75 واں جشن :اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

کیا گھر گھر پرچم لہرانے سے غریب اور امیر کے درمیان خلیج مٹ جائے گی ؟

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

ہر شہری کو گھر مہیا کرنے کا وزیراعظم کا وعدہ ہنوز پورا نہیں ہوسکا
مسائل سے دوچار عوام کو ترغیبات کے ذریعہ بہلانے کی کوشش
حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے۔ انسان جس ملک میں رہتا ہے وہاں کے باشندوں سے محبت کرتا ہے۔ اس جذبے کو پیدا کرنے کے لیے کسی مہم کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن جو لوگ اپنے ہی عوام کے دشمن ہیں ان کو جعلی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ایسی مہمات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس طرح کی علامتی سرگرمیوں سے ان کی ملک دشمنی پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اس ملک کے لوگ آزادی کی جدو جہد کے دوران ہی ترنگا لہرانے لگے تھے۔ تحریک آزادی ہند کی ایک سرگرم کارکن ارونا آصف علی نے 1942 میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران گووالیا ٹینک میدان، ممبئی میں ترنگا لہرایا اور آزدی کے بعد انہیں دلی کی پہلی میئر بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ اس تحریک سے الگ تھلگ سنگھ پریوار چونکہ انگریزوں کا حلیف بنا ہوا تھا اور ساورکر انگریزی سرکار سے وفاداری کا عہد کرکے رہا ہوئے تھے اس لیے ان دونوں نے مجبوراً گیروا پرچم تھام رکھا تھا۔ آزادی کے بعد بھی سنگھ کا اعتراض یہ تھا کہ تین ایک منحوس عدد ہے اس لیے پرچم میں تین رنگ مناسب نہیں ہے۔ یہ زبانی اعتراض نہیں تھا بلکہ 2002تک ناگپور میں واقع سنگھ کے دفتر پر قومی پرچم نہیں لہرایا گیا۔
اٹل جی کے دور میں یہ عمل شروع تو ہوا مگر خلش ہنوز موجود ہے۔ اب بھی وزیراعظم مودی سمیت اکثر بی جے پی نیتاوں نے اپنے ڈی پی کو ترنگے سے بدل دیا ہے مگر سنگھ کے رہنما اس سے گریز کررہے ہیں۔ ویسے مودی حکومت اگریہ اعلان کردے کہ ہر گھر میں بھگوا پرچم لہرایا جائے تو سب سے پہلے سنگھ والے اس پر عمل کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ عوام ان کا ساتھ نہیں دیں گے اس لیے وہ مہم ناکام ہوجائے گی ۔ ایک زمانے میں یہ سرکار آزادی کا لفظ سنتے ہی چڑ جاتی تھی ۔ کنہیا کمار اور عمر خالد وغیرہ کو آزادی کا نعرہ لگانے کے سبب نہ صرف گرفتار بلکہ عدالت کے اندر زدوکوب بھی کیا گیا ۔ اب یہ لوگ خود زور و شور سے آزادی کاا مرت مہوتسو( 75؍واں جشن ) منار ہے ہیں ۔ یہ علامتی حب الوطنی کورونا کو بھگانے کی خاطر تالی بجانے اور تھالی پیٹنے جیسی ہی ہے۔ اس موقع پر جوش میں آکر مودی بھگتوں نے نہ صرف تالی اور تھالی پیٹی بلکہ گربا ناچ بھی کیا۔ اس کے نتیجے میں کورونا کا اثر کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ۔ گھر گھر ترنگا کے بعد حب الوطنی میں اضافہ تو نہیں ہوگا ہاں پرچم بنانے والی چینی کمپنیوں اور درآمد کرکے بیچنے والے ہندی تاجروں کی تجوریاں ضرور بھر جائیں گی ۔
آج سے 8 سال قبل مودی جی نے گھر گھر ترنگا لہروانے کے لیے اقتدار نہیں سنبھالا تھا بلکہ وہ جو ’اچھے دن‘ کا نعرہ لگوا رہے تھے اس میں ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار‘ سب سے اہم تھا۔ اس کے علاوہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں اور کسانوں کی کمائی میں دوگنا اضافہ ، خواتین کا تحفظ وغیرہ نہ جانے کتنے وعدے تھے لیکن وہ سب انتخابی جملہ ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کو قومی جھنڈے سے بہلایا جارہا ہے اور جو لوگ بنیادی مسائل پر سوال کرتے ہیں ان کو ای ڈی کے ڈنڈے سے دھمکایا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے جب دو ماہ قبل اپنے آٹھ سال مکمل کیے تو مختلف محاذ پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔ مہنگائی کی بات کریں تو پچھلے 8سالوں میں پٹرول کی قیمت 30 روپیے بڑھی اور ڈیزل 40روپیہ مہنگا ہوا۔ کھانا پکانے والا سیلنڈرجو 414روپے میں ملتا تھا وہ اب ایک ہزار روپے تک پہنچ گیا۔ آٹے کی قیمت 48فیصد اور چاول کی قیمت میں31 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ نمک کی قیمت بھی 35 فیصد بڑھ گئی۔ اس طرح گویا مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی۔ سوال یہ ہے کہ ہر گھر میں ترنگا لہرانے سے کیا اس گھر کے باورچی خانے کی حالت سدھرے گی اور عام آدمی اپنی خواب گاہ میں چین کی نیند سوسکے گا؟
کانگریس نے مہنگائی کے خلاف مظاہرہ کیا تو بی جے پی والوں نے اس کے وجود سے انکار کردیا حالانکہ ریزرو بینک کے گورنر بھی سود کی شرح بڑھا کر اس کا اعتراف کرچکے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کانگریس کے احتجاج کو رام مندر کے شیلا نیاس سے جوڑ کرفرقہ واریت کا رنگ دینے کی مذموم کوشش کی۔ سچ تو یہ کہ رام مندر کا شیلا نیاس مہنگائی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ایودھیا میں فی الحال رام مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے اور شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے تجاوزات ہٹانے کی تیاری چل رہی ہے۔ اس درمیان ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے غیر قانونی کالونائزر کی فہرست جاری کرکے بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا کیونکہ اس فہرست میں میونسپل کارپوریشن ایودھیا کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے میئر رشی کیش اپادھیائے، رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا اور سابق بی جے پی رکن اسمبلی گورکھ ناتھ بابا سمیت کئی رام بھگتوں کے نام نظر آئے۔ ان کے علاوہ کئی ایسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ برسراقتدار طبقہ سے بہت قریب ہیں۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ رام مندر کے مسئلہ سے سیاسی فائدہ اٹھاکر اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اب اس سے معاشی فائدہ بھی اٹھایا جارہا ہے۔ شاہ جی کو بتانا چاہیے کہ کیا یہ بھی آزادی کی 75؍ویں سالگرہ کے جشن کا حصہ ہے؟ اور کیا اسی کے لیے آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی ؟
وزیراعظم نے آٹھ سال قبل اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کی ماہانہ آمدنی کو 6462 سے بڑھ کر دوگنا یعنی 12852 کردیا جائے گا مگر وہ محض 10248 ہوسکی جبکہ مہنگائی کے سبب کاشت کار کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ اس کو کھاد سے لے کرضرورت کا ہر سامان مہنگا خریدنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قیمت تقریباً تیس فیصد گھٹ گئی۔ اس لیے کم قیمت والے روپیہ میں حساب کیا جائے تو برآمد بڑھ گئی لیکن اب بھی برآمد کے مقابلے درآمد کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ اسٹارٹ اپ کے نام سے شروع کی جانے والی بیشترکمپنیاں بند ہوگئی ہیں اور بیرون ملک سے آنے والے کئی سرمایہ دار واپس لوٹ چکے ہیں۔ بیرونی قرض 409 ؍ارب ڈالر سے بڑھ کر 615 ؍ ڈالر پر پہنچ گیا ہے ۔ جی ڈی پی بھی روپیہ میں ناپی جائے تو اس میں خاصا اضافہ نظر آتا ہے لیکن ڈالر میں اس کی قیمت کم ہوجائے گی۔ ہندوستان میں آج بھی 80 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے ہیں جنہیں حکومت نے کورونا کے دوران اناج دیا۔ دنیا کے سب سے زیادہ غریب آبادی فی الحال وطن عزیز میں ہے۔ عام آدمی کی اوسط آمدنی آج بھی 12ہزار ہے جبکہ اڈانی اور امبانی کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا ہے۔ کیا گھر گھر پرچم لہرانے سے غریبوں اور امیروں کے درمیان کی یہ کھائی مٹ جائے گی ؟
