یہ تھے اکابر مظاہر

برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے سے وابستہ شخصیات کے تذکرے

عبد المتین منیری،بھٹکل

نام کتاب: یہ تھے اکابر مظاہر
مصنف: مفتی ناصر الدین مظاہری۔ استاد جامعہ مظاہر علوم ( وقف)،مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم، سہارنپور۔
صفحات: ۱۹۲
ناشرین:(۱) مکتبہ تراث الادب، خانیوال ( پنجاب۔ پاکستان)۔
فون نمبر : 00923004097744۔ 009234440423470
(۲) مکتبۃالانور۔ دیوبند ( سہارنپور۔ انڈیا) فون نمبر: 00918171554526
اللہ تعالی جب کسی نیک کام کی توفیق دینا چاہیں تو اس کے لیے ایسے اسباب پیدا کرتے ہیں، جوکبھی سان وگمان میں بھی نہیں آتے، آج کی سوشل میڈیا کے دور میں واٹس اپ کوئی ایسی چیز نہیں جسے اہل علم سنجیدگی سے لیں، اور اس پر اپنا وقت صرف کرنے کو کارعبث نہ سمجھیں، لیکن علم وکتاب گروپ کے نام سے جو واٹس گروپ قائم ہوا، اور برصغیر کے مختلف مرکزی دینی تعلیمی اداروں، اور مختلف دینی تحریکات سے وابستہ افراد، اور علم ادب سے وابستہ دانشور جب اس میں اکٹھے ہوئے، اور اس میڈیم کو استعمال کرنے کے لیے خود پر کئی ایک پابندیاں عائد کیں تو اللہ کے فضل سے یہ کئی ایک علمی وادبی کاموں کی تحریک کا سبب بن گیا۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جو قلمکار روزآنہ کے معمول سے لکھنے کا خود کو پابند کرتے ہیں، ان کی چند ایک تحریریں دلوں میں وہ حرارت پیدا کر پاتی ہیں جوکسی تحریک کی بنیاد پر جنم لیتی ہیں، اورجن کی ایک قلم کار کوتمنا ہوتی ہے،کیونکہ خانہ پری کے لیے ان میں بھرتی کی چیزیں بھی لادنی پڑتی ہیں، لہذا ان میں کبھی کبھار آمد کے بجائے آورد کا شائبہ ہونے لگتا ہے، لیکن جب کوئی تحریر کسی تحریک کے نتیجہ میں نکلتی ہے، اور قلم کار کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ اسے علم ودانش سے وابستہ ایک سنجیدہ طبقہ پڑھ بھی رہا ہے، اور اس کی ان تحریروں کا منتطر بھی رہتا ہے، تو پھر اس احساس کے نتیجہ میں جو تحریر قلم سے نکلتی ہے، وہ دلوں کے تاروں کو چھیڑنے والی، اور جذبا ت کو مہمیز کردینے والی ہوتی ہے۔ کچھ ایسی ہی تحریروں کا مجموعہ (یہ تھے اکابر مظاہر) کے نام سے ہمارے سامنے ہیں۔ جو دلچسپ بھی ہے اور دلوں کو جھنجھوڑنے والی بھی۔
بنیادی طور پر یہ ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو برصغیر کی ایک عظیم دینی درسگاہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے استاد اور وہاں سے جاری ہونے والے مجلے آئینہ مظاہر علوم کے مدیر مولانا مفتی ناصر الدین مظاہری صاحب نے علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے ممبران کی خواہش پر لکھنی شروع کی تھیں۔ ان تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بے ساختگی کا پہلو غالب ہے، جو کسی ادبی وتاثراتی تحریر کی ایک بہترین خوبی ہے۔ یہ تحریریں کیسے وجود میں آئیں ان کے بارے میں مصنف سے احوال سنتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:
