تین روزے ۔ تین افطار

ماہ رمضان کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

ڈاکٹر ساجد عباسی

ہم اس سوچ کو اختیارکرلیں کہ ہم حالتِ روزہ میں ہیں جس کی مدت آغازِ شعورسے زندگی کے سورج کے غروب ہونے تک یعنی آخری سانس تک ہے۔ اس ہمہ وقتی روزہ کا وقتِ افطار ہے اللہ سے ملاقات اور اس کے دیدار کا وقت ۔یہ ابدی افطار جنت کی لا زوال نعمتوں کی صورت میں ملے گا جس کا تصور ہم نہیں کرسکتے ۔ہم اللہ کی معصیت سے بچ کر اس روزہ کو مفسد ہونے سے اسی طرح بچائیں جس طرح ہم نے رمضان میں اپنے روزوں کی حفاظت کی تھی ۔
تین روزوں سے مراد کیا ہے؟ایک روزہ وہ ہے جو صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک رکھا جاتا ہے ۔طلوع ِ فجر سے قبل سحری کی جاتی ہے اور غروبِ آفتاب کے بعد افطار کیا جاتا ہے۔ دوسرا روزہ وہ ہے جو رمضان کے ایک ماہ پر محیط ہے۔اس ایک ماہی روزہ کا افطار پہلی شوال کوکیا جاتا ہے ۔اسی افطار کی مناسبت سے اس کا نام عیدالفطر ہے ۔عیدالفطر کو خوشی کادن مقرر کیا گیا ہےاور اس دن روزہ رکھنا حرام کردیا گیا ہے۔ تیسرا روزہ وہ ہے جو پوری دنیاوی زندگی پر محیط ہے۔ متقیانہ و پرہیزگارانہ زندگی کو روزہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔اس روزہ کا افطار اس دن ہوگا جب بندۂ مومن کی اللہ سے ملاقات ہوگی ۔اس افطار میں اس کو وہ کچھ ملے گا جو اس کا دل چاہے گا۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں۔ایک فرحت وہ ہے جووہ اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ افطارکرتا ہے۔ دوسری فرحت وہ ہے جب وہ اللہ سے ملاقات کرے گااور اللہ تعالیٰ اسے بدلہ دے گا۔ رمضان کے روزے دراصل زندگی بھر کے طویل روزہ کو رکھنے میں مشق کا کام کرتے ہیں ۔یہ حقیقت اگر ذہن نشین رہے تو رمضان کے اختتام پر مسلمان رمضان کے اثرات کو باقی رکھیں گے۔عید کی نمازکے بعد بھی مسجدوں کی رونقیں باقی رہیں گی ۔نیکیوں کا موسم بعد رمضان بھی جاری رہے گا۔رمضان سے قبل کتنے ہی لوگ رہے ہوں گے جو جہنم سے قریب ہوچکے تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ قیام و صیام کے بدلے ہر روزان کے گناہوں کو معاف کرتا رہا اور نیکیوں کو ۷۰۰ گنا بڑھاتا رہا۔ مزید اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو شبِ قدر کا ایسا تحفہ عطا فرمایا کہ جس کو عبادت سے لبریز شبِ قدرمیسر آئی وہ تو اتنا خوش قسمت ہے کہ اس ایک رات کی عبادت کے بدلے میں اس کو ۸۰ سالہ اللہ کی اطاعت میں گزری زندگی سے بھی زیادہ نیکیاں ملتی ہیں۔اس طرح اختتام رمضان پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہنم سے بچاکر جنت کا مستحق بنادیا ۔کیا ہم اس استحقاق کو کھونا پسند کریں گے؟ کیا ہم اگلے رمضان کو پانے کی امید میں خواہشاتِ نفس کی خاطر تقویٰ کی روش سے دستبردار ہونا گوارا کریں گے؟ کیا اگلا رمضان یقینی طور پر ہم کو ملے گا؟ زندگی اور موت کس کے ہاتھ میں ہے؟ پرہیزگاری کیا صرف رمضان میں مطلوب ہے؟ کیا ہم رمضان میں ہی اللہ کے وفادار اور بقیہ گیارہ مہینے شیطان کے وفادار بن جائیں گے؟ کیا ہم اللہ کے احسان عظیم کا شکر اس طرح ادا کریں گے کہ جنت کے استحقاق کو کھو کر جہنم کے استحقاق کو خرید لیں؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أُولَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۱۷۵)
