تیل کی سیاست اور زیر زمین حقیقت

سعودی قیادت دھرتی کے سیاہ دودھ میں پا نی کی بڑھتی سطح سے چوکنا

مسعود ابدالی

امریکی اصرار کے باوجود تیل کی پیداوار میں قابل لحاظ اضافے سے گریز
صدر بائیڈن کا حالیہ دورہ سعودی عرب ’کھوداپہاڑ نکلی چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی‘ ثابت ہوا۔ خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امریکہ اور یورپی اتحادی بلکہ ساری دنیا بے حد پریشان ہے۔ امریکی صدر اپنے احباب کو کہہ کر آئے تھے کہ محمد بن سلمان ہم سے وقتی طور پر ناراض ہیں لیکن امریکہ کے ایک مخلص دوست کی حیثیت سے وہ اس نازک وقت میں تیل کی پیداوار بڑھاکر ہماری مدد کریں گے۔ لیکن آئے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون ہم گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔ آج گفتگو تیل کی سیاست اور سعودی سیال سونے کے مستقبل تک محدود رہے گی اور ہم اس کے چند عام فہم تیکنیکی پہلووں کا بھی جائزہ لیں گے۔
مہنگی توانائی صدر بائیڈن کے خلاف دو دھاری بلکہ پنج دھاری تلوار ہے جس کی ہر ضرب چچا سام کی چودھراہٹ اور امریکہ میں بائیڈن کی صدارت دونوں کے دن گنتی جارہی ہے۔
ایک طرف تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے صدر پیوٹن کا بٹوہ ابلا پڑرہا ہے اور انھیں جنگی اخراجات کی کوئی فکر نہیں۔ حال ہی میں روس نے ایران سے کئی سو ڈرون خریدے ہیں۔ تیل کی فروخت سے یہ تمام اخراجات باآسانی پورے ہورہے ہیں۔ جبکہ یوکرین کی مدد کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی آمدنی کا خطیر حصہ تیل اور گیس کی خریداری پر خرچ کررہے ہیں اور چند پیسے جو بچ رہے وہ یوکرین جنگ میں پھینک دیے جاتے ہیں۔
مہنگے تیل نے بازار کو آگ دکھادی ہے۔ نونہالوں کا دوددھ ہو یا روٹی ، انڈے اور دال ساگ، غذا اور دوا سب کے دام آسمان پر ہیں۔ سونے کے بھاو بکتی توانائی نے پیداواری لاگت کو آسمان کے ہم پلہ کردیا ہے نتیجے کے طور پر کارخانوں کو تالہ لگا گر مزدوروں کو سرخ جھنڈی (pink slip)دکھائی جارہی ہے۔ امریکہ میں افراط زر کی شرح گزشتہ تیس سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ بلند ہے۔ انتخابات کے دنوں میں مہنگائی، بے روزگاری اور کساد بازاری حکومت کے لیے موت کا سامان ہے اور امریکہ میں چار ماہ بعد وسط مدتی چناو ہونے ہیں۔
یورپ کا حال اس سے بھی برا ہے۔ بڑے علاقے میں خشک سالی نے معاملہ مزید خراب کردیا ہے۔ یورپی یونین کی صدر محترمہ ارسلا وانڈرلین، سستی گیس کے لیے ماری ماری پھر رہی ہیں۔ جون میں وہ اطالوی وزیراعظم کے ساتھ اسرائیل گئیں جہاں انہوں نے بحرروم سے حاصل ہونے والی گیس کو LNGمیں تبدیل کرکے مصری ٹینکروں کے ذریعے یورپی یونین بھیجنے کا معاہدہ کیا۔
یہ دراصل مالِ مسروقہ خریدنے کا معاہدہ ہے کہ بحرِ روم میں گیس کے تینوں میدان لبنان اور فلسطین کی ملکیت ہیں جس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ کارش (Karish) فیلڈ کے معاملے پر لبنان نے امریکہ کو اپنا ثالث مقرر کیا ہے۔ اس سے متصل ثمر کو بھی لبنان اپنی ملکیت قراردیتا ہے اور اقوام متحدہ نے اسرائیل اور لبنان کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ستم ظریفی کہ یورپی یونین نے بھی ان میدانوں کی ملکیت کو متنازعہ تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ دنوں لبنان کی حزب اللہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر کارش اور ثمر سے گیس کشید کی گئی تو اسے روکنے کے لیے عسکری قوت استعمال کی جائے گی۔ لیویاتھن (Leviathan) فیلڈ غزہ کے ساحل کے قریب ہے اور فلسطینی اس کے دعویدار ہیں۔ ان تینوں میدانوں کے تصدیق شدہ ذخائر کا مجموعی حجم 690 ارب مکعب میٹر (690BCM) ہے۔
