وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

گڈکری اور بھاگوت کے درد سے سنگھ کی مایوسی آشکار!

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

وزیر اعظم کے بھائی کو ’بنگال ماڈل‘ کیوں پسند آیا؟ مودی حکومت کے لیے لمحہ احتساب
موٹر سائیکل کے ذریعہ لاش کی منتقلی۔ ڈبل انجن کی حکومتوں میں اندوہناک واقعات
ملک میں جس وقت آزادی کی 75ویں سالگرہ منانے کی تیاری چل رہی تھی تو لوگ باگ اسے آر ایس ایس کا بہت بڑا کارنامہ بتا رہے تھے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ اس نے اپنی تقریباً سو سالہ جدوجہد سے ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کا خوب شرمندہ تعبیر کر دیا ہے۔ ایسے میں روڈ ٹرانسپورٹ اور قومی شاہراہوں کے مرکزی وزیر نتن گڈکری کے ایک چونکانے والے بیان نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ موصوف ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کی فکری تربیت کانگریس یا دیگر سیاسی پارٹی میں ہوئی ہو اور جو اقتدار کی خاطر بی جے پی میں شامل ہوگئے ہوں۔گڈکری نہ صرف بی جے پی کے سابق صدر بلکہ ایک سنسکاری سنگھ سیوک ہیں۔ آر ایس ایس کی شاکھا میں خاکی نیکر اور کالی ٹوپی کے ساتھ ان کی تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ انہوں نے ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں کہا کہ ان کے اندر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے کیونکہ زندگی میں کرنے کے لیے سیاست کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوان اقتدار میں واضح اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود آخر ایک معمر سنگھی رہنما کے اندر اس قدر مایوسی کیوں پیدا ہوئی؟ وہ سنگھ کے گڑھ اوراپنے حلقہ انتخاب میں اپنا دردِ دل ظاہر کرنے پر کیوں مجبور ہوئے ؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصلِ وزارت کے سوا
ملک میں آر ایس ایس کا صدر دفتر ناگپور میں ہے۔ اسی شہر کے ایک جید سماجی کارکن گریش گاندھی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تہنیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نتن گڈکری نے کہا کہ ان کے خیال میں سیاست کا مقصد سماجی تبدیلی ہونا چاہیے لیکن اب وہ محض اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس بیان کی روشنی میں سنگھ پریوار کو خود احتسابی کر کے اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے کہ تقریباً سو سال پہلے اسے کیوں قائم کیا گیا تھا؟ کیا اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی خاطر اس کے رہنماوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی؟ اگر نہیں تو یہ کیوں کر ہو گیا کہ حصولِ اقتدار کے بعد کسی سنگھ سیوک کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ جب اس کے لیے بڑے بڑے گلدستے لاتے ہیں یا پوسٹر لگاتے ہیں تو اسے اس سے خوشی نہیں ہوتی بلکہ وحشت یا نفرت ہوتی ہے۔ سنگھ کو اس بیزاری اور گھٹن کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔
نتن گڈکری کے خطاب میں علاج تو نہیں مگر مرض کی شدت اور اس کی تشخیص کی جانب اشارے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لفظ سیاست کا کیا مطلب ہے؟ آیا یہ معاشرے اور ملک کی فلاح کی خاطر ہے یا حکومت میں رہنے کے لیے ہے۔ جب ہم مہاتما گاندھی کے دور کی سیاست پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سماجی تحریک کا حصہ تھی، لیکن اب یہ قوم کی تعمیر اور ترقی کے مقاصد سے علی الرغم اقتدار میں بنے رہنے پر مرکوز ہوگئی ہے۔گڈکری کے الفاظ میں ”آج سیاست میں جو کچھ دیکھا جا رہا ہے وہ صرف اقتدار میں آنے کے بارے میں ہے لیکن چونکہ سیاست سماجی و اقتصادی اصلاح کا ایک حقیقی ذریعہ ہے اس لیے سیاست دانوں کو معاشرے میں علم و فن وغیرہ کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے‘‘ موصوف کے ذریعہ کی جانے والی یہ یاد دہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ سیاست دانوں کو سماجی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
