آسام حکومت نے مجوزہ بل میں مندروں کے قریب اور ’’ہندو، جین اور سکھ علاقوں‘‘ میں گائے کے گوشت کی خرید وفروخت پر پابندی کی تجویز پیش کی

نئی دہلی، جولائی 13: انڈین ایکسپریس کے مطابق آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرمہ نے پیر کے روز ریاستی قانون ساز اسمبلی میں ایک بل پیش کیا، جس کا مقصد مویشیوں کے ’’ذبح، استعمال اور غیر قانونی نقل و حمل‘‘ کو منظم کرنا ہے۔ آسام کیٹل پریزرویشن بل 2021 کے تحت ’’ہندو، جین، سکھ اور گائے کا گوشت نہ کھانے والی دیگر برادریوں کے علاقوں میں‘‘ یا کسی بھی مندر یا سترا کے ’’5 کلومیٹر کے دائرے میں‘‘ گائے کے گوشت کی اشیاء کی خرید و فروخت پر پابندی ہوگی۔

بل میں یہ ایک انوکھا قانون ہے کیوں کہ مویشیوں کے ذبیحہ کے خلاف قانون سازی کرنے والی دوسری ریاستیں گائے کے گوشت اور اس کی مصنوعات کو فروخت کرنے یا خریدنے کے لیے مخصوص علاقوں کی ترتیب نہیں کرتیں۔ اگر یہ منظور کر لیا گیا تو یہ نیا بل آسام کیٹل پریزرویشن ایکٹ 1950 کی جگہ لے لے گا، جس میں سرمہ کے مطابق گائے کے تحفظ کے لیے مناسب قانونی دفعات کا فقدان ہے۔

مسودہ قانون کے مطابق ریاست میں مویشیوں کا ذبح صرف حکام کی اجازت سے اور سرکاری افسران کے ذریعے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بعد لائسنس یافتہ سلاٹر ہاؤس میں کیا جاسکتا ہے۔

مجوزہ قانون مویشیوں کی مختلف اقسام میں فرق نہیں کرتا ہے۔ اس کا اطلاق ان تمام مویشیوں پر ہوتا ہے جن میں ’’سانڈ، بیل، گائے، بچھڑے، نر اور مادہ بھینسیں اور بھینس کے بچھڑے‘‘ شامل ہیں۔ معلوم ہو کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش دونوں نے مویشیوں کے ذبیحہ کے خلاف قوانین میں صرف گائے کی نسل کو ہی شامل کیا تھا۔

مجوزہ قانون سازی میں کہا گیا ہے کہ ذبح کے لیے تمام مویشیوں کے لیے منظوری کا سرٹیفکیٹ ضروری ہے لیکن عمر کی پرواہ کیے بغیر گائے کو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔

اس بل میں بغیر لائسنس کے مویشیوں کی نقل و حمل پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بغیر دستاویزات کے مویشیوں کو ریاست کے اندر منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مجوزہ قانون سازی پولیس افسران کو بھی تقویت دیتی ہے کہ سب انسپکٹر کے درجے سے نیچے اور رجسٹرڈ ویٹرنری افسران کسی بھی سلاٹر ہاؤس میں خلاف ورزیوں کے لیے داخل ہونے اور ان کا معائنہ کرنے کا اختیار پاتے ہیں۔ اگر خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں تو جب تک سرکاری وکیل کی درخواست پر سماعت نہیں ہوتی ملزم ضمانت نہیں لے سکتا۔

ملزم کو تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے، جس میں آٹھ سال تک کی توسیع اور 5 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

مجوزہ قانون سازی کے بارے میں حزب اختلاف کے رہنما ساکیہ نے کہا کہ اس میں متعدد پریشان کن باتیں ہیں اور قانونی ماہرین ان کی جانچ کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’مثال کے طور پر گائے کے گوشت کے بارے میں مندر کے 5 کلومیٹر احاطے کا حکم۔ ایک پتھر رکھا جاسکتا ہے اور کسی کے ذریعہ کہیں بھی ایک ’’مندر‘‘ بنایا جاسکتا ہے۔ تو یہ بہت مبہم ہو جاتا ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘

اپوزیشن نے کہا کہ وہ بل میں ترمیم کرنے پر زور دے گی۔ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنما امین الاسلام نے کہا ’’یہ گایوں کی حفاظت یا گائے کا احترام کرنے کا بل نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور برادریوں کو مزید پولرائز کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور کوشش کریں گے اور اس کے خلاف ترمیمی قراردادیں لائیں گے۔