گزشتہ ہفتے محترمہ وانڈرلین آذربائیجان تشریف لے گئیں اور طئے پایا کہ پائپ لائن کے ذریعے ترکی سے آنے والی گیس کا سالانہ حجم 8.1 ارب مکعب میٹر سے بڑھا کر 12 ارب مکعب میٹر کردیا جائے گا۔
یہی دردمند کتھا کہانی لے کر صدر بائیڈن سعودی عرب گئے ، جمال خاشقجی کے معاملے پر شہزادے کی شان میں جو گستاخی سززد ہوگئی تھی ، اس پر معافی بھی مانگ لی لیکن شہزادہ گلفام نے صاف صاف کہہ دیا کہ ارامکو کے لیے پیداوار کو 13 ملین یا ایک کروڑ تیس لاکھ بیرل روزانہ سے زیادہ کرنا ممکن نہیں۔ اس وقت سعودی کنویں ہر روز 10.46ملین یا ایک کروڑ چالیس لاکھ 60 ہزار بیرل تیل اُگل رہے ہیں یعنی سعودی تیل کا اضافی حجم 25 لاکھ چالیس ہزار بیرل یومیہ ہوگا۔
امریکی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کی درخواست پر سردمہری دراصل شہزادے کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ کورونا کے دوران جب تیل کی قیمتیں زمین سے لگی ہوئی تھیں تب ارامکو نے (نفع میں) بھاری نقصان اٹھایا ہے اور یہ ان کے لیے کمائی کا وقت ہے اور امریکہ ایسا کونسا ان کا سگا ہے کہ جس کے مفاد میں وہ نفع کی بہتی گنگا سے اٹھ جائیں۔ کیا واشنگٹن اس کے عوض سعودی عرب کو اپنا اسلحہ رعایتی داموں پر فروخت کرے گا۔ امریکی بہادر ہمیشہ اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔
ولی عہد کی ناراضگی اور مملکت کے مالیاتی و اقتصادی مفادات اپنی جگہ لیکن سعودی تیل کے ذخائر، ان کی مقدار اور قابل کشید مدت کی بناپر تکنیکی اعتبار سے بھی پیداوار میں بھاری اضافہ ممکن نہیں۔ سعودی عرب میں 70 فیصد سے زیادہ تیل اِن 6 میدانوں سے حاصل ہوتا ہے
• غوار: خلیج سے متصل الاحسا میں 8400مربع کلومیٹر پر پھیلا دنیا میں یہ تیل اور گیس کا سب سے بڑامیدان ہے۔ غوار 1948 میں دریافت ہوا۔ یہاں کنووں کی اوسط گہرائی 6500 فٹ ہے۔ چٹانوں کا نظام خاصہ مستحکم ہے اس لیے کھدائی زیادہ مشکل نہیں، نتیجے کے طور پر یہاں پیداواری لاگت دنیا میں سب سے کم ہے۔ پندرہ بیس سال پہلے یہاں سے 50 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالا جاتا تھا۔ اب یہ مقدار گھٹ کر 38 لاکھ بیرل رہ گئی ہے۔ غوار سے یومیہ 2 ارب مکعب فٹ (2bcf) گیس بھی حاصل کی جاتی ہے۔ ایک زمانے تک سعودی پیداوار کا نصف غوار سے حاصل ہوتا لیکن اب مجموعی پیداوار میں غوار کا حصہ ایک تہائی سے کچھ زیادہ رہ گیاہے
• خریص : ظہران اور ریاض کے درمیان 2890 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ میدان 1965 میں دریافت ہوا لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار کا آغاز 2006 میں ہوا ۔خریص سے اوسطاً پندرہ لاکھ بیرل تیل یومیہ حاصل کیا جاتا ہے۔ بہت سے ماہرین خریص کو غوار کا حصہ سمجھتے ہیں۔ خریص سے حاصل ہونے والے تیل میں بھی پانی کی مقدار بڑھتی جارہی ہے۔
• قطیف اور ابو سعفہ : خلیج سے متصل قطیف میدان سے یومیہ پانچ لاکھ اور خلیج کے اتھلے پانیوں میں ابوسعفہ سے 3 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالاجاتا ہے
• السفانیہ: خلیج عرب (یافارس) میں یہ میدان 1956 میں دریافت ہوا اور 1957 میں پیداوار شروع ہوئی۔ سفانیہ سے 12 لاکھ بیرل تیل حاصل ہوتا ہے
• شیبہ: یہ میدان لق و دق صحرا میں ہے جسے ربع الخالی کہتے ہیں۔ پیداواری علاقہ ابوظہبی کی سرحد سے 10 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے صحرا کی حد بندی پر ’دوستانہ‘ اعتراض جمع کروا رکھا ہے اور اماراتی حکمراں دبے لفظوں میں شیبہ کو ابوظہبی کا حصہ قراردیتے ہیں۔ اس میدان سے روزانہ دس لاکھ بیرل تیل کشید کیا جاتا ہے۔ غالباً یہ سعودی تیل کا خلیج سے دور واحد میدان ہے ورنہ تمام بڑے میدان خلیج یا اس کے کنارے واقع ہیں۔
