اترپردیش: غیر قانونی مذہبی تبدیلی کے معاملے میں ایک عیسائی انسٹی ٹیوٹ کے عہدیداروں کو نوٹس بھیجا گیا

نئی دہلی، دسمبر 28: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے منگل کو چانسلر، وائس چانسلر اور ایک عیسائی انسٹی ٹیوٹ کے ایک اور اہلکار اور ایک بشپ کو نوٹس جاری کیا اور ان سے فتح پور ضلع میں ایک مبینہ غیر قانونی مذہبی تبدیلی کے معاملے میں اپنے کردار کی وضاحت کرنے کو کہا۔

یہ مقدمہ 14 اپریل کو اس وقت درج کیا گیا جب کئی ہندوتوا گروپوں کے ارکان نے فتح پور کے ہری ہر گنج علاقے میں ایوینجلیکل چرچ آف انڈیا کے باہر احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ مقامی لوگوں کا مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔

دی وائر کی خبر کے مطابق پولیس نے وشو ہندو پریشد کے لیڈر ہمانشو دکشت کی شکایت کی بنیاد پر پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی تھی۔

معاملے کے تفتیشی افسر امت کمار مشرا نے کہا ’’تحقیقات کے دوران چانسلر جیٹی اے اولیور، وائس چانسلر راجندر بی لال اور سیم ہیگن باٹم یونیورسٹی آف ایگریکلچر، ٹیکنالوجی اینڈ سائنسز کے انتظامی اہلکار ونود بی لال کا کردار سامنے آیا۔‘‘

یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 420 (دھوکہ دہی)، 467 اور 468 (جعل سازی اور دھوکہ دہی)، اور دفعہ 3 اور 5 (1) اتر پردیش انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون2021 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

اترپردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کے تحت جبری مذہبی تبدیلی کے لیے قصوروار ٹھہرائے جانے والوں کو کم از کم 15,000 روپے جرمانے کے ساتھ ایک سے پانچ سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ وہیں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے نابالغوں اور خواتین کے مذہب کی تبدیلی کے جرم میں سزا یافتہ افراد کو تین سے دس سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔

مشرا نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس نے اس معاملے میں اب تک 54 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جن میں سے 15 جیل میں ہیں، 36 کو پیشگی ضمانت ملی ہے، اور تین مفرور ہیں۔ جن کے خلا مقدمہ درج کیا گیا ہے، ان میں چرچ کے پادری وجے مسیح اور 22 افراد چرچ کے قریب واقع براڈویل کرسچن ہسپتال کے ملازم ہیں۔