نتن گڈکری کے مطابق موجودہ دور میں جب لفظ سیاست اپنا معنی، قدر اور اہمیت کھو چکا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ دگرگوں صورتحال بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیوں رونما ہوئی؟ اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس اس انحطاط کو روکنے میں کیوں ناکام رہی، یا کم ازکم اس نے اس کی اصلاح کے لیے کیا کیا؟ گریش گاندھی کا تعلق سنگھ سے کبھی نہیں رہا۔ اپنی عمر پندرہ سال این سی پی میں گزارنے کے بعد انہوں نے 2014 میں پارٹی سے استعفیٰ دے کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ وہ ناگپور میں راشٹروادی کے مقامی صدر رکن قانون ساز کونسل تھے۔ انہیں افسوس تھا کہ وہ اس طویل عرصہ میں پارٹی کے لیے متوقع سیاسی کام نہیں کر سکے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے دوست دتاّ میگھے کی طرح بی جے پی میں چلے جائیں گے انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود گڈکری نے آخر ڈاکٹر گریش گاندھی کے بارے میں یہ کیوں کہا کہ وہ سیاست کی اصل تعریف پر عمل پیرا ہیں اور سماجی شعور کو بیدار کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں؟ اس موقع پر خود صاحب اعزاز نے کہا وہ جمہوری اقدار کی بقاء کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے اور ملک جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کی بنیاد پر ہی ترقی کرسکتا ہے۔
مرکزی وزیر نتن گڈکری اس طرح کے بیانات دے کر دادِ تحسین حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن اس سے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار ہی سیاسی انحطاط کے لیے اصلاً ذمہ دار ہے لیکن بے بس سنگھ پریوار اقتدار اور بے شمار مالی وسائل کے باوجود خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس سے پہلے گڈکری نے کہا تھا ’سیاست میں بھی ہر کوئی پریشان ہے۔ اگر کوئی ایم ایل اے ہے تو وہ افسردہ ہے کیونکہ اسے وزیر نہیں بنایا گیا۔ اگر کوئی وزیر ہے تو وہ دکھی ہے کیونکہ اسے اچھا قلمدان نہیں دیا گیا۔ اگر محکمہ اچھا ہے تو اسے دکھ ہے کہ اسے وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا اور جو وزیر اعلیٰ بنا ہوا ہے اسے اس بات کا ڈر ہے کہ نجانے اسے کب ہٹا دیا جائے گا‘ مہاراشٹر کی موجودہ صورتحال پر یہ تبصرہ من و عن چسپاں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور ان کے نائب کی حلف برداری کے تقریباً چالیس دنوں بعد تک وزراء کے ناموں کا اعلان کرنے سے قاصر رہے کیونکہ ہر رکن اسمبلی کی وہی کیفیت تھی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ وزارتوں کی تقسیم میں کافی وقت لگا اور اس کے بعد بھی خوشی کم لوگوں کو ہوئی ناراض زیادہ ہوئے۔ اس بار منگل پرساد لودھا نامی بلڈر کو وزیر بنا دیا گیا جس کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے فرصت ہی نہیں اور چندر کانت پاٹل کی ناؤ پھڈنویس کی چاپلوسی اور وفاداری نے پار لگائی۔
سماج کے اندر اس رحجان کے فروغ کا نتیجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار کے باوجود مدھیہ پردیش کے اندر ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوا جسے دیکھ کر انسان خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایم پی میں شہڈول سے قریب ضلع انوپ پور کے گونڈارو گاؤں کی رہنے والی جئے منتری یادو کو سینے میں درد ہوا تو گھر والے اسے شہڈول لے گئے۔ وہاں ضلع اسپتال میں علاج کے دوران حالت بگڑی تو میڈیکل کالج میں منتقل کر دیا گیا۔ دونوں مقامات پر خاطر خواہ علاج نہیں ہونے کے سبب اس بیچاری کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد لاش کو گاؤں لے جانے کے لیے میڈیکل کالج میں ایمبولنس نہیں مل سکی اور پرائیویٹ گاڑی والے نے جو رقم طلب کی اس کی ادائیگی پس ماندگان کے بس میں نہیں تھی۔ مجبوراً بیٹا اپنی ماں کی لاش کو موٹر سائیکل پر باندھ کر 80 کلومیٹر دور اپنے گاؤں لے جانے پر مجبور ہوا۔ وائرل شدہ ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ غریب بیٹا لکڑی کے پٹیا پر لاش کو باندھ کر گاؤں کی طرف جا رہا ہے۔
