اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے یو اے پی اے کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے: جسٹس چندر چوڑ

نئی دہلی، جولائی 13: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے پیر کو کہا کہ سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کا استعمال ’’اختلاف رائے کو ختم کرنے‘‘ کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔

یو اے پی اے کے تحت تفتیشی ایجنسیوں کو مذکورہ معاملے کی تحقیقات کے لیے 180 دن ملتے ہیں، جب کہ عام فوجداری قانون کے تحت 60-90 دن۔ اس کا مطلب ہے کہ یو اے پی کے تحت گرفتار کوئی ملزم چھ ماہ بعد ہی ضمانت کے لیے درخواست دینے کا اہل ہے۔

وکلا نے کہا ہے کہ بھارت میں پولیس یو اے پی اے کا کثرت سے استعمال کررہی ہے کیوں کہ اس سے وہ ملزمان کو بغیر کسی مقدمے کے طویل عرصے تک نظربند رکھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ وکلا اس کو پرامن اختلاف رائے کو ختم کرنے کی پولیس کوششوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان قانونی تعلقات سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے کہا ’’انسداد دہشت گردی قانون سازی سمیت فوجداری قانون کا شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، جیسا کہ میں نے ارنب گوسوامی بمقابلہ ریاست میں اپنے فیصلے میں نوٹ کیا ہے۔ ہماری عدالتوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ شہریوں کی آزادی سے محرومی کے خلاف دفاع کی پہلی لائن بنے رہیں۔‘‘

نومبر میں چندرچوڑ اور جسٹس اندرا بنرجی پر مشتمل بنچ نے ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کو 2018 میں خودکشی پر ابھارنے کے ایک معاملے میں ضمانت دی تھی۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ ’’یہاں تک کہ ایک دن کے لیے بھی آزادی سے محرومی بہت زیادہ ہے۔ ہمیں اپنے فیصلوں کے گہرے نظامی مضمرات کے بارے میں ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔‘‘

پیر کے ایونٹ کے دوران چندرچوڑ نے ججوں سے شہریوں کی ذاتی آزادی کو تحفظ دینے کے کا ایک بار پھر مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا ’’ہندوستان سب سے قدیم اور سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الثقافتی، کثرت پرست معاشرے کے نظریات کی نمائندگی کرتا ہے جہاں اس کا دستور گہری وابستگی اور انسانی حقوق کے احترام پر مرکوز ہے۔‘‘

جسٹس چندر چوڑ کے یہ تبصرے 84 سالہ قبائلی حقوق کے کارکن اسٹان سوامی کے زیر حراست مرنے کے ایک ہفتہ بعد آئے ہیں۔ متعدد بیماریوں اور بعد میں کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے باوجود انھیں بار بار ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ کسی بھی قابل اعتماد ثبوت کے بغیر بھیما کوریگاؤں تشدد کیس کے سلسلے میں انھیں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

اس معاملے میں ملزموں میں سے چودہ افراد ابھی بھی مہاراشٹرا کی جیل میں ہی ہیں، جن پر یو اے پی اے کے تحت 2018 میں پونے کے قریب ایک گاؤں میں ذات پات پر مبنی تشدد کو بھڑکانے کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

وہیں 2 جولائی کو کارکن اور آسام کے ایم ایل اے اکھل گوگوئی کو بھی یو اے پی اے کے تحت 1.5 سال قید رکھنے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا۔ جب قومی تحقیقاتی ایجنسی کی ایک خصوصی عدالت نے آسام میں شہریوں سے متعلق ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت دائر ایک مقدمے میں انھیں کلیئر کردیا۔

اس سے قبل جون میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار طلبا کارکنان نتاشا نروال، دیونگنا کالیتا اور آصف اقبال تنہا کو بھی کافی عرصے قید رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔

ایک اور معاملے میں گجرات پولیس کے ذریعے ایک کشمیری شخص کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کے 11 سال بعد بری کیا گیا تھا۔