سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ:شخصی آزادی پر معروف قلمکاروں کا دوغلا رویہ

اسلاموفوبیا مخالف مہم کا اثر۔ حملے کواسلام سے جوڑنے سے گریز

سید خلیق احمد
(ہندی سے ترجمہ: نورالدین نور)

دنیا بھر کے قومی صدور، مصنفین ،اخبار نویسوں اور ادیبوں نے نیو یارک میں 12 اگست 2022 کو بروز جمعہ منعقدہ ایک جلسے میں بدنام زمانہ مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کی ہے۔سلمان رشدی حملے میں بچ گیا ہے لیکن اس کی حالت تشویشناک ہونے کے سبب وہ ہنوز اسپتال میں زیر علاج ہے۔ حملہ آور کی شناخت لبنان کے باشندے 24 سالہ ہادی مطر کے طور پر ہوئی ہے۔
سلمان رشدی 1988 میں شائع ہونے والے اپنے ناول’’دی سیٹنک ورسیز‘‘(شیطانی کلمات) کے لیے دنیا بھر کے مسلمان اس پر لعنت بھیجتے آرہے ہیں۔اس ناول میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دین اسلام کے خلاف توہین آمیز خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ۔اسلامی تاریخ سے ثابت کئے بغیر اس ناول میں پیغمبر اسلام سے متعلق اہانت امیز طریقے سے لکھا گیا ہے۔
کسی کے بھی جارحانہ خیالات کے لیے دل میں کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو لیکن اس کے باوجود کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے، مجرموں کو سزا دینا ریاست اور حکومت کا کام ہے۔رشدی پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت ہونی چاہیئے،یہ راحت کی بات ہے کہ فرانس کے صدر ایمی نیو ایل میکروں سمیت دنیا میں کس نے بھی اس حملے کو دین اسلام سے نہیں جوڑا،کیونکہ ماضی میں اس طرح کے ردعمل کے نتیجے میں میکروں اور کئی اسلامی ممالک کے سربراہان کے درمیان زبانی جنگ ہو چکی ہے۔اس سے قبل امریکہ ، عیسائی یوروپ اور سبھی غیر مسلم دنیا میں یہ رجحان عام تھا کہ کسی بھی مسلمان کے ذریعہ انجام دیے گئے پر تشدد واقعے کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تھا،اب ایسا لگتا ہے کہ پچھلے واقعات کے پیش نظر غیر مسلم دنیا زیادہ بالغ اور سمجھدار ہو گئی ہے کہ کسی مسلمان کے ذریعہ کیے گئے جرم کو اسلام سے نہیں جوڑ رہی ہے۔شاید ایسا مسلم دانش وروں اور ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان جیسے دیگر مسلم صدور کے ذریعہ پیش کیے گئے اسلامو فوبیا کی پرزور مخالفت کے سبب ہوا ہے۔یہ اقوام متحدہ کی کوششوں کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے،اقوام متحدہ نے 2022 سے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سال 15 مارچ کو بین الاقوامی یوم انسداد اسلامو فوبیا کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سلمان رشدی کے ناول نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرتے ہوے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی،انگلینڈ کی ملکہ الزیبتھ دوم نے 2007 میں رشدی کو نائٹ ہڈ کے اعزاز سے نوازا تھا۔
فرانس کے صدر ایمانویل میکروں نے پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے شارلی ہیبدو نامی اخبار کی کھل کر حمایت کی تھی۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی قائد،سیاستداں،معاشی اور فوجی طاقت کے نشے میں ان مسلمانوں کے جذبات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے ہیں جو دنیا کی سبھی مذہبی اور تہذیبی ثقافتوں میں معاشی اور فوجی اعتبار سے سب سے کمزور ہیں۔
دنیا کے ان قائدین کا کیا رد عمل ہوگا اگر مسلم دنیا کا کوئی شخص مذہبی شخصیت یا دیگر مذاہب کے صحیفوں کا مذاق اڑاتا ہے،جن کا دنیا کی سب سے بڑی افواج پر قابو ہے؟ کیا اس سے شخصی آزادی کے نام پر اجازت دی جائے گی ،لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے پرہیز کیا ہے۔کیونکہ غیر مسلموں کے ذریعہ پوجے جانے والے مذہبی صحیفوں یا شخصیتوں کا مذاق اڑانے یا ان کی توہین کرنے سے قرآن مسلمانوں کو سختی سے روکتا ہے۔