مودی جی نے دوکروڑ سالانہ نئی نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا مگر ان 8؍ سالوں میں روزگار 43کروڑ سے گھٹ 40کروڑ پر آگیا ۔ اس شعبے میں مایوسی کا یہ عالم ہے کہ ملک میں جملہ 90؍کروڑ لوگ قابلِ ملازمت ہیں لیکن ان میں 45؍ کروڑ لوگوں نے نوکری کی تلاش چھوڑ دی ہے۔ 2019 میں کیے جانے والے جائزے کے مطابق بیروزگاری کی شرح 6.1فیصد تھی جو پچھلے 45؍ سالوں میں سب سے زیادہ تھی ۔ اس کا اگر 2014 سے موازنہ کیا جائے تو وہ 3.4 فیصد سے بڑھ کر وہاں پہنچی تھی اور اب یہ شرح 8.7پر پہنچ چکی ہے۔ کیا اسے اگنی ویروں کی بھرتی سے کم کیا جاسکے گا جو چار سال بعد پھر سے بیروزگار ہوجائیں گے۔ بیرورگاری سے نمٹنے کے لیے مودی حکومت کا خطرناک منصوبہ یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھاجائے ۔ ان آٹھ سالوں میں تعلیم کا بجٹ صرف20؍ ہزار کروڑ بڑھا جو بہت کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 9؍ ہزار اسکول کم ہوگئے ۔ مودی حکومت سے پہلے ملک میں پندر لاکھ اٹھارہ ہزار اسکول تھے اب پندرہ لاکھ نو ہزار ہیں ۔ بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کا نعرہ کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5 کا جائزہ کافی ہے۔ اس کے مطابق اب بھی ملک کی تقریباً 30؍ فیصد خواتین اور 15؍ فیصد مرد ناخواندہ ہیں۔ 60 فیصد لڑکیاں دسویں سے آگے نہیں بڑھ پارہی ہیں۔ 50 فیصد مرد دسویں کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھتے ۔ ان مسائل پر توجہ دینے کے بجائے محض گھر گھر ترنگا لہرانے سے کیا حاصل ہوگا ؟
15؍ اگست 1947 کو ہندوستا ن انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوم آزادی کی 75 ویں سالگرہ پچھلے سال تھی لیکن حکومت نے ایک دن کے بجائے پورا سال آزادی کا جشن یعنی ’آزادی کا امرت مہوتسو‘منانے کا اعلان کردیا۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے اس جشن کی قیادت لوگ کررہے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد سے گریز کیا اورآزادی کے بعد برسوں تک قومی پرچم لہرانے کے روادار نہیں تھے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی چونکہ جشن و تقریب(event management) کے شوقین ہیں اس لیے ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال لال قلعہ کی فصیل سے ترنگا لہرا نے اور قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ پہلی بارجشن ِ آزادی کے دوران ہندوستانی فضائیہ کے دو ایم آئی-17 1 وی ہیلی کاپٹر نےتقریب گاہ کے اوپر پھول برسائے۔ اس سے قبل کورونا سے مقابلہ کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے ساتھ بھی یہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ان لوگوں کو سڑک پر اتر کر ہڑتال کرنا پڑا کیونکہ انہیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔ اس مظاہرے کی ضرورت دارالحکومت دلی کے ڈاکٹروں کو بھی پیش آئی ۔ اس سے ان دکھاوے کے کاموں کی حقیقت کا پول کھل جاتا ہے۔