(گروپ میں لکھتے وقت میرے پیش نظر کوئی مستقل ترتیب نہیں تھی، چلتے پھرتے، بسوں، ٹرینوں پلینوں اور اکثر و بیشتر رات کے کسی بھی حصہ میں جو بھی واقعہ جہاں یاد آ گیا، فوری طور پر موبائل سے ہی لکھ کر گروپ میں شیئر کر دیا گیا)۔
فن خطابت کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ بہترین خطیب بننے کا طریقہ یہ ہے جب و ہ کسی موضوع پر تقریر کا ارادہ کرے تو جن خیالات اور افکار کی چلتے پھرتے آمد ہو تی ہے، انہیں وہ فورا قلمبند کرکے محفوظ کرتا چلا جائے ہے، پھر ان افکار وخیالات کی تحقیق و تدوین اور کانٹ چھانٹ کا کام کرتا رہے، امریکی صدر ابراہام لنکن کے سوانح نگاروں نے اسے انگریزی کے چوٹی کے خطیبوں میں شمار کیا ہے، اور اس کی تقاریر کی ترتیب اور طریقہ کار کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ چلتے پھرتے جو خیالات و افکار اس کے ذہن میں آتے انہیں محفوظ کرتا چلا جاتا، اور اپنی تقریر سے پہلے ان کی کانٹ چھانٹ کرتا، اس سے اسے تقریر کے وقت موضوع کے بارے میں سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، بہترین ادبی وفکری تحریریں بھی کچھ اسی طرح ظہور پذیر ہوتی ہیں، کیونکہ کسی تحریک سے ایک مرتبہ جو بات ذہن میں آتی ہے، ضروری نہیں کہ ہمیشہ بوقت ضرورت سوچنے پر وہ یاد بھی آئے۔ اس مجموعہ کے مصنف نے بھی کچھ یہی انداز اپنے اس مجموعے میں اپنا یا ہے۔
یہ مجموعہ برصغیر کے مشہور ومعروف دینی تعلیمی ادارے مدرسہ مظاہر علوم سے وابستہ اساتذہ واکابر کی زندگی کے منتشر واقعات ومشاہدات سے تعلق رکھتا ہے۔
برصغیر کے اہل علم کی زبانوں پر جب دارالعلوم دیوبند کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا نام بھی خود بخود آجاتا ہے، لیکن اول الذکر سے وابستہ شخصیات جتنی تعداد میں مشہور ومعروف ہیں اتنی آخر الذکر کی نہیں ہیں، یہ مدرسہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، مولانا محمد یونس جونپوریؒ جیسے چند ایک بڑے ناموں سے ہی زیادہ معروف ہے، لیکن اس سے نسبت رکھنے والے علم وتقوی کے آسمان کے آفتاب وماہتاب اپنی تعداد میں اس تعداد سے کہیں گنا زیادہ ہیں۔جس کا اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے تاج محل دیکھا ہے، انہوں نے محسوس کیا ہوگا، کہ جب اس کے احاطہ میں داخل ہوتے ہیں تو دور سے کچھ خاص نظر نہیں آتا، لیکن جب اس کے بیرونی گیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو اچانک تاج محل اپنی تمام جولانیوں کے ساتھ نمودار ہوجاتا ہے، یہ کتاب بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے، واٹس اپ کے پیغامات کی آخر کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟ اور کیونکر انہیں سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے؟، لیکن جب اس مختصر سی کتاب کی فہرست کھولتے ہیں تو سامنے ستاروں کی جھرمٹ میں اچانک ایک کہشاں نظر میں آجاتا ہے۔ اور اس کی فہرست مضامین دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، اور قاری سوچتا ہے کہ اچھا یہ بزرگ بھی مظاہر علوم کے فیض یافتہ اور اکابر میں ہیں، ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا! مصنف نے مظاہر علوم کے تعارف کے بارے میں خوب کہا ہے کہ (پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نہ تو مظاہر علوم محتاج تعارف ہے نہ ہی علمائے مظاہر محتاج تعریف، یہ سچ ہے کہ شروع سے ہی اس ادارہ کے اکابر نے زاویہ خمول اور گم نامی میں رہنے کوترجیح دی ہے، وہ اسٹیج سے بھی دور ہی رہے، شہرت سے انہیںکوئی دلچسپی نہ رہی، سادگی اور قناعت ان کا بوریا بستر اور خمول و گمنامی ان کی مملکت تھی، اسی گمنامی اورخمول پسندی کا نتیجہ ہے کہ آج علمائے کرام کا بڑا طبقہ مظاہر علوم کے اصل بانی مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپور تک سے بالکل ناواقف ہے اور واقفین کا بھی یہ حال ہے کہ انہیںصرف نام سناہوا لگتا ہے، کام سے کچھ بھی ناواقفیت ہے)۔اس مجموعے میں منتشر واقعات کو تسبیح کے دانوں کی طرح جوڑا گیا ہے، مصنف نے انہیں مراجع وکتب سے بھی اکٹھا کیا ہے، اور بقول ان کے بہت سے واقعات ایسے ہیں ،(جن واقعات کے حوالہ جات نہیں پائے جاتے، لیکن سینہ بہ سینہ چلے آرہے تھے، جن کو مکمل دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ ضبط تحریر میں لاکر پیش کیا جارہا ہے)۔ یہ باتیں مرتب کی زبانی اچھی بھی لگتی ہیں، کیونکہ آپ کا یہاں کے ماحول کے بارے میں مشاہدہ ہے کہ ( عوام میں خوف خدا دیکھا، میں نے تاجروں میں دینداری دیکھی، عوام کی نماز میں دلچسپی دیکھی، میں نے دیکھا کہ نوجوان اسکولی بچے بھی اپنی جیب میں ٹوپیاں رکھتے تھے تا کہ کہیں بھی ہوں نماز باجماعت میں شامل ہو سکئیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کو قرب و جوار کی مساجد کے اوقات صلوۃ کا پتہ رہتا تھا، یہاں کے خوانچہ فرش، چائے فروش، فروٹ فروش اور عام لوگوں کی زبان پر اکابر کے تذکرے دیکھے، رمضان المبارک کے مہینے میں پورے شہر کے مسلم ہوٹل بند دیکھے، ہر دیندارکو کسی نہ کسی بزرگ سے مربوط دیکھا، عید قرباں کے تینوں دن تمام مسلمان اپنے ہوٹل بند رکھتے تھے، ایک محفل تھی فرشتوں کی جو برخاست ہوئی)۔
ممکن ہے مجموعے میں مذکور بہت سی باتیں اچھنبا لگیں، لیکن مرتب نے جو دیکھا ہے، اس کے بعد انکار کی گنجائش نکلنی مشکل ہے، مصنف کا بیان ملاحظہ فرمائیں ( میں بھی یقین نہ کرتا اگر میں نے اپنی ان ہی آنکھوں سے فقیہ الاسلام مولانا مفتی مظفرحسین کے تقدس کو، شیخ الادب مولانا اطہر حسین کی طہارت کو، ادیب اریب مولانا انعام الرحمن تھانوی کی کفایت شعاری کو، شیخ الحدیث مولانامحمد یونس جونپوری کے تقوی و تقدس کو، مولانا زین العابدین علی کی سادگی کو، اور مولانا حافظ فضل الرحمن کلیانوی کے زہدوورع کونہ دیکھ لیتا ،لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ میں نے شر القرون میں خیر القرون کے چہرے دیکھے، میں نے مظاہر علوم میں انسانوں کی شکل میں چلتے پھرتے فرشتے دیکھے، میں نے سہارنپور میں دین و دیانت کا بول بالا دیکھا)۔