اسپتال کی انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ میڈیکل کالج میں ایمبولنس یا میت بردار کوئی گاڑی دستیاب نہیں ہے۔ اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ریاستی کانگریس صدر کمل ناتھ نے لکھا کہ ’’یہ ہے مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کے 18 سالہ ترقی کی شرمناک تصویر۔ یہ ہے ریاست کا نظامِ صحت۔ شہڈول میں ایک خاتون کی موت کے بعد گاڑی نہ ملنے پر بیٹا اپنی ماں کی لاش کو 80 کلومیٹر دور پٹیے پر باندھ کر بائک سے لے کر گیا۔‘‘ سیاستدانوں کی اقتدار پرستی کے سبب اس طرح کے سانحات ہوتے ہیں اور ایسی خبریں تو اب ایک عام بات بن چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں ضلع ساگر میں تقریباً 40 بچوں کو ایک ہی سیرینج سے کورونا ویکسین لگانے واقعہ سامنے آیا۔ اس خبر پر خوب ہنگامہ ہوا۔ آگے چل کر اس غلطی کا ارتکاب کرنے والے زیر تربیت طبی طالب علم جیتندر نے بتایا کہ اسے پتہ تھا کہ یہ غلط ہے لیکن افسروں کی ہدایت پر ایسا کرنا پڑا۔ اس طرح کے شرمناک واقعات کے پس پشت ان خود غرض سیاستدانوں کا بھی ہاتھ ہے جن کو وزیر اعظم کے ویکسین سے متعلق پوسٹر لگا کر اپنی سیاسی دکان چمکانے سے فرصت نہیں ہے۔
گودی میڈیا عوامی جائزہ لے کر ہر تین ماہ بعد وزیر اعظم کو ملک کے مقبول ترین رہنما کا محضر نامہ عطا کر دیتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ خود ان کے بھائی پرہلاد مودی دہلی کے جنترمنتر پر مرکزی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ احتجاج آل انڈیا فیئر پرائس شاپ ڈیلرس فیڈریشن (یعنی راشن کی دکان والوں کی تنظیم) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ پرہلاد مودی اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کے نائب سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے تنظیم کے دیگر اراکین کے ساتھ دہلی کے جنتر منتر پر اکٹھا ہو کر نعرہ بازی کی۔ وہ تو خیر وزیر اعظم کے بھائی ہیں اس لیے پولیس نے ان پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ورنہ بعید نہیں کہ ان پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا جاتا اور حکومت کو بدنام کرنے کی سزا سنا دی جاتی۔ پرہلاد مودی کا کہنا ہے کہ اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کا نمائندہ وفد جلد ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک عرضداشت پیش کر کے اپنے مطالبات پیش کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس احتجاج کی نوبت ہی کیوں آئی؟ جو وزیر اعظم اپنے بھائی کی نہیں سنتا وہ دوسروں کی جانب کیا توجہ کرتا ہو گا؟
اے آئی ایف پی ایس ڈی ایف کے جملہ نو مطالبات ہیں جن میں مناسب شرح کی دکانوں سے فروخت کیے جانے والے چاول، گیہوں اور چینی کے ساتھ ہی خوردنی تیل اور دالوں پر ہونے والے نقصان کے لیے معاوضے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ مفت تقسیم کے مغربی بنگال راشن ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کروانا چاہتے ہیں۔ مغربی بنگال کی مثال تو گویا مرکزی حکومت کے زخموں پر نمک پاشی ہے کیونکہ ساری دنیا میں گودی میڈیا آدرش گجرات کے ماڈل کا ڈنکا بجاتا ہے۔ ایسے میں گجرات کے پرہلاد مودی کی زبان پر بنگال ماڈل کی تعریف کرنا اور اسے گجرات سمیت سارے ملک میں نافذ کرنے کا مطالبہ مودی سرکار کے لیے باعثِ شرم ہے۔ اس موقع پر یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے تو آخر وہاں بنگال کی طرح مثالی فلاح و بہبود کا کام کیوں نہیں ہوتا؟ وہاں پر بی جے پی کے رہنما کیا کرتے ہیں؟ تو اس کی دلچسپ مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ مثلاً ایودھیا میں ڈیولپمنٹ اتھارٹی جب غیر قانونی کالونائزر کی فہرست جاری کرتی ہے تو اس میں میونسپل کارپوریشن کے اندر ایودھیا کے بی جے پی میئر رشی کیش اپادھیائے، رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا اور سابق بی جے پی رکن اسمبلی گورکھ ناتھ بابا سمیت کئی دیگر نام سامنے آجاتے ہیں۔ یہ یوگی حکومت کے انتظامیہ کی جاری کردہ فہرست ہے اور چونکہ انہیں معلوم ہے کہ بال بھی بیکا نہیں ہوگا اس لیے رام نام کی لوٹ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ویسے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کسے فرصت ہے؟ اقتدار نے ان لوگوں کا دماغ کس قدر خراب کر دیا اس کی ایک اور مثال بھی اتر پردیش میں ہی سامنے آئی جہاں آرمس ایکٹ کے تحت یوگی حکومت میں کابینی وزیر راکیش سچان کو مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے ایک سال کی سزا کے ساتھ 1500 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ اس کے بعد اے سی ایم ایم آلوک یادو کی عدالت سے جیل جانے کے بجائے وزیر موصوف مبینہ طور پر مقدمہ سے متعلق فائل کو لے کر فرار ہو گئے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کے وکیل نے آرڈر کی کاپی چھیننے کی کوشش کی۔ یہی جرائم پر عدم برداشت کی پالیسی ہے جس کا ڈھنڈورا دن رات پیٹا جاتا ہے۔
بی جے پی رہنماوں کی غنڈہ گردی میں ایک ایسی مثال بھی پچھلے دنوں سامنے آئی کہ یوگی انتظامیہ کو اس پر کارروائی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شہر نوائیڈا میں خاتون کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں مفرور بی جے پی لیڈر شری کانت تیاگی کے خلاف اتھارٹی کے دو بلڈوزروں نے اومکسی سوسائٹی میں کارروائی کی۔ کسی بی جے پی رہنما کے خلاف غالباً بلڈوزر چلانے کی یہ پہلی کارروائی ہے۔ اس میں تھانہ انچارج کو بھی معطل کیا گیا اور آگے چل کر تیاگی بھی گرفتار ہوا۔ وہ مودی نگر سیٹ سے بی جے پی کا سب سے طاقتور امیدوار تھا اور اس کے پارٹی کے سبھی بڑے رہنماوں کے ساتھ تصاویر ذرائع ابلاغ میں بکھری پڑی ہیں۔ اس معاملے میں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے ٹویٹ کے ساتھ بی جے کے ایم پی مہیش شرما کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں موصوف کسی سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’’ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ ہماری سرکار ہے۔‘‘ اس طرح کے واقعات کو پڑھ کر سارا ملک شرمندہ ہے اس لیے اکھلیش سوال کرتے ہیں ایسے میں بی جے پی والے آزادی کا امرت مہوتسو کس منہ سے منائیں گے؟
سیاسی انحطاط کے اس عروج سے نمٹنے کی خاطر بی جے پی کے پاس موجود جادو کی چھڑی کا نام نریندر مودی ہے۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سارا فساد انہی کی وجہ سے ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ابھی حال میں اعتراف کیا کہ ایک رہنما تنہا ملک کو در پیش سارے چیلنجس سے نہیں نمٹ سکتا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ کوئی ایک تنظیم یا پارٹی ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔ اس بیان میں صاف اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سمیت آر ایس ایس کی جانب ہے۔ بھاگوت نے اعتراف کیا کہ تنظیم یا رہنما معاون تو ہو سکتے ہیں لیکن عوام کو اس کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔ انہوں نے کہا جنگ آزادی کا آغاز 1857 میں ہوا لیکن اسے کامیابی اس وقت ملی جب عوام میں بیداری آئی اور عام لوگ سڑکوں پر اترے۔ آزادی کی جنگ میں انقلابیوں نے حصہ لیا۔ سبھاش چندر نے جو چیلنج دیا اس سے عوام کو حوصلہ ملا اور ہر کسی کے دل میں آزادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ بھاگوت نے مودی کو درپردہ نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رہنما سماج نہیں بناتے بلکہ سماج رہنما کو بناتا ہے۔ بی جے پی کی تمام تر انتخابی کامیابیوں کے باوجود موہن بھاگوت اور نتن گڈکری کے دل برداشتہ بیانات فیض احمد فیض کے اس شعر کی مانند ہیں ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ابھی حال میں اعتراف کیا کہ ایک رہنما تنہا ملک کو در پیش سارے چیلنجس سے نہیں نمٹ سکتا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ کوئی ایک تنظیم یا پارٹی ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔ اس بیان میں صاف اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سمیت آر ایس ایس کی جانب ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022