تحریک ِ آزادیٔ ہند میں مسلم خواتین کا کردار

بھارت کی آزادی اور تحریک خلافت کے لیے خواتین کی مثالی جدوجہد تاریخ کا ایک روشن باب

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

تاریخ نام ہے ماضی کے احوال و واقعات اور ان سے وابستہ شخصیات اور کرداروں کے تذکرے کا۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ واقعات کیسے رونما ہوئے اور مختلف شخصیتوں اور تنظیموں نے ان کے سلسلے میں کیا کردار نبھایا؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح معنیٰ میں تاریخ نویسی کی جائے، نہ کہ تاریخ کو گھڑا جائے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِدھر کچھ دنوں سے ہمارے ملک میں پوری بے باکی کے ساتھ تاریخ سازی کی جا رہی ہے۔ وہ واقعات جو ثابت شدہ ہیں انہیں بدلا جا رہا ہے، وہ شخصیتیں اور تنظیمیں جن کے کارنامے زبان زد خاص و عام ہیں انہیں محو کیا جا رہا ہے اور جن شخصیتوں اور تنظیموں کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں رہا ہے، انہیں نمایاں کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔یہ تو ایک عمومی صورت حال ہے، ورنہ خاص طور پر گزشتہ ڈیڑھ دو سو برسوں کی ملکی تاریخ اِن دنوں معرضِ خطر میں ہے۔
ہندوستان میں انگریز بہ حیثیت تاجر آئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر کے اپنی تجارت کو خوب فروغ دیا لیکن آہستہ آہستہ ان کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ طاقت ور ہوتے گئے۔ ایک طرف مغلیہ سلطنت کا سورج ڈھلنے لگا تو دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کے سایے لمبے ہوتے گئے۔ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں دہلی اور اودھ کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا تو انگریزوں کے خلاف پورے ملک میں بغاوت کی لہر دوڑ گئی۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے’غدر‘ کا نام دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ آزادی کی جنگ تھی جو ملک کے تمام طبقات نے مل جل کر غاصب انگریزوں کے خلاف لڑی تھی۔ اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے شریک تھے جن میں ہندؤوں اور مسلمانوں کا تناسب اور کردار نمایاں تھا، بلکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو آزادی کی اس جنگ میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم اور ان کی قربانیاں بے مثال تھیں۔ ایسا ہونا فطری تھا، اس لیے کہ مسلمان انگریزوں کے غلبہ و اقتدار کی وجہ سے حکم رانی سے محروم ہوئے تھے اس بنا پر ان کے اندر غصہ اور بے چینی زیادہ تھی اور انگریز بھی انہیں اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے اندر انتقام کی آگ بھڑکی تو انہوں نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا، ان کا قتلِ عام کیا، انہیں پھانسیاں دیں، ان کی املاک کو غصب کیا اور لوٹا اور انہیں اذیتیں دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کی اس روشن تاریخ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جن عظیم مسلم شخصیات نے قربانیاں دی تھیں اور اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تھا انہیں بھلایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ان کے تذکرے نصابی کتابوں سے بھی خارج کیے جا رہے ہیں۔اس کے مقابلے میں ان شخصیات کو ضرورت سے زیادہ ابھار کر پیش کیا جا رہا ہے جن کا جنگِ آزادی میں کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں تھا یاوہ انگریزوں کی جی حضوری کر رہے تھے۔اس سے آگے بڑھ کر الم ناک صورت حال یہ ہے کہ ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ صرف ایک مذہب اور تہذیب کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔مسلمانوں سے ان کے مذہب اور پرسنل لا پر عمل کا حق چھینا جا رہا ہے اور انہیں عملاً دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ استاد قمر جلالوی نے بہت پہلے اسی کا شکوہ کیا تھا ؎
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالمو! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دَور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنیں گے صدائیں مری، کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