مظاہر علوم جس شخصیت کی طرف منسوب ہے ان کے بارے میں مصنف ذکر کرتے ہیں، ( مدرسہ مظاہر علوم، مولانا محمد مظہر نانوتوی ؒ کی طرف منسوب ہے، جو کہ مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپور کے مخصوص تلامذہ میں سے ہیں۔۔۔ یکم رجب المرجب ۳۸۲۱ھ میں جب مظاہر علوم کی بنیاد رکھی گئی اور ان کو تدریس کے لئے بلایا گیا تو تیس روپئے کے حقیر وظیفے کے لئے انہوں نے سو روپئے ماہاناہ کی تنخواہ چھوڑدی)
بانی مظاہر مولانا سعادت علی فقیہ رحمہ اللہ علیہ کے بارے میں مصنف کی فراہم کردہ یہ معلومات مظاہر علوم کی مسلمانان ہند کے لیے تاریخی اہمیت اجاگر کرتی کہ: ( شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے معاصر ومعتمد، مولانا احمد علی محدث سہار نپور کے استاذ گرامی، مولانامحمد قاسم نانوتوی کے استاذ الاساتذہ، مظاہر علوم کے بانی اور سیداحمد شہید بن عرفان رائے بریلی کی جماعت کے رکن رکین، فقیہ عصر مولانا سعادت علی علیہ الرحمہ کے تفصیلی حالات اور خدمات ہنوز پردہ خفا میں ہیں، گمنامی اور زاویہ خمول میں پوری زندگی گزاری، نہ والد اور تاریخ ولادت کاپیتہ نہ خاندان اور شجرہ نسب کا علم بمشکل سے دو چار واقعات کا علم ہوسکا ہے، نزہۃ الخواطر مظاہر علوم کا ریکارڈ، کتاب سید بادشاہ کا قافلہ آپ بیت، علماء مظاہر علوم، نفح المشموم وغیرہ دو چار ہی کتابیں ہیں جو ماخذ کے لیے دو چار سطور فراہم کرتی ہیں ورنہ تاریخ کی تقریبا بھی کتا بیں فقیہ سہارنپور کے تذکرے سے خالی نظر آتی ہیں۔ مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپور سے مشہور تھے، 1283ھ میں مظاہر علوم کی شروعات اپنے گھر سے کی، گھر پر ہی بچوں کو پڑھاتے تھے، طلب زیادہ ہوئی تو کرایہ کا ایک مکان لے لیا، کچھ تعداد اور بڑھی تو قاضی کی مسجد میں تعلیم جاری کر دی، اسی دوران1286ھ میں آپ کا وصال ہوگیا اور مسجد شاہ نوری کے متصل تدفین عمل میں آئی، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری، مولانا محمد مظہر نانوتوی جیسی نیک طینت ہستیاں مل گئی تھیں جنہوں نے بانی محترم کے انتقال کے بعد تعلیمی سلسلہ کو سنبھالا)
شیخ القرآن مولانا حسین علی الوانی رحمۃ اللہ علیہ، جن کے توسط سے پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں تفسیر قرآن کے دروس کی بہار چلی، اور اس سلسلے کے بزرگوں میں مفسر قرآن احمد علی لاہوریؒ، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ، اور شیخ القرآن پنچ پیر وغیر ہ نے جو شمعیں جلائی تھیں، ان کی روشنی اب بھی فضاؤں کو منور کررہی ہے، لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ مظاہر علوم کے فیض یافتہ تھے، آپ کی بے نفسی اور للہیت کے بارے میں یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
((خادم الطلبہ: خادم الطلبہ کہنا بڑا آسان ہے لیکن طلبہ کی خدمت کر کے دکھانا بڑا مشکل ہے، آپ اپنے مدرسہ کے طلبہ کے حقیقی خادم تھے، طلبہ سے بے تکلف رہتے، ان کی آسانیوں اور راحتوں کا خیال فرماتے، یہاں تک کہ طلبہ جب نیند کی آغوش میں ہوتے آپ کنویں سے پانی نکالتے، وضو خانے پرموجود تمام لوٹوں کو بھرتے،فجر میں جب طلبہ دیکھتے کہ تمام لوٹے پانی سے بھرے ہوئے ہیں تو تعجب کرتے کہ یہ خدمت رات کی تاریکی میں کون انجام دے جاتاہے۔ ایک رات ایک طالب علم نے عزم کیا کہ پتہ تو کروں کہ آخر وہ نادیدہ محسن ہے کون؟ طالب علم رات بھر جاگتا رہا ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا، یہاں تک کہ تہجد کے وقت لوٹوں کے کھنکنے، کنویں سے پانی نکالنے کی آوازیں مسموع ہوئیں، قریب جا کر دیکھا تو مفسر قرآن مولانا حسین علی الوانی تھے)۔
