان‘‘ کا ایک اشارہ بنا۔ اس کے برعکس بازاروں کے رنگ اور خوش بو کو خود پر انڈیل کر، سرکس سے دل بہلا کر جینا کسی بھی صاحبِ نظریہ قوم کے جینے کا ڈھنگ نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں حزن و مسرت کی گتھی کو سلجھانے کے لیے ایک نگاہ سرورِ دوعالم ﷺ کی زندگی پر ڈالنی ہو گی کہ آپ کا نصابِ غم اور مسرت کا باب کیا تھا۔ کیسے آپ نے اپنے مخالف کے رویے کو جو کبھی حسنِ اختلاف کے معیار سے نیچے اتر کر کوئی حرکت کر بیٹھتا تو آپ غم کے زہراب میں نظریہ کا آب حیات بانٹتے۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ آپﷺ کی برہمی سے ملکوں کے جغرافیہ کے نقشوں کی نئی صورت گری ہوئی۔ زمین کی آڑی ترچھی لکیروں کے کس بل نکال دیے۔ یہ ہوتا ہے آزاد ذہنوں کے سردار کا تصورِ مسرت۔
کبھی سیاسی عداوتوں سے گھری اس دنیا میں حکومت کا سفاک ٹولہ اپنی سازشوں سے ہمیں دکھ دیتا۔ ان کا دیا ہو اغم ہر طرح کے سکون کو معطل کر دیتا ہے۔ ہمارے صبر کے پیمانے چھلک اٹھتے ہیں۔ ہم اپنے مسائل کو وسائل سے جوڑنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم ضائع ہو گئے۔ دل نقدِ حیات ہار جاتا ہے۔ ایسے میں دل روتا ہے لیکن دکھ میں ڈھلے ان آنسووں پر کبھی گھبرا کر دل نہ ہارنا۔ یہ آنسو بتلاتے ہیں کہ ہم دکھ جھیل گئے لیکن اپنی کج کلاہی کا بانکپن نہیں چھوڑا۔ ہم نے نظریہ سے سمجھوتا نہیں کیا۔ زندگی سے فرار اختیار نہیں کی۔ اذیت سہتے سہتے پل بھر کو آنکھوں سے غم ابل پڑا ہے لیکن اب غم کو نمک کے توازن کی طرح رکھنا ہو گا۔ غم کو دل کی دنیا میں مزید یاد کر کر کے نہ انڈیلا جائے۔ دکھ کو اپنے رویوں میں ہمیشہ کے لیے جگہ نہ دی جائے کیونکہ مسرت ’’اتفاق‘‘ نہیں ’’انتخاب ‘‘ہے۔ خوش کہیں زمینوں میں چھپی گیاس اور تیل کے ذخائر کی طرح کا کوئی مال نہیں بلکہ دل کی دنیا میں بسنے والی ایک کیفیت ہے۔ مسرت کی تلاش کوئی الہڑ مزاج کھلنڈرے کی سرگرمی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ و پروقار سرگرمی ہے۔ مسرت کوئی گرا پڑا ہوا خزانہ یا بزرگوں کا ترکہ نہیں جو اتفاق سے یا وراثت میں کسی کو مل جائے بلکہ یہ وہ زمزمہ ہے جو عمل کے مضراب سے نغمہ بن کر ابھرتا ہے۔ یہ کوششوں کی بخشش ہے۔ یہ مشقتوں کی دھوپ کا گھنا سایہ ہے۔ مسرت ایک سمت سفر ہے منزل نہیں۔ شمس رمزی کی دعا پر بات تمام کرتے ہیں ؎
غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا
ائے خدا تو مجھے جینے کا ہنر بھی دینا
[email protected]
Contact: 00966503629674
***

 

***

 علامہ اقبالؔ نے ’رموز بے خودی‘ میں خوف سے پیدا ہونے والے غم کو ’ام الخبائث‘ کہا ہے جو زندگی کی شاہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ جس کا علاج صرف رب کائنات کی پناہ میں ہے یعنی توحید ربانی میں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022