ملک کی تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کے تمام طبقات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔سب سے اہم کردار علمائے کرام کا رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایسے نازک دور میں مسلم امت کی رہ نمائی کی بلکہ میدان عمل میں بھی پیش پیش رہے اور اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔ انگریزوں نے ملک کے اقتدار پر قابض ہوتے ہی بہت بڑے پیمانے پر علماء کی گرفتاریاں کیں اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا۔ مسلمان تاجروں اور اصحابِ ثروت نے اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیے اور مجاہدین آزادی کا بھرپور مالی تعاون کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے دنیاوی جاہ و منصب کو تج کر جدوجہد آزادی میں اپنی خدمات پیش کیں۔ مسلم خواتین نے ایک طرف میدان میں اُتر کر معرکہ آرائی کی تو دوسری طرف اپنے شوہروں،بھائیوں اور بیٹوں کو اخلاقی اور معنوی تعاون فراہم کیا جس کی بنا پر وہ پوری یکسوئی سے جدوجہد کرسکے۔ ضرورت ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب کہ مسلمانوں کے کردار اور خدمات کا انکار کیا جا رہا ہے اور انہیں حاشیہ پر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ان کی خدمات کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کیا جائے اور انہیں نمایاں کرکے پیش کرنے کی مختلف تدابیر اختیار کی جائیں۔
تحریک آزادی ہند میں مسلم خواتین کے کردار پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ مسلم مجاہدینِ آزادی کی خدمات پر جو کتابیں پائی جاتی ہیں ان میں عموماً مردوں کا تذکرہ ملتاہے۔ ضمناً کہیں کہیں بہت سرسری انداز میں کچھ مسلم خواتین کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے البتہ چند ایسے مضامین ضرور رسائل و مجلات کی زینت بنے ہیں جن میں مسلم خواتین کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔اس موقع پر خصوصیت سے ایک کتاب کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کا نام ہے’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘۔ اس کی مصنفہ ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ریڈر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہیں۔ اس کتاب میں ان سینتیس مسلم خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے 1857ء کی جنگ، تحریکِ عدم تعاون، تحریکِ خلافت اور بعد کی قومی جدّوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مختصر تعداد ہے۔ ہزاروں مسلم خواتین ہیں جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا ہے اور ان کی قربانیوں کا آج ہم پھل کھا رہے ہیں۔ آئندہ سطور میں چند نمایاں ترین مسلم خواتین کا مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔
ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو زمانی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:ایک 1857ء اور اس کے بعد کا دور جب ملک میں جگہ جگہ بغاوت ہو رہی تھی اور انگریزوں سے مسلح مقابلہ آرائی کا سلسلہ جاری تھا۔ اور دوسرا وہ دور جب پورے ملک پر انگریزوں کی پکڑ مضبوط ہو گئی تھی ۔ اس زمانے میں انگریزوں سے ملک کو نجات دلانے کے لیے مختلف تحریکیں سرگرم عمل تھیں۔ ان دونوں ادوار میں ہمیں مسلم خواتین دوسرے مجاہدینِ آزادی کے ساتھ جدوجہد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اسرار الحق مجاز نے ہندوستانی عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ؎
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے ، لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
مسلم خواتین نے وقتِ ضرورت آنچل کو پرچم ہی نہیں بنایا بلکہ انہوں نے بندوق اور تلوار اٹھائی، گھڑ سواری کی اور میدانِ کارزار میں دشمن سے دو بدو مقابلہ کرکے اپنی بے مثال شجاعت کے جوہر دکھائے۔