ان چھ میدانوں سے اوسطاً 83 لاکھ بیرل تیل روزانہ حاصل ہوتا ہے جو مملکت کی کل پیداوار کے 79 فیصد سے زیادہ ہے۔ سعودیوں کے لیے اصل فکر کی بات غوار کے لچھن ہیں۔ کنووں میں تیل کے نیچے پانی کی تہہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے تیل اوپر آتا ہے پانی کی تہہ بھی بلند ہوتی جاتی ہے اور تیل کے ساتھ پانی بھی اوپرآتا ہے جسے پیداواری اصطلاح میں Water Cutکہتے ہیں۔ اس وقت غوار میں پانی کا حجم 38 فیصد ہوگیا ہے یعنی ہر سو میں 62 بیرل تیل اور 38 پانی اوپر آریاہے۔ خیال ہے کہ 2027 یعنی پانچ سال بعد یہ تناسب 50 فیصد ہوجائے گا۔ الخریص میں یہ صورتحال 2035 تک متوقع ہے۔
پانی کی مقدار بڑھنے سے جہاں تیل کی پیداوار کم ہوتی ہے وہیں اس پانی کو ٹھکانے لگانا ایک دردِ سر ہے۔ عام طور سے کنویں کھود کہ یہ پانی ذخیرے کے نیچے پمپ کردیا جاتا ہے تاکہ تیل اور پانی کی پیداوار سے کم ہونے والے دباو کو برقراررکھا جائے ۔ یہ خاصہ مشکل ، محنت طلب اور خرچے کا سودا ہے اور بعض اوقات Water Management کا خرچ تیل کی آمدنی سے بڑھ جاتا ہے۔ سندھ کے علاقے بدین میں بھی یہ مسئلہ ہے۔
ارامکو کی لائق و فائق اور دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ قیادت کو اس صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ وہ وزارت کو اس معاملے سے برابر آگاہ رکھے ہوئے ہے اور جب ولیعہد صدر بائیڈن سے بات کررہے تھے اس وقت مستقبل کی پوری صورت گری ان کے سامنے تھی۔ محمد بن سلمان کے رویہ السعودیہ(vision 2030) کا مرکزی محرک بھی یہ زمینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے مملکت آمدنی کے لیے خام تیل پر انحصار کم سے کم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خام تیل کی کشید کے ساتھ ارامکو ساری دنیا میں تیل صاف کرنے کے کارخانوں، پائپ لائنوں اور نقل و حمل کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔ نئے دریافت ہونے والے زیادہ تر میدانوں سے گیس کشید کی جارہی ہے، چنانچہ LNG تنصیبات اور پلانٹ پر سرمایہ کاری ہوری ہے۔
مستقبل میں خام تیل کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد ترجیح ہوگی ، ریفائنری کے ساتھ اپنے پیٹرول پمپوں کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی تقسیم پر توجہ دی جائے گی۔ تیل کے سکڑتے ذخائر کی بنا پر خام تیل کا برآمدی حجم کم ہوگا اور آمدنی میں اضافے کے لیے خام مال کے بجائے اضافی قدر یا value addition کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں کاربن سے پاک ، ماحول دوست ایندھن کی مانگ بڑھ رہی ہے، 2030 سے تقریباً آدھے یورپ میں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیان متروک ہورہی ہیں جس کی پیش بندی میں سیاحت اور کاروباری سرگرمیوں کا فروغ وژن 2030 کا کلیدی جزو ہے۔
مختصراً یوں سمجھئے کہ زیر زمین ذخائر کی صورتحال کے پیش نظر بھاری سرمایہ کاری کے بغیر پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں جبکہ سیاہ سونے کے لیے اضافی سرمایہ کاری شہزادہ گلفام کے وژن 2030 اور تزویراتی (اسٹریٹیجک) منصوبے سے متصادم ہے ۔ اسی بنا پر انہوں نے امریکی صدر کو تیل کی پیدوار میں خفیف سے اضافے پر ٹرخادیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 مہنگے تیل نے بازار کو آگ دکھادی ہے۔ نونہالوں کا دوددھ ہو یا روٹی ، انڈے اور دال ساگ، غذا اور دوا سب کے دام آسمان پر ہیں۔سونے کے بھاو بکتی توانائی نے پیداواری لاگت کو آسمان کے ہم پلہ کردیا ہے نتیجے کے طور پر کارخانوں کو تالہ لگا گر مزدوروں کو سرخ جھنڈی (pink slip)دکھائی جارہی ہے۔امریکہ میں افراط زر کی شرح گزشتہ تیس سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ بلند ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022