بھارت میں مسلمان اور عیسائی پچھلی کئی دہائیوں سے ہندو دھرم کے خلاف سازش کرنے کے جھوٹے الزامات سے متعلق تشدد کا سامنا کر رہے ہیں اور 2014 میں گجرات کے سابق وزیر اعلی نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے واقعات اور بڑھ گئے ہیں،گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں پر اکثر حملے کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں پر ہی پولیس کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
بھارت میں گئوکشی ایک جرم ہے اور کچھ ریاستوں میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی گائیوں کے ذبح کے لیے اکسانے میں شامل پایا جاتا ہے تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے جس میں 10 سال تک کی قید شامل ہے۔کئی ریاستوں میں گئوکشی کے خلاف قانون بنایا گیا ہے کیونکہ ہندو آبادی کا بڑا حصہ گائے کو ایک مقدس اور قابل پرستش جانور مانتا ہے،اس لیے گئو کشی کے نام پر کیا جانے والا تشدد ہندو عقائد کے خلاف توہین سے متعلق تشدد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔الگ الگ ریاستوں میں گئو رکھشا کی بڑی غیر قانونی فوجیں بھی تعینات ہیں جو اپنے بنا قانون پر چلتی ہیں،اور وہ محض شک کی بنیاد پر کبھی بھی کسی بھی مسلمان پر جسمانی حملہ کر دیتی ہیں۔ گئو رکھشکوں کے حملوں کے بارے میں کوئی درست ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 اور 2017 کے درمیان بھارت میں جملہ 63 گئو رکھشک حملے ہوئے تھے جن کی تعداد 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ان حملوں میں 2010 اور جون 2017 کے دوران ، 28 شہری جن میں 24 مسلمان تھے مارے گئے اور 124 لوگ شدید زخمی ہوے تھے۔لیکن دنیا ان سبھی بے رحمانہ قتل کے واقعات پر توجہہ نہیں دیتی ہے،ریفریجریٹر اور کچن میں تلاشی لینے کے لیے مبینہ گئو رکھشک زبردستی مسلمانوں کے گھروں میں بھی داخل ہوتے ہیں تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ انہوں نے گائے کا گوشت رکھا ہے یا نہیں۔
ہریانہ کے میوات میں پولیس نے کئی موقعوں پر بریانی کو اس شک میں ضبط کیا کہ بریانی پکانے کے لیے گائے کے گوشت کا استعمال کیا گیا تھا۔سب سے بے داغ مثال دادری کے محمد اخلاق کی ہے ۔جسے 2015 میں اپنے ریفریجریٹر میں گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں ہجوم کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا تھا۔
سابق سیاستداں اور گورنر گوپال کرشن گاندھی کے ذریعہ انڈین ایکسپریس کے اداریہ میں تحریریں ’’ورڈس ول ون ‘‘ اور ’’دی اسکروچنگ ٹروتھ آف رشدیز آرڈیل‘‘ اور ٹائمز آف انڈیا میں ناول نگار اور ناقد امیت چودھری کے ذریعہ لکھا گیا ’’ دی میننگ آف سلمان رشدی‘‘ میں شخصی آزادی کی پر زور حمایت کی گئی ہے،شخصی آزادی کے اختیار کو لے کر ان سے کوئی مخالفت بھی نہیں کرے گا۔لیکن کیا اسی شخصی آزادی کی توسیع مذہبی شخصیات اور دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں کو گالی دینے کو بھی اہمیت دیتی ہے۔
اخلاقیات اور مقدس کتابوں کے مواد یا کسی مذہب کی معزز شخصیات کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ ایک الگ بات ہے لیکن شخصی آزادی کے اختیار کا فائدہ اٹھا کر انہیں اہانت آمیز طریقے سے پیش کرنا اتنا ہی نا مناسب ہے جتنا سلمان رشدی یا کسی دیگر مصنف پر ہوا جسمانی حملہ،اگر شخصی آزادی کا مطلب مذہبی شخصیات کی توہین کرنا یا مذاق اڑانا بن چکا ہے تو اس کی ازسرِنو تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بہت ہی اہم ہے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ امریکہ اور فرانس جیسے مغربی دنیا کے کئی ملکوں میں حکومتیں اسلام اور پیغمبر اسلام پر کھلے طور پر طنز کرنے کی اجازت دے رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں قانون اور انتظامیہ کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور فرانس اور ترکیہ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسلم ممالک کے بیچ سفارتی تعلقات بگڑتے رہے ہیں۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ مصنفین کو بھی لوگوں کے احساس کو سمجھنا چاہیے۔
