سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگا دی جس میں ریاست میں 58 فیصد ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا

نئی دہلی، مئی 2: سپریم کورٹ نے پیر کو چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگا دی جس میں ریاستی حکومت کے 58 فیصد ریزرویشن کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔

2011 میں چھتیس گڑھ حکومت نے سرکاری ملازمتوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں نشستوں کا کوٹہ 50 فیصد سے بڑھا کر 58 فیصد کر دیا تھا۔ نئے پروویژن کے تحت درج فہرست ذاتوں کو 12 فیصد کوٹہ، درج فہرست قبائل کو 32 فیصد جب کہ دیگر پسماندہ طبقات کو 14 فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا۔

تاہم ستمبر میں، چھتیس گڑھ ہائی کورٹ نے کوٹہ بڑھانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کی خلاف ورزی کے لیے کوئی خاص معاملہ نہیں بنایا گیا ہے۔

1992 کے اندرا ساہنی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت نے کہا تھا کہ اس حد کی خلاف ورزی ’’غیر معمولی حالات‘‘ میں کی جا سکتی ہے۔

پیر کو جسٹس بی آر گوائی، وکرم ناتھ اور سنجے کرول پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے نظرثانی شدہ ریزرویشن کی حد کو ختم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی دو عرضیوں کی سماعت کر رہی تھی۔

چھتیس گڑھ حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے ریاست میں بھرتیوں میں مداخلت کی ہے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے عبوری حکم کے طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔ تاہم عدالت نے چھتیس گڑھ حکومت کو ہدایت جاری کرنے کا حکم دیا کہ اب سے ریاست میں کی گئی بھرتیاں اس معاملے پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گی۔

کیس کی اگلی سماعت جولائی میں ہوگی۔