کشمیری صحافی عرفان مہراج کو این آئی اے نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا

نئی دہلی، مارچ 21: کشمیری صحافی عرفان مہراج کو پیر کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے سرینگر سے غیر قانونی (سرگرمیوں) کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار کیا۔

ایک بیان میں مرکزی ایجنسی نے کہا کہ مہراج انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کا قریبی ساتھی ہے، جسے نومبر 2021 میں غیر قانونی (سرگرمیوں) کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت دہشت کی فنڈنگ سے متعلق کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مہراج اور پرویز دونوں جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی سے وابستہ ہیں، جو سرینگر میں غیر منافع بخش مہم اور وکالت کرنے والی تنظیموں کی یونین ہے۔

ایجنسی نے الزام لگایا کہ ’’تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ JKCCS [جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی] وادی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کر رہا تھا اور وہ انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں وادی میں علیحدگی پسند ایجنڈے کا پرچار بھی کر رہا تھا۔ اس معاملے میں وادی میں قائم کچھ این جی اوز، ٹرسٹ اور سوسائٹیز کے دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کی فنڈنگ میں ملوث ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘‘

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں کچھ غیر سرکاری تنظیمیں خیراتی اور فلاحی سرگرمیوں کی آڑ میں چندہ اکٹھا کر رہی ہیں لیکن ان کے لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین جیسی عسکریت پسند تنظیموں سے تعلقات ہیں۔

ایجنسی نے کہا کہ مہراج اکتوبر 2020 میں درج مقدمے میں گرفتار ہونے والا پہلا شخص ہے۔

صحافی رقیب حمید نائک کے مطابق مہراج کو دہلی لے جایا گیا ہے۔

مہراج Wande میگزین کے بانی ایڈیٹر ہیں اور اب TwoCircles.net پر سینئر ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے دی انڈین ایکسپریس، الجزیرہ، ہمل ساؤتھ ایشین، ڈی ڈبلیو اور ٹی آر ٹی ورلڈ جیسی اہم صحافتی اداروں کے لیے بھی کام کیا ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مہراج کے خلاف کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہراج جیسے صحافیوں کو ’’سچ بولنے‘‘ پر گرفتار کیا جا رہا ہے جب کہ کشمیر میں مجرموں کو آزادانہ طور گھومنے کی اجازت ہے۔

مفتی نے ٹویٹ کیا کہ ’’یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کا مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ عمل خود سزا بن جائے۔‘‘

دریں اثنا اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق کے محافظ میری لالر نے مہراج کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

پریس کلب آف انڈیا نے اس گرفتاری کو یو اے پی اے کے سخت قانون کا غلط استعمال قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ ’’شدید طور پر اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘

وادی میں قائم ایک پریس باڈی جرنلسٹ فیڈریشن آف کشمیر نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ گرفتاری کشمیر میں ایسے صحافیوں کو دھمکانے کی ایک کوشش ہے "جنہوں نے ہمیشہ خطرناک حالات میں کام کیاہے اور اپنی جان کو لاحق خطرات کے باوجود آزاد صحافت کی اقدار کو برقرار رکھا ہے۔‘‘