1857ء و مابعد کے زمانے میں جب جا بجا انگریزوں سے مجاہدینِ آزادی کی مسلح کشمکش برپا تھی بہت سی مسلم خواتین کے نام ملتے ہیں جنہوں نے بہ نفس نفیس جنگ میں حصہ لیا۔ انہوں نے باقاعدہ مردانہ لباس پہن کر شمشیر زنی کی، بہت سے دشمنوں کو قتل کیا اور قتل ہوئیں، بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا اور پھانسی دے دی گئی یا زندہ جلا دی گئیں۔ بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں خواتین نے مردوں سے بڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کیا۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جن کا سہاگ چھِن گیا، گودیں سونی ہو گئیں، گھر جلا دیے گئے، ساز و سامان لوٹ لیے گئے لیکن انہوں نے ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی اور راہِ عزیمت پر گامزن رہیں۔ کرنل ہُڈسن نے ایک موقع پر کہا تھا:
’’جس ملک کی عورتیں اتنی جاں باز اور وفادار ہوں وہاں انگریزوں کی حکومت محض چند دولت و جاگیر کے لالچی غدّاروں کی نمک حرامی پر ہی منحصر ہے‘‘ 1؎
دہلی میں جن دنوں بہت افراتفری تھی، وہاں کے ایک آسودہ حال گھرانے کی ایک خاتون، جس کا نام نازنین تھا مجاہدین کی فوج میں بھرتی ہو کر فصیل کے پہرے پر مقرر ہوئی۔ وہ بندوق کا نشانہ لگانے اور تلوار بازی میں ماہر تھی۔ فصیل کی حفاظت کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوئی ۔ 2؎
ایک نامعلوم خاتون کا تذکرہ ملتا ہے، جسے ’سبز پوش خاتون‘ کا نام دیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ ایک سبز رنگ کے برقع میں ملبوس، گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں کو جہاد کے لیے للکارتی تھی۔ اس کی للکار سن کر لوگ انگریزوں پر ٹوٹ پڑتے۔ وہ خود تلوار اور بندوق سے دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتی تھی۔ کبھی پیدل، کبھی گھوڑے پر آتی اور بہادری کے جوہر دکھا کر چلی جاتی۔ ایک دن گھوڑے سے گری اور قید کرلی گئی۔ اسے انبالہ جیل بھیج دیا گیا، پھر پتہ نہیں چلا کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ 3؎
تھانہ بھون کی اصغری بیگم (ولادت 1811ء)، جو باغی لیڈر قاضی عبد الرحیم کی والدہ تھیں، انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ انہیں گرفتار کیا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔ 4؎
مظفر نگر کی حبیبہ بیگم (ولادت 1833ء) جنگ کرتے ہوئے گرفتار ہوئیں تو انگریزوں نے انہیں اور ان کی بہن کو پھانسی دے دی ۔ 5؎
مظفر نگر کی دو سو پچپن خواتین کو گولیوں سے اُڑا دیا، گیارہ خواتین کو پھانسی دے دی گئی جن میں سے ایک رحیمی خاتون بھی تھیں ۔ 6؎
سہسرام کی حاجی بیگم (م1859ء) نے بھی انگریزوں سے جنگ کی۔ وہ گھڑ سواری کی ماہر تھی۔ اس نے دوسرے مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریزوں سے ٹکر لی۔ 7؎
انگریزوں سے مقابلہ آرائی میں ایک رقاصہ ’فرحت جہاں‘ کا نام ملتا ہے۔ اس کے جذبہ حب الوطنی نے جوش مارا تو اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، تلوار کو بوسہ دیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی صفوں میں داخل ہوگئی۔ بالاخر جنرل ہُڈسن کی گولی کا نشانہ بن گئی ۔ 8؎
ایک دوسری رقاصہ ’عزیزن‘ تھی۔ کانپور میں انگریزوں کے خلاف بغاوت بھڑکی تو اس نے اپنے پیروں سے گھنگھرو اتارے اور تلوار اٹھالی۔ اس نے عورتوں کی فوج تیار کی۔ یہ عورتیں مردانہ لباس پہن کر ہاتھ میں تلوار لیے مجاہدین کی مدد کو نکل پڑتیں۔ عزیزن ان سب سے آگے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتی۔ وہ شہر کی گلیوں اور چھاونیوں کے درمیان چکر کاٹتی رہتی۔ مجاہدین کو رسد پہنچاتی اور ان کے حوصلے بلند کرتی۔ بالآخر وہ گرفتار کر لی گئی۔ باغیوں کی فہرست تیار کی گئی تو عزیزن کا نام سرِ فہرست تھا۔ انگریز جنرل ہیولوک نے ہر ممکن کوشش کی کہ عزیزن اپنا قصور قبول کرلے تو اسے رہا کر دیا جائے گا لیکن اس کا جواب یہ تھا ’’میں معافی مانگنے کے بجائے مر جانا پسند کروں گی‘‘ مجبوراً اسے گولی مار دی گئی ۔ 9؎