کتاب میں شیخ التفسیر مولانا محمد زکریا قدوسیؒ جیسی شخصیات کا بھی تذکرہ ہے، جن کا ذکر کتابوں میں شاذونادر ہی ملتا ہے،ا ن کے بارے میں امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی یہ شہادت شاید حیران کردے کہ (سیرت نبوی کے موضوع پر میں خود بھی تقریر کر لیتا ہوں اور اہم علماء سے بھی اس موضوع پر مختلف تقریر میں سنی ہیں لیکن سیرت نبوی کے موضوع پر میں نے مولانا محمد زکریا قدوسی گنگوہی کی تقریر سنی تو حیرت زدہ رہ گیا، اس لیے کہ آپ کی تقریرنہایت ہی عجیب وغریب ہے۔)
مولانا قدوسی کی امانت اور احتیاط کا یہ واقعہ بھی سن لیجئے کہ
ہر یانہ ایک جلسہ میں تقریر کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ کے شاگرد رشید مولانا قاری شریف احمد بانی جامعہ اشرف العلوم گنگوہ خادم کی حیثیت سے ہمراہ تھے۔ واپسی پرمنتظمین نے مسور کی دو عدد گٹھری یہ کہ کر دے دیں کہ دس کلو والی مدرسہ کے لیے ہے اور پانچ کلووالی آپ کی ہے۔ مولانا سہار نپور تشریف لے آئے، اگلے دن قاری شریف احمد صاحب سے پوچھا کہ مسور کہاں ہے؟ قاری صاحب نے عرض کہ مدرسہ والی دس کلومطبخ میں جمع کردی ہے اور پانچ کلو جو آپ کی تھی وہ میں نے آپ کے گھر پہنچا دی ہے۔ اتنا سنتے ہی بہت خفا ہوئے اورکہا:( ہمیں کون دے ہے بھائی!ہدیہ تو وہ ہے جو یہاں بیٹھے بٹھائے آئے، ہم لوگ مدرسہ کے کام سے گئے تو اس نے مدرسہ کو دی پھر اس نے خیال کیا ہوگا کہ مولوی بھی للچا رہا ہوگا تھوڑی اسے بھی دے دو)
کتاب اس قسم کے جواہر پاروں سے بھری پڑی ہے، امید ہے کہ ہمارے مدارس دینیہ کے طلبہ و مدرسین کے حلقے میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی، تعلیم وتربیت کے میدان میں یہ ان کی ایک شدید ضرورت بن جائے گی، کتاب کے ناشر مولوی بشارت نواز ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں، جو انہوں نے علم وکتاب واٹس اپ گروپ سے جنم دینے والے (النخیل، احوال مطالعہ نمبر) کے بعد طلبہ و فارغین کے لیے اس قیمتی زاد راہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا، اور اس سلسلے کے مزید سلسلوں کو منظر عام پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔
***

 

***

 آفرین ہے فلسطینیوں پر جنہوں نے بدترین تشدد اور پکڑ دھکڑ کے باوجود قبلہ اول کو پوری آب و تاب کےساتھ شادو آباد رکھا ہوا ہے، پانچوں وقت نماز کے ساتھ نماز تراویح بھی جاری ہے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گولوں کے دھماکوں میں خوش الحان قاری اللہ کا کلام سنارہے ہیں۔ بیت المقدس میں درندگی کےساتھ اہل غزہ پر آتش و آہن کی برسات بھی جاری ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022