بی جے پی نے سنگھ پریوار کے دامن سے آزادی کی جدوجہد میں شامل نہ ہونے کا داغ دھونے کی خاطر75 ہفتہ پہلے سے جشن آزادی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے افتتاح کی خاطر وزیراعظم نریندر مودی کو دہلی کا راج گھاٹ یاد نہیں آیا کیونکہ اس سے ہندوستان کے اولین سب سے بڑے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کی تاریخ وابستہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے جشن کا افتتاح کرنےکے لیے مارچ 2021 کوگجرات میں واقع احمد آباد کے سابرمتی آشرم کا انتخاب کیا اور یہ بتایا کہ یہ تقریب 15 اگست، 2023 تک جاری رہے گی۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے آغاز میں کی جانے والی وزیراعظم کی تقریر ان کے اندر موجود مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ اسی تنگ نظری پر قابو پانے کے لیے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے مودی جی کو راج دھرم کا پالن کرنے کی تلقین کی تھی لیکن اس تقریر کو سننے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ مشورہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔
وزیراعظم نے آزادی کی جدوجہد کے اہم لمحات جیسے 1857میں ہندوستان کی آزادی کے لیے پہلی جنگ کا ذکر تو کیا مگر یہ بتانا بھول گئے کہ یہ جنگ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی اور ان کے خاندان نے اس میں عظیم قربانیاں دی تھیں۔ گاندھی جی کی بیرون ملک سے واپسی کا ذکر تو کیا لیکن مولانا محمد علی جوہر کے عظیم کارنامہ کو نظر انداز کردیا۔ لوک مانیہ تلک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس تو انہیں یاد آئے مگر مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کا خیال نہیں آیا۔ بھکتی تحریک کو زبردستی آزادی کی تحریک قرار دینے والے مودی جی کو خلافت تحریک کی یاد نہیں آئی۔ تمل ناڈو کے ویلو ناچیارکے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف جنگ لڑنے والی پہلی مہارانی تھیں لیکن کرناٹک میں انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان کے کارنامہ کو وہ گول کرگئے۔ وزیراعظم نے جھارکھنڈ میں ، برسا منڈا اور مرمو بھائی کی سنتھال تحریک کی پذیرائی کی مگر ریشمی رومال تحریک چلانے والے سیکڑوں مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت نہیں پیش کرسکے۔ اس طرح انہوں یکطرفہ حقائق کو پیش کیا۔ اس کے باوجود آر ایس ایس یا ہندو مہا سبھا کے ایک بھی فرد کا نام اپنی زبان پر نہیں لاسکے کیونکہ ان لوگوں نے تو انگریزوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعاون کیا تھا۔
وزیراعظم مودی نے پچھلے سال لال قلعہ کی فصیل سے خطاب میں تقسیم کے درد سے ہندوستان کا سینہ چھلنی ہونے کا ذکر تو کیا مگر ذکیہ جعفری کا وہ درد نہیں محسوس کرسکے جس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ احسان جعفری اور ان کے گھر میں بند بے قصور لوگوں کی موت کے لیے مودی انتظامیہ براہِ راست ذمہ دار ہے۔ پہلے تو وہ اسے روک نہیں سکے اور پھر اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں سزا بھی نہیں دلاسکے بلکہ بری کروا دیا۔ آزادی کے اس جشن کی آڑ میں انہوں نےخود تو کلین چٹ حاصل کرلی اور مظلومین کو انصاف دلانے کی خاطر جدوجہد کرنے والی تیستا سیتلواد سمیت حق کی آواز بلند کرنے والے سری کمار اور سنجیو بھٹ جیسے حریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ آزادی کی حفاظت کرنے والے سماجی جہدو کاروں کو انعام و اکرام سے نوازنے کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا۔ محمد زبیر جیسے بے باک صحافی کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی خاطر ان کو گرفتار کرکے ہراساں کیا گیا۔ یوگی انتظامیہ نے ان پر کئی مقدمات دائر کیے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو ان کی حمایت میں آنا پڑا ورنہ اس بیچارے کی آزادی جیل کی سلاخوں کے پیچھے محصور رہتی۔ پریاگ راج میں محمد جاوید کے مکان پر بلڈوزر چلانے کے بعد این ایس اے لگا کران کی آزادی کو بھی روند دیا گیا۔