1857ء کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین میں سب سے زیادہ شہرت لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل کو حاصل ہوئی۔ وہ بہترین قائدانہ صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور کافی عرصے تک برابر ان سے معرکہ آرائی کرتی رہیں۔ میرٹھ میں بغاوت کے بعد جب اس کے شعلے لکھنؤ پہنچے تو انہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ نواب واجد علی شاہ کو انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا لیکن بیگم حضرت محل لکھنؤ ہی میں رہیں۔ انہوں نے شمالی ہند میں مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد کو جمع کرلیا۔ان میں مولانا فضل حق خیرآبادی بھی تھے جو بہادر شاہ کی جلا وطنی کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت بیگم حضرت محل کی فوج سے آملے تھے۔ 10؎
انگریزوں نے جس آسانی سے دہلی پر قبضہ کرلیا تھا اس کے مقابلے میں لکھنؤ کی سرزمین نہایت سخت ثابت ہوئی۔ وہاں بیگم حضرت محل نے ان سے زبردست ٹکر لی۔ وہ مردانہ لباس پہن کر سر پر پگڑی باندھے، ہاتھ میں تلوار لیے گھوڑے پر سوار ہو کر خوں خوار شیرنی کی طرح گرجتی ہوئی انگریز سپاہیوں پر ٹوٹ پڑتیں اور صفوں کی صفیں درہم برہم کر دیتی تھیں۔ ان کی جاں بازی اور بہادری کا منظر دیکھ کر ڈبلیو ایچ رسل نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:
’’بیگم میں بڑی قابلیت اور ہمت دکھائی دیتی ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ لگاتار جنگ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہاں کی رانیوں اور بیگمات کی طاقت اور ہمت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ زنان خانے کے اندر رہ کر بھی یہ کافی عملی اور دفاعی طاقت اپنے اندر پیدا کرلیتی ہیں۔‘‘ 11؎
مارش مین نے اپنی تصنیف ’ہسٹری آف انڈیا‘ میں بیگم حضرت محل کے بارے میں لکھا ہے:
’’ لکھنؤ میں باغیوں نے جو مزاحمت کی وہ ایسی سخت تھی کہ کبھی انگریزی فوج کو سابقہ نہ پڑا تھا، یہاں تک کہ دہلی میں بھی اتنی سخت مزاحمت نہیں کی گئی۔ بیگم اودھ کی موجودگی نے باغیوں میں بلا کا جوش بھر دیا تھا۔ نہایت غیر معمولی، مستعد اور سرگرم خاتون تھی‘‘ 12؎
تاریخ کا یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ میجر ولیم اسٹیفن رائے کیس ہُڈسن(1821-1858) جو انگریزوں کے محکمہ جاسوسی کا سربراہ تھا اور جس نے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے تین شہزادوں کا قتل کیا تھا، اس کے لکھنؤ پہنچتے ہی بیگم حضرت محل نے اپنی جنگی حکمت عملی سے اس کو گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ 13؎
بیگم حضرت محل کی سربراہی اور قیادت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں سے سخت جنگ لڑی گئی۔ بعض مواقع پر انگریزوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن غدّاروں کی وجہ سے پسپائی ہوتی گئی۔ گومتی کے کنارے لڑائی میں پچھتر ہزار سپاہی مارے گئے۔ دوسرے موقع پر بیگم کی کوٹھی کے ارد گرد زبردست معرکہ ہوا۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے لیکن بیگم نے ہمت نہیں ہاری۔ جنرل اوٹرم نے متعدد مرتبہ صلح کی پیش کش کی، سالانہ وظیفہ کا وعدہ کیا، آخر جب اسے مخبروں سے معلوم ہوا کہ بیگم کہیں اور چلے جانے کا سوچ رہی ہیں تو اس نے پیغام بھجوایا کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بیگم نے ہر موقع پر صلح کی پیش کو ٹھکرایا اور شکست سے دوچار ہونے کے باوجود خود سپردگی نہیں کی۔ بالآخر اپنے بیٹے برجیس قدر کے ساتھ نیپال چلی گئیں جہاں چند برس گم نامی کی زندگی گزار کر 7 اپریل 1879ء میں ان کی وفات ہو گئی ۔ 14؎
جنگ عظیم اوّل( 1914-1919ء) کے بعد جب سامراجی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کر کے آپس میں تقسیم کرلیے، اس دور میں ہندوستان میں تحریک خلافت نے برطانوی سامراج سے زبردست مورچہ لینے کا عزم کیا۔ گاندھی جی، مولانا محمد علی، شوکت علی وغیرہ اس تحریک کے سرخیل تھے۔ تحریک خلافت قومی جنگ ِآزادی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ولایتی سامان کا بائیکاٹ، ترک موالات اور سامراجی استبداد کی مخالفت اس کے چند مظاہر تھے۔ اس دور میں قومی اتحاد اور یک جہتی کا بے مثال مظاہرہ ہوا اور تمام مذاہب کے ماننے والوں نے مل جل کر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ مسلم خواتین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں، بھائیوں، بیٹوں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ مل کر اور ان کے دوش بہ دوش تحریک آزادی کو تیز گام کیا۔ ان کی خدمات کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں ان کے مجاہد شوہروں کی صبح و شام جیلوں میں گزرتی تھیں وہ نہ صرف گھروں کا انتظام سنبھالتی اور بچوں کی پرورش کرتی تھیں بلکہ اپنے شوہروں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں اور دیگر اسیران زنداں کے خاندانوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ آزمائش کے سخت ترین ایام میں بھی ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہ آتا تھا۔ آئندہ سطور میں ان میں سے چند شہرت پانے والی خواتین کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
دوسرے دور کی تحریک آزادی میں سرگرم خدمات انجام دینے کے معاملے میں علی برادران ( محمد علی جوہر اور شوکت علی) کی والدہ آبادی بانو بیگم کی خدمات زرّیں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ وہ جذبہ حریت سے سرشار ایک جاں باز محبّ وطن اور عظیم مجاہدہ آزادی تھیں۔ اپنی بے مثال خدمات کی وجہ سے’ امّ الاحرار‘ کے لقب سے نوازی گئیں۔ عام لوگوں میں ’بی اماں‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مولانا محمد علی کی تاریخ ساز شخصیت بی اماں کی تربیت کا نتیجہ ہے جس کا اعتراف خود مولانا محمد علی نے کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’ میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ میرے پاس ہے، خداوند کریم نے مجھے اس مرحومہ کے ذریعے سے پہنچایا ہے۔‘‘ 15؎
بی اماں کی سیاسی زندگی کا آغاز جنگ عظیم اول کے زمانے سے ہوا جب ملک میں قانون تحفظ ہند کا نفاذ دوران جنگ کیا گیا اور بہت سے رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا جن میں مولانا محمد علی اور شوکت علی بھی تھے۔ اس زمانے میں انجمن نظر بندان اسلام کی تاسیس ہوئی اور ایک فنڈ قائم کرنا طے کیا گیا۔ بی اماں نے اس کے لیے چندہ دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین نے لکھا ہے:
’’علی برادران گرفتار کر لیے گئے۔ بی اماں خاصی نحیف ہو چکی تھیں لیکن بیٹوں کی گرفتاری نے ان میں ایک تازہ روح پھونک دی۔ انہوں نے تحریک خلافت میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ دور دراز کے سفر کرتیں، بڑے بڑے اجتماعات کو مخاطب کرتیں، دوران سفر اسٹیشنوں پر مشتاق زیارت ہجوم سے ملتیں اور انہیں مخاطب کرتیں۔ ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں نے تحریک خلافت کو ایک نئی زندگی عطا کی ۔‘‘16؎
بی اماں نے متعدد مواقع پر اپنے خطابات سے لوگوں کے دلوں کو گرمائے رکھا اور ان میں آزادی کا جذبہ موجزن رکھا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا:
’’ میں نے اپنا کفن تیار کرکے رکھ لیا ہے کہ عمر کا کیا ٹھکانہ۔ اگر سفر میں موت آجائے تو میرے مسلمان بھائی مجھے دو گز زمین میں دفن کر دیں گے۔‘‘ 17؎
تحریکِ خلافت کے ایام میں شفیق رام پوری نے ایک نظم ’صدائے خاتون‘ کے عنوان سے تحریر کی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس کی صدائے بازگشت ملک کے طول و عرض میں حریت پسندوں کے لیے تحریک کا باعث ہوئی :

بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو
دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا
کلمہ پڑھ پڑھ خلافت پہ مرنا
30؍ دسمبر 1921ء میں احمد آباد میں کل ہند زنانہ کانفرنس بی اماں کی صدارت میں میں منعقد ہوئی تھی جس میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی۔ ان میں متعدد نام ور غیر مسلم خواتین مثلاً کستوربا گاندھی، سروجنی نائیڈو، انوسیا بائی، چودھرائن سرلا دیوی کے علاوہ مسلم خواتین میں امجدی بیگم (اہلیہ مولانا محمد علی) شمس النساء بیگم، بیگم ڈاکٹر مختار احمد انصاری، نشاط النساء بیگم (اہلیہ مولانا حسرت موہانی) بیگم خورشید (اہلیہ خواجہ عبد المجید) اور بیگم سعادت بانو (اہلیہ سیف الدین کچلو) قابل ذکر ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک آزادی ہند میں غیر مسلم خواتین کے ساتھ مسلم خواتین بھی جوش و خروش سے حصہ لیتی رہی ہیں۔ 18؎
