سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کی قانونی حیثیت کو 4:1 کی اکثریت سے برقرار رکھا

نئی دہلی، جنوری 2: 2016 کی نوٹ بندی کی مشق کو تناسب کی بنیاد پر یا فیصلہ کرنے کے بعد عمل کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات سپریم کورٹ نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی لگانے کے حکومت کے اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ پر پیر کو 4:1 کے فیصلے میں کہی۔

پانچ ججوں کی آئینی بنچ کا یہ اکثریتی فیصلہ جسٹس بی آر گوائی نے سنایا۔ جسٹس بی وی ناگارتھنا نے، جنھوں نے الگ فیصلہ لکھا، نوٹ بندی کی مشق کو غیر قانونی قرار دیا۔ تاہم ناگرتھنا کا کہنا تھا کہ اب اسے ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

جسٹس ایس عبدالنذیر، گوائی، اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور ناگارتھنا کی آئینی بنچ نے حکومت کے 2016 کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58 درخواستوں کی سماعت کی۔

8 نومبر 2016 کی رات 8 بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ آدھی رات سے ہندوستان میں 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ مودی نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بدعنوانی، کالے دھن اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے لیا گیا ہے۔

اپنے فیصلے میں گاوائی نے کہا کہ نوٹ بندی کا اس اقدام کے مقاصد کے ساتھ ایک ’’معقول گٹھ جوڑ‘‘ تھا جیسے بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ، جعلی نوٹوں کو ختم کرنا اور دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ متعلقہ بات نہیں ہے کہ مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔‘‘

گاوائی نے کہا کہ ڈیمونیٹائزڈ کرنسی کے تبادلے کے لیے مقرر کردہ 52 دن کی مدت کو غیر معقول نہیں کہا جا سکتا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فیصلہ سازی کے عمل کو صرف اس لیے غلط نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تجویز مرکزی حکومت کی طرف سے آئی تھی، نہ کہ ریزرو بینک آف انڈیا کی طرف سے۔ اس نے کہا کہ اقتصادی پالیسی کے معاملات میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

وہیں اپنے اختلافی فیصلے میں ناگارتھنا نے دلیل دی کہ گوائی کا حکم اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھتا ہے کہ کسی بھی قانونی ٹینڈر کو ختم کرنے کا مرکز کا اختیار یونین لسٹ کے اندراج 36 سے آتا ہے، نہ کہ آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) سے۔

یونین لسٹ کا اندراج 36 دیگر چیزوں کے علاوہ کرنسی، سکے اور قانونی ٹینڈر سے متعلق ہے۔

ناگارتھنا نے کہا کہ ’’اگر نوٹ بندی مرکزی حکومت کے ذریعہ شروع کرنی ہے تو اس طرح کی طاقت فہرست 1 [یونین لسٹ] کے اندراج 36 سے حاصل کی جانی چاہیے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ قانونی ٹینڈر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی تجویز قانون سازی کے ذریعہ آتی ہے اور اگر اس معاملے میں رازداری کی ضرورت ہے تو اسے آرڈیننس پاس کرکے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ناگارتھنا نے کہا ’’مرکزی حکومت کے کہنے پر تمام سیریز کے نوٹوں کو بند کرنا بینک کی طرف سے مخصوص سیریز کی نوٹ بندی سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔‘‘

جج نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کی مشق شروع کی اور آر بی آئی کی رائے طلب کی۔ انھوں نے کہا ’’آر بی آئی کی طرف سے دی گئی اس طرح کی رائے کو آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 26(2) کے تحت ’’سفارش‘‘ کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔

آر بی آئی کے ذریعہ پیش کردہ ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے نوٹ کیا کہ آر بی آئی ’’مرکزی حکومت کی خواہش کے مطابق‘‘ الفاظ استعمال کرتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مرکزی بینک کی طرف سے سوچ کا کوئی آزاد اطلاق نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’’8 نومبر 2016 کے مطابق مرکزی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی نوٹ بندی کی کارروائی غیر قانونی تھی۔ لیکن اس وقت جمود کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ اب کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ ریلیف کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔‘‘