اس جشن کے اختتام پر یہ جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اس دوران عوام کی آزادی کو سلب کرنے کی خاطر حکومت اور کون کون سے اقدامات کیے؟
ایک طرف تو یہ صورتحال ہے اور دوسری جانب یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو کی تقریبات کے تحت مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایت کے مطابق جیل میں سزا کا 50 فیصد وقت مکمل کرنے والے پچاس سال اور اس سے زیادہ عمر کی خاتون اور تیسرے صنف کےا فراد ، کل سزا کا پچاس فیصد وقت قید میں مکمل کرنےو الے ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے مرد قیدی، 70فیصد یا اس سے زیادہ کے معذورا فراد جنہوں نے سزا کا پچاس فیصد وقت مکمل کر لیا ہے انہیں رہا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، وہ مریض جن کی میڈیکل بورڈ لاعلاج مرض میں مبتلا ہونے کی تصدیق کردے اور وہ سزا کے دوتہائی یعنی 66فیصد سزا مکمل کرچکے ہوں تو انہیں بھی رہائی مل جائے گی۔ جرمانہ کی رقم نہیں ادا کر پانے واے غریب یا بے سہارامحصورین کو بھی 15اگست تک رہا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ ضمیمہ لگایا گیا کہ بعض سنگین مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں جیسے کہ سزائے موت، عمر قید اور دیگر مقدمات پر یہ چھوٹ لاگو نہیں ہوگی۔ یہ شرط اس لیے لگائی گئی تاکہ صدیق کپن اور معذور پروفیسر سائی بابا جیسے لوگوں کو اس سہولت سے محروم رکھا جاسکے۔ جہاں قانون کے نفاذ میں اس طرح کا تفریق و امتیاز کیا جاتا ہو وہاں آزادی کی روح مجروح ہوجاتی ہے۔
وزیراعظم ہر ماہ آل انڈیا ریڈیو پر اپنے من کی بات لوگوں کو سناتے ہیں ۔ اس بار انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا قومی پرچم پورے ملک کے لیے قومی فخر کی ایک علامت ہے۔ وزیراعظم کو یہ ’’انکشاف‘‘ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں اس لیے کہ ملک کا ہر شہری اس سے واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قومی پرچم کو اعزاز بخشنے کے لیے ملک بھر میں ’ہر گھر ترنگا‘ پروگرام کاانعقاد کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس سے پہلے قومی پرچم اعزاز سے محروم تھا حالانکہ یہ خلافِ حقیقت بات ہے۔ اس لیے امرت مہوتسو کے تحت ثقافت کی وزارت کو ذمہ دار بناکر یہ پہل کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہندوستانی شہریوں کو اپنے گھروں پر قومی پرچم لہرانے کی ترغیب دینا ایک بے معنیٰ بات ہے۔ وزیراعظم کے مطابق ملک کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر اپنے گھر ترنگا لگانے سے نہ صرف اس کے ساتھ ایک ذاتی رشتہ قائم ہوتا ہے بلکہ یہ ملک کی تعمیر کی خاطر ہمارے عہد کا بھی ثبوت ہے۔ اس طرح کے ظاہری رشتے اور ثبوتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ہر بدعنوان اورملک دشمن شخص پچیس روپیہ کا پرچم اپنے گھر پر لگا کر خود بہت بڑا دیش بھگت ثابت کرسکتا ہے۔ ویسے فسادکروانے والوں ہاتھوں میں ترنگا کچھ عجیب سالگتا ہے۔ ہرہر مہادیو کا نعرہ لگانے والے جب ہر گھر میں ترنگا کی بات کرتے ہیں تو عوام کو حیرت ہوتی ہے۔ وندے ماترم گانے والوں کی زبان پر سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا سن کر کسی سازش کا گمان ہوتا ہے ۔
