یوپی: بس ڈرائیور کو دو مسافروں کے نماز ادا کرنے کا انتظار کرنے پر معطل کر دیا گیا

نئی دہلی، جون 6: اتر پردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک ڈرائیور اور اس کے معاون کو پیر کو اس وقت معطل کر دیا گیا جب انھوں نے اپنی بس کو دو مسافروں کو نماز پڑھنے کا موقع دینے کے لیے روک دیا۔

یہ واقعہ 4 جون کو اس وقت پیش آیا جب بس بریلی ٹرمینل سے نکلی اور رام پور ضلع کے میلک علاقے میں NH24 پر رکی۔ اس وقت بس میں 14 مسافر سوار تھے۔

ڈرائیور کے پی سنگھ نے کہا کہ اس نے بس کو روک دیا کیوں کہ چند مسافر سڑک کے کنارے بیت الخلا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ پھر دو دیگر مسافروں نے انہیں بتایا کہ وہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ سنگھ نے کہا کہ اس نے اس سے اتفاق کیا اور بس کو مزید چند منٹوں کے لیے روک دیا تاکہ انھیں نماز پڑھنے کا موقع مل سکے۔

تاہم بس میں موجود کچھ دوسرے مسافروں نے اس وقت احتجاج کیا جب انھوں نے دیکھا کہ سنگھ ان دونوں مسافروں کی نماز ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک مسافر نے مبینہ طور پر واقعے کی ویڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بس کو صرف دو افراد کی نماز ادا کرنے کے لیے روکا گیا تھا۔

ٹرانسپورٹ باڈی کے ریجنل مینیجر دیپک چودھری نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ سنگھ اور یادو کو ابتدائی تحقیقات کے بعد معطل کر دیا گیا ہے، کیوں کہ مصروف شاہراہ پر بس کو روک کر مسافروں کی حفاظت اور سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق گجرات کے احمد آباد کے رہائشی حسین منصوری نے، جنھوں نے نماز ادا کی تھی، کہا کہ سنگھ اور یادو کے خلاف کارروائی حیران کن ہے۔

منصوری نے اخبار کو بتایا ’’مجھے دہلی سے ٹرین میں سوار ہونا تھا اور میں وقت پر پہنچ گیا۔ بس دوسرے مسافروں کے لیے بھی روکی گئی تھی اور میں حیران ہوں کہ ہمیں نماز پڑھنے کا وقت دینے پر ایسا اقدام کیا گیا ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو میں ان کی ہر ممکن مدد کروں گا۔‘‘

اس دوران یادو نے کہا کہ وہ اور سنگھ معطلی کے اس حکم کو چیلنج کریں گے۔ یادو نے آئی اے این ایس کو بتایا ’’ہمیں نہیں لگتا کہ انھوں نے نماز پڑھ کر کوئی غلط کام کیا ہے۔‘‘

ایمپلائیز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے بھی سنگھ اور یادو کی حمایت کی ہے۔

ایسوسی ایشن کے صدر ہری موہن نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’’مناسب جانچ کے بغیر ملازمین کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی شکایات میں ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے اور پینل کی جانب سے اس شخص کے قصوروار پائے جانے کے بعد کارروائی کی جاتی ہے۔ اس معاملے میں انھیں وضاحت کے لیے بھی وقت نہیں دیا گیا۔‘‘