گاندھی جی نے تحریک ِ خلافت میں بی اماں کی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ینگ انڈیا میں لکھا تھا:
’’اگرچہ سن رسیدہ تھیں لیکن ان میں جوانوں جیسی طاقت تھی۔ انہوں نے خلافت اور سوراجیہ کے حصول کے لیے مسلسل سفر کیے۔ وہ اسلام کی کٹر پیرو تھیں اور ہندوستان کی آزادی ان کے نزدیک کھدّر اور ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ناممکن تھی۔ اس لیے انہوں نے اتحاد کے لیے زبردست کوششیں کیں جو ان کے نزدیک جزو ایمان تھیں ۔‘‘ 19؎
علی برادران کی گرفتاری کے زمانے میں محکمہ خفیہ پولیس کے ڈائرکٹر سر چارلس کلیولینڈ نے ان سے ایک عہد نامہ لینا چاہا۔ اس کے نمائندہ مسٹر عبد المجید ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محکمہ خفیہ پولیس نے ان سے ملاقات کی۔ اس کا علم جب بی اماں کو ہوا تو انہوں نے مسٹر عبد المجید کو مخاطب کر کے کہا تھا:
’’ میں یہ چاہتی ہوں کہ گورنمنٹ یہ جان لے کہ اگر اپنی تکالیف سے بچنے کے لیے وہ کسی ایسی بات کا اقرا کریں گے جو ان کے مذہبی احکام یا ملکی قواعد کے ذرا بھی خلاف ہو تو مجھے یقین ہے کہ اللہ پاک میرے قلب کو اتنی مضبوطی اور ان سوکھے جھرّیاں پڑے ہاتھوں میں اتنی طاقت دے گا کہ میں اسی وقت ان دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔‘‘ 20؎
مولانا محمد علی جوہر کی ماں کی طرح ان کی اہلیہ امجدی بیگم بھی تحریک خلافت میں بہت سرگرم رہیں۔ گاندھی جی کے اخبار ’ینگ انڈیا‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس کی ستیہ گرہ تحریک اور خلافت فنڈ کے لیے بی اماں اور امجدی بیگم نے اپنے دوروں سے کروڑوں روپے کا چندہ جمع کیا تھا۔
مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے:
’’امجدی بیگم ہر جلسہ، ہر سفر خلافت کانفرنس میں مولانا (محمد علی جوہر) کے ساتھ شریک رہتیں اور برابر جلسوں اور دوسری کارروائیوں میں حصہ لیتیں۔‘‘ 21؎
1919ء میں پولیس نے مولانا محمد علی کو والٹیر اسٹیشن پر گرفتار کر لیا۔ اس وقت امجدی بیگم ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوکر مولانا سے کہا:
’’ ہراساں نہ ہونا۔ میری اور بچوں کی فکر نہ کرنا۔ خدا پہلے بھی رازق تھا، اب بھی وہی رازق ہے۔ تم صرف ایک واسطہ تھے، خدا بلا واسطہ بھی دے سکتا ہے اور دوسرا واسطہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ رہا تمہارا کام سو اگر اجازت ہو تو میں اسے کرتی ہوں۔‘‘ 22؎
1930ء میں مولانا محمد علی موت و زیست میں مبتلا تھے، انہیں بہت سے امراض لاحق تھے۔ اسی حالت میں وہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوئے۔ امجدی بیگم ان کے ساتھ تھیں۔ وہیں مولانا کا انتقال ہوا اور تدفین بیت المقدس میں ہوئی ۔
تحریک آزادی کی جدوجہد میں سرگرم کردار ادا کرنے والی ایک اور خاتون مولانا حسرت موہانی کی اہلیہ نشاط النساء بیگم ہیں۔انہوں نے زندگی بھر اپنے شوہر کا ساتھ نبھایا، ان کے قید و بند کے ایام میں بے مثال صبرو ضبط کا مظاہرہ کیا اور عزیمت کا پہاڑ بنی رہیں۔ خود مولانا حسرت موہانی ان کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اگر بیگم حسرت، بیگم آزاد اور کملا نہرو نہ ہوتیں تو حسرت کسی اخبار کے ایڈیٹر ہوتا، مولانا ابو الکلام آزاد الہلال و البلاغ نکالتے رہتے اور جواہر لال زیادہ سے زیادہ ایک کام یاب بیرسٹر ہوتے۔ یہ عورتیں دفا پرست اور ایثار مجسّم تھیں۔ انہوں نے جان دے دی مگر ہم سے کبھی یہ نہ پوچھا کہ لیلائے سیاست کے پرستارو! تم جیل جا رہے ہو ۔ ہمارا کیا ہو گا؟‘‘ 23؎
1908ء میں مولانا حسرت موہانی گرفتار ہوئے تو بیگم حسرت نے دوسرے ہی دن انہیں یہ خط لکھا:
’’تم پر جو افتاد پڑی ہے اسے مردانہ وار برداشت کرو۔ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار! تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔‘‘ 24؎
1916ء میں مولاناحسرت کی دوسری گرفتاری ہوئی۔ انہوں نے نظر بندی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع سے بیگم حسرت نے انہیں خط لکھا:
’’تمہارے استقلال کی حد ہو گئی۔ میں تعریف کرتی ہوں۔‘‘ 25؎
بیگم حسرت کے اسی کردار سے متاثر ہوکر علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا تھا:
