شرد پوار نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر کا عہدہ چھوڑا

نئی دہلی، مئی 2: سیاست دان شرد پوار نے منگل کو نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ 1999 میں پارٹی کے قیام کے بعد سے اس عہدے پر فائز تھے۔

پوار نے منگل کو اپنی سوانح عمری کے دوسرے ایڈیشن کا اجرا کرتے ہوئے کہا ’’میرے پاس راجیہ سبھا میں تین سال کی مدت باقی ہے، میں اب سے الیکشن نہیں لڑوں گا۔ ان تین سالوں میں، میں ریاست اور ملک سے متعلق مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کروں گا۔ میں کوئی اضافی ذمہ داری نہیں لوں گا۔‘‘

ان کے اس اعلان کے بعد پارٹی کارکنوں اور لیڈروں نے پوار سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک وہ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے، وہ کتاب کی رونمائی کا مقام نہیں چھوڑیں گے۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ کے طور پر پوار کے بعد کون سربراہ ہوگا اس بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم 82 سالہ پوار نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے سینئر رہنماؤں کی ایک کمیٹی کی سفارش کی۔ اس کمیٹی میں ان کی بیٹی سپریا سولے، بھتیجے اجیت پوار اور سینئر لیڈر پرفل پٹیل، چھگن بھجبل، دلپ والسے پاٹل اور انل دیشمکھ شامل ہیں۔

پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انھوں نے اس فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے پارٹی لیڈروں کو اعتماد میں نہیں لیا۔

ممبئی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے کارکنوں نے شرد پوار سے پارٹی کا صدر رہنے کی اپیل کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ سولے اور اجیت پوار نے کچھ مظاہرین سے بات چیت کی۔

اجیت پوار نے منگل کے روز نامہ نگاروں کو بتایا ’’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کا کوئی بھی رکن ان کے [شرد پوار کے] اعلان سے خوش نہیں ہے۔ ان کے گھر جانے کے بعد ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ صدر بنے رہیں اور پارٹی کے کسی اور رہنما کو قائم مقام صدر کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ شرد پوار نے احتجاج کرنے والے پارٹی ممبران سے کہا ہے کہ وہ گھر واپس چلے جائیں اور انھیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے دو سے تین دن کا وقت دیا جائے۔ اجیت پوار نے کہا کہ شرد پوار نے مختلف اضلاع کے قانون سازوں اور پارٹی صدور پر بھی زور دیا ہے کہ وہ احتجاج کے طور پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا بند کریں۔‘‘

اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کہا کہ یہ فیصلہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر نے کہا ’’وہ ایک سینئر لیڈر ہیں اور انھوں نے کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پارٹی کے اندر کئی مسائل پر دماغی طوفان چل رہا ہے۔ اس لیے ہمارا اس پر رد عمل ظاہر کرنا درست نہیں ہوگا۔ ہم صورت حال پر نظر رکھیں گے اور ایک یا دو دن بعد ردعمل ظاہر کریں گے۔‘‘