یوپی: ہجوم نے جنوبی کوریا کی دو خواتین پر مذہب کی تبدیلی کا الزام لگاتے ہوئے ان سے بدسلوکی کی، پولیس نے درج کی ایف آئی آر

نئی دہلی، جنوری 23: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آنے کے بعد ایک مقدمہ درج کیا ہے، جس میں ایک ہجوم کو دو جنوبی کوریائی خواتین کو مارتے ہوئے اور ان پر مذہب کی تبدیلی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔

یہ واقعہ ہفتہ کو میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پیش آیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مردوں کا ایک گروپ خواتین کو گھیرے ہوئے ہے اور ان سے پوچھ رہا ہے کہ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے اور ان کے ساتھ کون کون ہے۔ ہجوم میں سے کسی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’صرف ایک ہی دیوتا ’رام‘ ہے، دوسرا کوئی نہیں۔ یہ عیسائی مشنری ہیں، جو یہاں آنا چاہتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔‘‘

ہجوم کے کچھ ارکان کو ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے بھی سنا گیا۔

سرکل آفیسر (سول لائنز) اروند کمار نے بتایا کہ قریب ہی کی ایک پولیس ٹیم نے معاملے کو قابو میں کیا اور خواتین کو ان کے ہوٹل پہنچایا۔

انھوں نے کہا ’’ایک مقامی انٹیلیجنس افسر کو ان کے لیے تعینات کیا گیا تھا، وہ ہر وقت صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اتوار کو انھوں نے دہلی کے لیے فلائٹ لی، جہاں سے وہ پیر کو اپنے ملک واپس چلی جائیں گی۔‘‘

پولیس نے ٹویٹر پر کہا کہ خواتین کے مذہبی تبدیلی میں ملوث ہونے کے الزامات بالکل غلط ہیں۔ کمار نے کہا کہ وہ سیاحوں کے طور پر میرٹھ میں موجود تھے اور اپنے ایک ہندوستانی دوست کی تجویز پر یونیورسٹی گئے تھے۔

میرٹھ شہر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ پیوش کمار سنگھ نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 153A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف پہلی اطلاعاتی رپورٹ درج کی ہے۔