رمضان میں روزوں کا ایک مقصد ہے تقویٰ کا حصول ۔کیا تقویٰ رمضان کے بعد مطلوب نہیں ہے؟دوسرا مقصدہے قرآن کے نزول پر شکرگزاری ۔کیا یہ شکر گزاری رمضان کے بعد مطلوب نہیں ہے۔شکرگزاری کاتقاضا یہ ہے کہ نعمت کا صحیح استعمال ہو۔آنکھوں کی نعمت کا شکر اس طرح سے ادا ہو کہ ہماری آنکھیں اللہ کی معصیت سے بچی رہیں ۔اسی طرح نعمتِ قرآن کا شکر اس سے ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہم قرآن کے حقوق رمضان کے بعد بھی ادا کریں۔ماہِ رمضان نے ہمارا تعلق قرآن سے جوڑدیا ہے ۔اس تعلق کو رمضان کے بعد بھی اس طرح قائم رکھیں کہ ہم کو قرآن کو سمجھ کر پڑھیں چاہیے اگرچہ یومیہ ایک دو یا تین آیات ہی ہوں ۔صیام رمضان کا تیسرا مقصدیہ تھا کہ روزوں کے ذریعے ہم نے اللہ کی کبریائی کو اپنی زندگی میں قائم رکھنا سیکھا ۔اللہ کی مرضی کو ہم نے رمضان میں مقدم رکھ کر اللہ کو سب سے بڑا ثابت کیا۔ وہ ہماری خواہشات اور بنیادی جسمانی ضروریات سے بھی بڑا ہے۔ہم نے ہماری معمولاتِ زندگی کو پورے ایک ماہ میں بدل کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ ہر چیز سے بڑا ہے۔عیدالفطر پر ہم نے بآوازِ بلند تکبیرات پڑھ کر زبان سے بھی اللہ کی بڑائی کا اعلان کیا ۔کیا یہ مناسب ہے کہ رمضان میں اللہ کی تکبیرہو اور رمضان کے بعد معاذاللہ، ہمارا معاشرہ عملاً اس کے برعکس نمونہ پیش کرے؟
ہمارے سامنے یہ حقیقت ہمیشہ مستحضر رہے کہ ہماری ساری زندگی ایک ہمہ وقت روزہ دار کی زندگی ہے۔متقیانہ زندگی کا مزاج روزہ دار کی نفسیات سے عبارت ہے۔ماہِ رمضان میں سارا دن ہمیں یہ یاد رہتا تھا کہ ہم روزے سے ہیں ۔اسی طرح رمضان کے بعد بھی ہم یہ یاد رکھیں کہ ہم نے ایک ایسا روزہ رکھا ہوا ہے جس کی افطار اللہ سے ملاقات پر ہوگی، جہاں اللہ تعالیٰ ہمارا استقبال فرمائے گااور ہماری میزبانی فرمائے گا۔اس میزبانی کا ایک منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے مقرب بندوں کو شراب طہور پلائے گا۔ عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ۔ اُن کے اوپر باریک ریشم کےسبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے،ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے،اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ (سورۃ الدھر ۲۱) نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ۔ یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ (سورۃ حٰم السجدہ ۳۲)
جنت دراصل اللہ کے نیک بندوں کے لیے دائمی و سرمدی افطار کی جگہ ہے ۔روزہ تو چندسالہ زندگی پر محیط تھا لیکن دعوتِ افطار ابدی ہے اور اتنی پر لذت کہ ہر روز اس لذت کے ذائقہ میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔محدود روزہ کے بدلے میں لامحدود نعمتوں والا ابدی افطار ۔ کتنا قیمتی ہے یہ سودا! کاش کہ ہمیں اس کا احساس ہو۔ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ پس خوشیاں مناو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ التوبہ ۱۱۱)
جس طرح رمضان کے روزوں کے دوران یہ اہتمام ہوتا تھا کہ ہمارا روزہ کسی کوتاہی سے ضائع نہ ہویہاں تک کہ وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے نہ اترے۔کیا یہ اہتمام اس روزہ میں مطلوب نہیں ہے جس کا افطار اللہ کی نعمت بھری ابدی جنتوں کی صورت میں ہوگا۔رمضان میں ایک ایک دن کا یومیہ روزہ ہماری ساری زندگی کوایک طویل روزہ بنانے کے لیے فرض کیا گیا ہے تاکہ جب زندگی کا سورج غروب ہوتو ابدی جنت کا دستر خوان ہمارا افطار بن جائے جس کا میزبان خود اللہ تعالیٰ ہو۔ رمضان کے بعد ہماری زندگی اس شعور کے ساتھ گزرے کہ ہم حالتِ روز ہ سے باہر نہیں ہیں بلکہ حالتِ روزہ ہی میں ہیں۔ہم ایک طویل روزہ رکھے ہوئے ہیں جس کا افطار ناقابل تصور ابدی نعمتوں کی شکل میں ملے گا۔وہ ابدی دعوتِ افطار جو جنت کی شکل میں ہمارے لیے سجائی جائے گی اس کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ پیش کیا ہے تاکہ دنیا کی عارضی دلکشی ہمیں اس ابدی افطار کی نعمتوں سے غافل نہ کردے۔ شیطان کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ ہم ماہِ رمضان کے روزوں کے اثرات کوفی الفور کھو دیں اور زندگی بھر کے روزے کو اللہ کی نافرمانی سے باربار توڑ کر ابدی افطار کے استحقاق سے محروم ہوجائیں ۔قرآن تفصیل کے ساتھ ان مفسدات کو بیان کرتا ہے کہ جو اس طویل روزہ کو توڑ دینے والی ہیں۔