’’ شوہر کے قید و بند کے بعد جب ان کا کوئی مونس و غم خوار نہیں ہوتا تھا، ہر قسم کی مشکلوں کو بہادری و استقلال کے ساتھ برداشت کرنے میں شاید ہی کوئی مسلمان عورت ان کے مقابلے کی نکل سکے۔‘‘ 26؎
مولانا حسرت موہانی کی مصائب سے بھرپور زندگی میں جس طرح ادا کیا اس کے پیش نظر خواجہ حسن نظامی نے لکھا تھا:
’’ حسرت کی بیوی مسلمانانِ ہند کی عورتوں میں بڑی وفادار اور شوہر پرست عورت ہے۔ ایامِ بلا میں ایسی وفا شعاری اس عورت سے ظاہر ہوتی ہے جیسی سیتا جی نے رام چندر سے کی تھی ۔‘‘ 27؎
تحریک آزادی کی مجاہدات میں ایک نمایاں نام مولانا ابو الکلام آزاد کی اہلیہ زلیخا بیگم کا بھی ہے۔ انہوں نے مولانا کی پُرمشقت زندگی میں ان کا بھرپور ساتھ دیا، ایام اسیری میں ان کی ڈھارس باندھتی رہیں، ان کی توانائی کا ذریعہ بنی رہیں اور حق رفاقت ادا کیا۔ مولانا نے اس کا خود اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’زلیخا بیگم نے پوری کوشش کی کہ میری زندگی کے حالات کا ساتھ دے۔ اس نے صرف ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ پوری ہمت و استقامت سے ہر طرح کے نا خوش گوار حالات برداشت کیے۔ وہ دماغی حیثیت سے میرے افکار وعقائد میں شریک تھی اور عملی زندگی میں رفیق و مددگار۔‘‘ 28؎
تحریک خلافت کے سلسلے میں دسمبر 1921ء میں مولانا آزاد کو ایک سال قید با مشقت کی سزا دے کر کلکتہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس پر ان کی اہلیہ نے گاندھی جی کے نام ایک برقیے میں یہ پیغام بھیجا:
’’ میرے شوہر مولانا ابو الکلام آزاد کے مقدمے کا فیصلہ آج سنوایا گیا۔ انہیں صرف ایک سال کی قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ یہ نہایت تعجب انگیز طور پر اس سے بہ درجہا کم ہے جس کے سننے کے لیے ہم تیار تھے۔ اگر سزا و قید قومی خدمات کا معاوضہ ہے تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس معاملے میں بھی ان کے ساتھ سخت نا انصافی برتی گئی۔ یہ تو کم سے کم بھی نہیں ہے جس کے وہ مستحق تھے۔‘‘ ۲۹؎
سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مولانا آزاد کی مصروفیات بڑھتی گئیں۔ اسفار، دورے اور بار بار جیل جانے کی وجہ سے مولا نا کا قیام گھر پر نہیں رہتا تھا۔ زلیخا بیگم کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ ان کی طرف سے جیل میں جو خطوط مولانا کو ملتے تھے ان میں اپنی بیماری کے سوا سبھی باتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ جن دنوں مولانا احمد نگر جیل میں تھے انہیں اخبارات کے ذریعے اہلیہ کی شدید علالت کی خبر ملی۔حکومت بمبئی کی ایما پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے مولانا سے پیرول پر رہائی کی بات کی۔ دوستوں نے، خاص طور پر پنڈت نہرو نے لاکھ اصرار کیا کہ پیرول کی بات مان لیں لیکن مولانا کی خود داری کب اسے گوارا کر سکتی تھی۔ بالآخر زلیخا بیگم مولانا کے دیدار کی حسرت لیے 9؍ اپریل 1943ء کو دار فانی سے دار البقاء کی طرف سدھار گئیں۔
مجاہدین آزادی میں سیف الدین کچلو کا بھی شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم جرمنی سے حاصل کی تھی۔ عظیم محب وطن تھے۔ وکالت چھوڑ کر کانگریس اور خلافت تحریک کے لیے خود کو وقف کردیا تھا۔ کافی عرصہ قید و بند میں گزارا۔ان کی اہلیہ سعادت بانو (ولادت 1893ء) نے جو ادیبہ و شاعرہ تھیں، ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے شوہر سے کہا تھا:
’’ آپ کوئی فکر نہ کیجیے۔ بچوں کی پرورش اور کزرانِ حیات میں آپ مجھے ایک ثابت قدم اور سچی قوم پرست پائیں گے۔ اس وادی پُرخار میں میں جان تک دینے سے گریز نہ کروں گی۔‘‘ 30؎
خواجہ عبد المجید علی گڑھ کے مشہور بیرسٹر تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے ہیں۔ جنگ آزادی میں کے نام وَر مجاہد تھے۔ انہوں نے تحریک عدم تعاون میں گاندھی جی کا ساتھ دیا تھا۔ ان کی اہلیہ بیگم خورشید (ولادت 1896ء) نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس زمانے میں مجاہدین آزادی کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں، بیگم خورشید نے گاندھی جی کو لکھا کہ انہیں اپنے شوہر کے اب تک آزاد رہنے کا افسوس ہے، جب کہ میدان عمل میں ان کے ساتھی جیل پہنچ چکے ہیں۔ پھر جب ان کی گرفتاری ہو گئی تو انہوں نے گاندھی جی کو لکھا :