عوام بنیادی مسائل کی پردہ پوشی کرکے ان کو فروعی دلچسپیوں سے بہلانے کی یہ ایک سازش معلوم ہوتی ہے، یعنی جن لوگوں روٹی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا انہیں لالی پاپ پکڑایا جارہا ہے۔ اس لیے گھر گھر ترنگا کے تناظر میں آج کل ایک کارٹون سوشیل میڈیا میں خوب گردش کررہا ہے جس میں ایک غریب شخص کے بارے یہ بتایا جارہاہے کہ وہ گھر گھر ترنگا مہم میں شرکت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس قومی پرچم بھی ہے لیکن گھر درکار ہے۔ یہ کارٹون اس لیے بھی اہم ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پندرہ اگست 2022تک سارے لوگوں کو گھر مہیا کردیں گے۔ ان کے خیال میں ممکن ہے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوچکا اس لیے وہ ہر کسی اپنے گھر پر ترنگا لگانے کی تلقین کررہے ہیں لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے۔ ملک میں اب بھی کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں ہے۔ جن گھروں کو سرکار نے بلڈوزر چلا کر گرا دیا ۔ اب وہ بیچارے کہاں ترنگا لہرائیں ؟ کیا بلڈوزر پر ترنگا لہرا کر اپنے ارمان پورے کریں ؟ وزیراعظم نے گھر گھر ترنگا پہل کا مقصد سبھی ہندوستانیوں کے دلوں میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینا اور اپنے قومی پرچم کے تئیں بیداری پیدا کرنا بتایا حالانکہ اس طرح کی علامتی کاموں سے حب الوطنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے عدل و مساوات قائم کرنا پڑتا ہے اور اس کی شروعات خود وزیراعظم کی جانب سے ہونی چاہیے ورنہ ہر گھر پر پرچم لہرائے گا لیکن ملک میں آزادی کا دائرہ محدود سے محدود تر ہوتا چلا جائے گا ۔ اس لیے کہ بقول علامہ سیماب اکبر آبادی ؎
فقط احساسِ آزادی سے آزادی عبارت ہے
وہی دیوار گھر کی ہے وہی دیوارزنداں کی
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 وزیراعظم نے آزادی کی جدوجہد کے اہم لمحات جیسے 1857میں ہندوستان کی آزادی کے لیے پہلی جنگ کا ذکر تو کیا مگر یہ بتانا بھول گئے کہ یہ جنگ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی اور ان کے خاندان نے اس میں عظیم قربانیاں دی تھیں۔ گاندھی جی کی بیرون ملک سے واپسی کا ذکر تو کیا لیکن مولانا محمد علی جوہر کے عظیم کارنامہ کو نظر انداز کردیا۔ لوک مانیہ تلک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس تو انہیں یاد آئے مگر مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کا خیال نہیں آیا۔ بھکتی تحریک کو زبردستی آزادی کی تحریک قرار دینے والے مودی جی کو خلافت تحریک کی یاد نہیں آئی۔ تمل ناڈو کے ویلو ناچیارکے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف جنگ لڑنے والی پہلی مہارانی تھیں لیکن کرناٹک میں انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان کے کارنامہ کو وہ گول کرگئے۔ وزیراعظم نے جھارکھنڈ میں ، برسا منڈا اور مرمو بھائی کی سنتھال تحریک کی پذیرائی کی مگر ریشمی رومال تحریک چلانے والے سیکڑوں مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت نہیں پیش کرسکے۔ اس طرح انہوں یکطرفہ حقائق کو پیش کیا۔ اس کے باوجود آر ایس ایس یا ہندو مہا سبھا کے ایک بھی فرد کا نام اپنی زبان پر نہیں لاسکے کیونکہ ان لوگوں نے تو انگریزوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعاون کیا تھا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022