ان میں وہ مفسدات ہیں جو عقائد اور سوچ سے تعلق رکھتے ہیں جیسے کفر و شرک، تکبر و نفاق اور حسد۔ ان میں وہ مفسدات بھی ہیں جو اعمال سے تعلق رکھتے ہیں جیسے زنا، قتل، دھوکہ دہی اور نا انصافی۔ مفسدات کے بالمقابل قرآن ان محاسن کو پیش کرتا ہے جو انسان کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔ایمان بالغیب، اللہ کا شکر، اللہ کی خشیت، اللہ پر توکل، اللہ سے محبت اور اللہ کے لیے صبر۔ قرآن عبادات اور اعمال ِ صالحات کی فہرست بھی پیش کرتا ہے ۔عبادات حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور اخلاقیات اور معاملات کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔
ہمارے سامنے غزہ کے وہ بچے اور مرد اور عورتیں ہیں جو جنت کی آرزو میں قیامتِ صغریٰ کو انگیز کررہے ہیں ۔ناقابل تصور ظلم کے مقابلے میں صبر کی چٹان بن کر ساری دنیا کے باضمیر افراد کو حیرت واستعجاب میں ڈال رکھا ہے، وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر یہ کیسا اسلامی عقیدہ ہے جو انسان کو اندر سے چٹان سے زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ اہلِ غزہ جنت کی مشروبات کے تصور میں پانی کو قلت کو گوارا کر رہےہیں ۔جنت کے پھلوں اور وہاں کے لذیذ کھانوں کی آرزو میں بھوک کی تکلیف پر صبر کر رہے ہیں۔جنت کے عالی شان محلات کی آرزو میں کھلے میدانوں میں اور خیموں میں رہنے پر راضی برضا ہیں ۔جنت کی ابدی اور پر تعیش زندگی کو چشم تصور میں لاکر اپنے زخموں اور کٹے ہوئے اعضاء پر ہر شکوہ سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ روزہ دار پیاس کی کتنی ہی شدت کو محسوس کر رہا ہو اور جھلسانے والی گرمی سے کتنا ہی نڈھال ہو لیکن وہ سمجھتا ہے کہ افطار کے انتظار کی گھڑیاں جلد ہی ختم ہونے والی ہیں ۔ اہل غزہ جانتے ہیں کہ وہ جنت کی نعمتوں سے بہت قریب ہیں۔ ان کے ماں باپ، بھائی بہن اور اقارب اللہ کے مہمان بن چکے ہیں اور ان کی باری کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس انتظار کی اس طرح منظر کشی کی ہے : مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ (سورۃ الاحزاب ۲۳)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم اس سوچ کو اختیار کرلیں کہ ہم حالت روزہ میں ہیں، جس کی مدت آغازِ شعور سے زندگی کے سورج کے غروب ہونے تک یعنی آخری سانس تک ہے۔ اس ہمہ وقتی روزہ کا وقت افطار ہے اللہ سے ملاقات اور اس کے دیدار کا وقت۔یہ ابدی افطار جنت کی لازوال نعمتوں کی صورت میں ملے گا جس کا تصور ہم نہیں کرسکتے ۔ہم اللہ کی معصیت سے بچ کر اس روزہ کو مفسد ہونے سے اسی طرح بچائیں جس طرح ہم نے رمضان میں اپنے روزوں کی حفاظت کی تھی ۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 ہمارے سامنے غزہ کے وہ بچے اور مرد اور عورتیں ہیں جو جنت کی آرزو میں قیامتِ صغریٰ کو انگیز کررہے ہیں ۔ناقابل تصور ظلم کے مقابلے میں صبر کی چٹان بن کر ساری دنیا کے باضمیر افراد کو حیرت واستعجاب میں ڈال رکھا ہے، وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر یہ کیسا اسلامی عقیدہ ہے جو انسان کو اندر سے چٹان سے زیادہ مضبوط بناتا ہے۔اہلِ غزہ جنت کی مشروبات کے تصور میں پانی کو قلت کو گوارا کر رہےہیں ۔جنت کے پھلوں اور وہاں کے لذیذ کھانوں کی آرزو میں بھوک کی تکلیف پر صبر کررہے ہیں۔جنت کے عالی شان محلات کی آرزو میں کھلے میدانوں میں اور خیموں میں رہنے پر راضی برضا ہیں ۔جنت کی ابدی اور پر تعیش زندگی کوچشم تصور میں لاکر اپنے زخموں اور کٹے ہوئے اعضاء پر ہر شکوہ سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ روزہ دار پیاس کی کتنی ہی شدت کو محسوس کررہا ہو اور جھلسانے والی گرمی سے کتنا ہی نڈھال ہو لیکن وہ سمجھتا ہے کہ افطار کے انتظارکی گھڑیاں جلد ہی ختم ہونے والی ہیں ۔ اہل غزہ جانتے ہیں کہ وہ جنت کی نعمتوں سے بہت قریب ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024