ایسی کئی کتابیں ہیں جنہیں بھارت میں ممنوع قرار دیا گیا تھا یا توہین کی بنیاد پر ان کی فروخت روک دی گئی تھی۔آزاد بھارت میں ممنوعہ پہلی کتاب 1954 میں اوبرے مینن کی ’’رامائن‘‘ تھی ۔ایک اور ممنوعی کتاب جیمس لین کے ذریعہ لکھی گئی ’’شیواجی۔ہندو کنگ ان مسلم انڈیا‘‘ تھی۔حالانکہ سپریم کورٹ نے 2010 میں پابندی ہٹالی تھی۔لیکن یہ کتاب ابھی بھی بھارت میں دستیاب نہیں ہے۔
ایک امریکی انڈولو جسٹ ،وینڈی ڈونیگر کے ذریعہ لکھی گئی ’’دی ہندوز این الٹر نیٹیو ہسٹری ‘‘ نامی کتاب کی کاپیوں پر 2014 میں دینا ناتھ بترا کے ذریعہ دائر کردہ ایک عدالتی معاملے کے بعد روک لگائی گئی تھی۔الزام یہ تھا کہ اس میں ہندو دیوتاؤں کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔مبینہ سیکولر دنیا کے حساب سے ان سبھی معاملوں کو شخصی آزادی میں لگام لگانا قرار دیا جانا چاہئیے تھا لیکن مصنفین کی دنیا میں سے کسی نے بھی ان معاملوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہیں پریشانی صرف رشدی کی کتاب پر لگنے والی پابندی سے ہے۔
اسی طرح ،ڈان براؤن کی ایک کتاب ’’ڈاؤنچی کوڈ‘‘ کو ناگا لینڈ حکومت کے ذریعہ ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ عیسائی فرقہ نے اس پر عیسائی مذہب اور رومن کیتھولک چرچ کے بارے میں غلط بیانی کا الزام لگایا تھا۔ تمل ناڈو حکومت نے 2013 میں عیسائی طبقے کے احتجاج کے بعد ’’ڈاؤنچی کوڈ‘‘ پر مبنی ایک فلم پر پابندی لگائی تھی۔
بھارت میں ممنوعہ دیگر کتابوں میں شامل کتابیں ہیں:ساق وزیر خارجہ آنجہانی جسونت سنگھ کے ذریعہ لکھی گئی ’’جناح: انڈیا ۔پارٹیشن۔ انڈی پینڈس‘‘ جناح سے متعلق ہمدردی رکھنے کا الزام اس کتاب پر لگا۔سیمور ہرش کے ذریعہ لکھی گئی ’’دی پرائز آف پاور ‘‘ اس کتاب پر مراری دیسائی کو ایک سی آئی اے کا مخبر بتانے کا الزام ہے۔ وی ایس نائپال کے ذریعہ لکھی گئی کتاب ’’ این ایریا آف ڈارک نیس ‘‘ پر بھارت کو اہانت آمیز طریقے سے پیش کرنے کا الزام ہے۔ الگزنڈر کیمپ بیل کی ’’ دی ہارٹ آف انڈیا‘‘ کتاب پر بھارت کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں پر جارحانہ ہونے کا الزام ہے اور ہامش میک ڈونالڈ کے ذریعہ لکھی گئی ’’ دی پالسٹر پرنس: دی رائز آف دھیرو بھائی امبانی ‘‘ پر دھیرو بھائی امبانی کی شبیہ بری طرح خراب کرنے کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
کچھ برسوں میں اتر پردیش اور دیگر مقاموں پر کئی نامہ نگاروں اور سوشل میڈیا یوزرس کو صرف اس لیے گرفتار کرلیا گیا کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم مودی اور وزیر اعلی یوگی کی توہین کرنے والے ویڈیو اور کارٹون اپ لوڈ کیے تھے۔ کیا ان کارروائیوں سے شخصی آزادی کو خطرہ نہیں پہنچتا ہے؟وہ مصنفین اور قلمکار کہاں ہیں جو بنا کسی ٹھوس ثبوت کے مسلم طبقے پر تنقید کرتے ہیں لیکن نامہ نامہ نگاروں اور سوشل میڈیا یوزرس کی گرفتاری پر خاموش رہتے ہیں۔
***

 

***

 اخلاقیات اور مقدس کتابوں کے مواد یا کسی مذہب کی معزز شخصیات کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ ایک الگ بات ہے لیکن شخصی آزادی کے اختیار کا فائدہ اٹھا کر انہیں اہانت آمیز طریقے سے پیش کرنا اتنا ہی نا مناسب ہے جتنا سلمان رشدی یا کسی دیگر مصنف پر ہونے والا جسمانی حملہ،اگر شخصی آزادی کا مطلب مذہبی شخصیات کی توہین کرنا یا مذاق اڑانا بن چکا ہے تو اس کی ازسرِنو تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022