مرکز کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے میں ناکامی کے بعد سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت 24 نومبر تک ملتوی کی

نئی دہلی، نومبر 9: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق مرکز کی جانب سے جامع حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید وقت مانگے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے 2016 کے نوٹ بندی کے عمل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت بدھ کو 24 نومبر تک ملتوی کر دی۔

جسٹس ایس عبدالنذیر، بی آر گوائی، اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور بی وی ناگارتھنا کی آئینی بنچ نے مرکز اور ریزرو بینک آف انڈیا کو 12 اکتوبر کو حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

بنچ ان 58 درخواستوں پر غور کر رہی ہے جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے 2016 میں اعلی قیمت کے کرنسی نوٹوں کو ختم کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔

8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ آدھی رات سے ہندوستان میں 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ مودی نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بدعنوانی، کالے دھن اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے لیا گیا ہے۔

نوٹ بندی کے بعد نئے ڈیزائن والے 2000 روپے اور 500 روپے کے نوٹ متعارف کرائے گئے تھے۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مشق نے شہریوں کے کئی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، جیسے جائیداد کا حق (آرٹیکل 300A)، مساوات کا حق (آرٹیکل 14)، کسی بھی تجارت، کاروبار یا پیشے کو جاری رکھنے کا حق (آرٹیکل 19) اور زندگی اور روزی روٹی کا حق (آرٹیکل 21)۔

بدھ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آر وینکٹ رامانی نے تاخیر کے لیے معذرت کی اور جامع حلف نامہ داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔

انھوں نے کہا ’’ہم حلف نامہ تیار نہیں کر سکے۔ ہمیں تقریباً ایک ہفتے کا بہت ہی مختصر وقت درکار ہے۔ حلف نامہ ہم سب کے لیے کسی منظم طریقے سے آگے بڑھنے کے لیے مفید ہوگا۔‘‘

تاہم بنچ نے التوا کی درخواست پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

جسٹس ناگارتھنا نے کہا ’’عام طور پر آئینی بنچ کبھی بھی اس طرح سماعت ملتوی نہیں کرتا۔ ایک بار سماعت شروع کرنے کے بعد ہم اس طرح کبھی نہیں اٹھتے۔ یہ اس عدالت کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔‘‘

جسٹس عبدالنذیر نے نشان دہی کی کہ مرکز کے پاس کیس میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے چار ہفتے تھے۔ ’’آپ کو جو وقت دیا گیا تھا اسے مختصر یا ناکافی وقت نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

وکیل شیام دیوان نے، جو اس کیس میں درخواست گزاروں کی نمائندگی کر رہے تھے، کہا کہ آئینی بنچ سے التوا کا مطالبہ کرنا انتہائی غیر معمولی بات ہے۔

ایڈوکیٹ پی چدمبرم نے بھی کہا کہ یہ عدالت کے لیے ایک شرم ناک صورت حال ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’میں اسے اس عدالت کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔‘‘