’’آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میرے شوہر کو حکومت نے گرفتار کر لیا ہے۔‘‘ 31؎
بعض مسلم خواتین کے بارے میں اس زمانے میں بھی ملتا ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت میں عملاً حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔
امرتسر میں جلیاں والا باغ قتلِ عام کا واقعہ بہت مشہور ہے جب ایک جلسہ عام میں شریک لوگوں پر انگریز فوجیوں نے مشین گنوں سے
اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں۔ اس موقع پر شہید ہونے والوں میں ایک مسلم خاتون’ بی بی عمر بیہی کا بھی نام ملتا ہے۔ 32؎
مدنا پور (مغربی بنگال) کی رعنا بانو ( ولادت 1888ء) نے ہندوستان چھوڑو تحریک (1942ء) میں حصہ لیا۔ نندی گرام پولیس اسٹیشن پر حملہ کے دوران پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہوئیں اور شہادت پائی ۔ ۳۳؎
حواشی و مراجع:
1۔ پرویز اشرفی ، ذرا یاد کرو قربانی، اپلائیڈ بُکس نئی دہلی، 2017ء ،ص ۔2۔حوالہ سابق، ، ص 137-138 ۔3۔ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین،ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ادارۂ تحقیقات ِاردو پٹنہ،1990ء، ص46-47۔4۔ڈاکٹر ایم، اے، ابراہیمی، جنگ آزادی کے مسلم شہداء ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ،2017ء ، طبع سوم،ص 32۔5۔پرویز اشرفی، ص 136-137 عابدہ سمیع الدین،ص52۔6۔عابدہ سمیع الدین ، ص52۔7۔ پرویز اشرفی ، ص 141-143۔ 8۔حوالہ سابق ،ص 156-157۔9۔پرویز اشرفی،ص 15-155،عابدہ سمیع الدین ، ص48-51۔10۔سید عبید الرحمٰن ،مسلم مجاہدین ِ آزادی اور تحریک آزادی میں ان کی خدمات ، گلوبل میڈیا پبلی کیشنز، جامعہ نگر ، نئی دہلی ، 2017ء، ص 175-176۔11۔ فضل حق خیرابادی ،خواتین ہند کے تاریخی کارنامے ، ص 106۔12۔پرویز اشرفی ، ص 149۔13۔حوالہ سابق ، ص 146-147۔14۔عابدہ سمیع الدین ، ص۔15۔ نقوش آپ بیتی،اوّل،جون 1964ء۔16۔ڈاکٹرعابدہ سمیع الدین،ص99-100۔17۔پرویز اشرفی ،ص۔18۔ عابدہ سمیع الدین ، ص۔19۔حوالہ سابق،ص 103-104۔20۔حوالہ سابق، ص65۔21۔محمد علی کی ذاتی ڈائری کے چند اوراق،ص۔22۔ہمدرد ، یکم دسمبر 1926ء۔23۔علیم اختر مظفر نگری، مقالہ: مولانا حسرت موہانی ، شبستان اردو ڈائجسٹ ، مارچ 1968ء ،ص 127۔24۔عبد القوی دسنوی، حسرت کی سیاسی زندگی، ص 16-17۔25۔اسلم ہندی ،رازدانِ حیات ،سوانح حسرت موہانی ،ص 126-127۔26۔نگار لکھنؤ، حسرت نمبر ،ص 118۔27۔درویش جنتری ،1923ء بہ حوالہ کتابی دنیا کراچی ، جنوری فروری ،1967ء ص 14۔28۔ابو الکلام آزاد، غبار خاطر،لاہور ، طبع سوم،ص284۔29۔ابو الکلام آزاد، قول فیصل، چمن بک ڈپو دہلی،ص 146۔30۔ عابدہ سمیع الدین، ص 156۔31۔ عابدہ سمیع الدین، ص161۔32۔ ایم، اے ابراہیمی ، ص 46۔33۔حوالہ سابق ،ص 66
(مضمون نگار ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے نائب صدر اور سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں)
***

 

***

 1857ء و مابعد کے زمانے میں جب جا بجا انگریزوں سے مجاہدینِ آزادی کی مسلح کشمکش برپا تھی بہت سی مسلم خواتین کے نام ملتے ہیں جنہوں نے بہ نفس نفیس جنگ میں حصہ لیا۔ انہوں نے باقاعدہ مردانہ لباس پہن کر شمشیر زنی کی، بہت سے دشمنوں کو قتل کیا اور قتل ہوئیں، بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا اور پھانسی دے دی گئی یا زندہ جلا دی گئیں۔ بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں خواتین نے مردوں سے بڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کیا۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جن کا سہاگ چھِن گیا، گودیں سونی ہو گئیں، گھر جلا دیے گئے، ساز و سامان لوٹ لیے گئے لیکن انہوں نے ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی اور راہِ عزیمت پر گامزن رہیں۔ کرنل ہُڈسن نے ایک موقع پر کہا تھا:’’جس ملک کی عورتیں اتنی جاں باز اور وفادار ہوں وہاں انگریزوں کی حکومت محض چند دولت و جاگیر کے لالچی غدّاروں کی نمک حرامی پر ہی منحصر ہے‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022