سپریم کورٹ نے وقف ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کردیا

نئی دہلی، اپریل 14: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے وقف ایکٹ 1995 کو چیلنج کرنے والی درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور سوریہ کانت پر مشتمل بنچ نے کہا کہ کسی قانون کی آئینی حیثیت کو ’’خلاصہ عرضی‘‘ کے ذریعے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

وقف ایک جائیداد ہے جو مسلمانوں کی طرف سے مذہبی، تعلیمی یا خیراتی مقصد کے لیے دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں وقف ایکٹ، 1995 کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ ہر ریاست میں ایک وقف بورڈ ہوتا ہے جس کی سربراہی ایک قانونی ادارہ کرتا ہے، جسے جائیداد حاصل کرنے، رکھنے اور منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔

اپادھیائے نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ صرف وقف سے نمٹنے کے لیے ایک الگ قانون نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون ’’مساوات کے حق اور مذہب کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘

بنچ نے اپادھیائے سے پوچھا کہ ’’آپ اس قانون سے کیسے پریشان ہیں؟ کیا آپ کو اپنی جائیداد سے بے دخل کیا گیا تھا؟ کیا آپ کی امانت کی جائیداد کو نقصان پہنچا؟‘‘

مزید بحث کرتے ہوئے اپادھیائے نے کہا کہ وقف املاک کو دیے گئے خصوصی درجہ کی وجہ سے عوام کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اپادھیائے نے عدالت سے کہا کہ وہ ٹرسٹ، خیراتی اداروں اور تمام برادریوں کے مذہبی اوقاف کے انتظام کے بجائے یکساں ضابطہ نافذ کرے۔

بنچ نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ سے یکساں قانون بنانے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق عدالت نے کہا، ’’ہمیں مقننہ کے ذریعہ نافذ کردہ قانون کو چیلنج کرنے والی ایک PIL پر غور کرتے وقت بہت محتاط رہنا ہوگا۔‘‘

اس کے بعد اپادھیائے نے عرضی واپس لینے کی کوشش کی۔