ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن ۔بیک نظر

مسلمانوں کا پسماندگی سے ارتقاکی طرف سفرایک تاریخی حقیقت

محمد جاوید اقبال، دلی

ہندوستان کی قدیم تاریخ تاریکی میں ہے۔ البتہ کچھ سیاح مثلاً فاہیان ہواں سوانگ اور البیرونی وغیرہ کے سفر ناموں سے بہت سی معلومات مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ رگ وید، مہا بھارت وغیرہ سے بھی بہت سے واقعات پتہ چل جاتے ہیں۔ موہن جودارو اور ہڑپا کی کھدائی سے بھی ہندوستان کی قدیم تہذیب و تمدن کا پتہ چل جاتا ہے۔
دراوڑ
عام خیال یہ ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑ تھے۔ ان لوگوں کا قد چھوٹا، ناک چپٹی اور رنگ سیاہ تھا۔ یہ لوگ ملک کے مختلف حصوں میں بٹے ہوئے تھے ان کا پیشہ کاشت کرنا اور جانور پالنا تھا۔ ان لوگوں کی شکلیں جنوبی ہند کے لوگوں سے ملتی ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تجارت بھی کرتے تھے ۔ تجارت کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں آتے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ تاجر ہندوستان کے باہر ممالک کا بھی سفر کرتے تھے۔ مثلاً مصر، شام، بابل وغیرہ۔ مختلف علاقوں کے راجا ہوتے تھے جو اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کرتے تھے۔ آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہندوستان کا کوئی ایک راجا نہیں تھا۔
موہن جودارو اور ہڑپا کی کھدائی سے جو چیزیں برآمد ہوئی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تہذیب کافی شاندار تھی۔ سڑکیں، مکانات، برتن وغیرہ سے ان لوگوں کی ذہنیت معلوم ہوتی ہے۔ پڑھنے لکھنے کا رواج بھی تھا۔
آریاوں کی آمد کا زمانہ
کہا جاتا ہے کہ آریاوں کی آمد کا زمانہ حضرت عیسیؑ سے چار ہزار سال قبل ہے لیکن اتفاق تقریباً دو ہزار سال قبل پر ہے۔
آریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وسط ایشیا سے آئے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روس، قزاقستان اور یوکرین سے آئے تھے۔ ان کے آنے کی وجہ قحط سالی بتائی جاتی ہے۔ قحط کی وجہ سے انہوں نے اپنا ملک چھوڑا اور اپنے جانوروں کے ساتھ دوسرے ممالک کا سفر کرتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ یہاں گنگا کی سبز وادیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے سندھ پھر پنجاب اور دھیرے دھیرے برسہا برس میں پورے ہندوستان پر چھاگئے۔ یہ لوگ قبائل میں بٹ گئے کچھ لوگ دیوی دیوتاوں کی پوجا کرتے تھے، کچھ پوجا نہیں کرتے تھے، کچھ لوگ دیوی دیوتاوں کے خلاف تھے۔ ان میں سے بعض لوگ لنگ کی پوجا کرتے تھے۔ یہ لوگ جانوروں کا شکار کرکے ان کا گوشت کھاتے تھے۔ تہواروں کے موقعوں پر گوشت کا استعمال عام تھا۔ یہ لوگ دودھ اور شراب بھی پیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ موہن جودارو اور ہڑپا کی تہذیب کو آریوں نے تہہ و بالا کیا۔ موجودہ ہندو ان ہی آریوں کی اولاد ہیں۔ آریوں کے بعد منگول ہندوستان آئے اور آسام، بنگال، بھوٹان اور نیپال کے علاقوں میں بس گئے۔
ہندوستان میں البیرونی کی آمد
البیرونی ایک مشہور مورخ گزرا ہے جو محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آیا۔ یہ زمانہ 997عیسوی کا یعنی تقریباً ایک ہزار سے پہلے کا ہے۔ وہ بڑا ذہین انسان تھا اس نے یہاں آکر سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی تمام مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس نے کتاب الہند تحریر کی جس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں آج بھی موجود ہے۔ اس نے اپنی اس کتاب میں تحریر کیا کہ ہندو اپنی سوچ اور ذہن کے اعتبار سے دنیا کی دوسری قوموں سے بعض اعتبار سے برتر ہیں۔ اس نے لکھا یہاں کے لوگ علم نجوم اور جوتش میں طاق ہیں وہ علم طب میں بھی ماہر ہیں۔
ایک مرتبہ خلفیہ ہارون رشید بیمار ہوا عراق کے مسلم اطبا اس کا علاج نہ کرسکے ہندوستان سے ایک طبیب عراق بلایا گیا جس نے خلیفہ کا علاج کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلیفہ شفا یاب ہوگیا۔
البیرونی نے یہ بھی لکھا کہ یہاں کے اہل علم ، عام طور پر بڑے مغرور ہوتے ہیں۔ علم کو پھیلانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایک خاص طبقہ ہی علم سے مستفید ہوسکتا ہے۔ یہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسرا ملک نہیں ہے اگران سے کہا جائے کہ ایران میں بھی کچھ عظیم اسکالر پائے جاتے ہیں تو وہ اس کو جھوٹ سمجھتے ہیں۔ خود البیرونی کے علم پر یہا ں کے لوگوں کو بڑا تعجب ہوتا تھا وہ اس کو جادو گر کہتے تھے۔
مذہبی عقائد
البیرونی کے بقول یہاں کے بعض لوگ ایک خدا کو مانتے ہیں بعض خدا کا انکار کرتے ہیں، کچھ پتھروں کے بت بناکر انہیں پوجتے ہیں کچھ لوگ ان پر گھی اور تیل ڈالتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو درختوں اور سورچ کی پوجا کرتے ہیں زیادہ لوگ آواگمن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ رات کو موم بتی یا چراغ جلانے کا اہتمام کرتے ہیں امیر لوگوں کے ملازم ہاتھوں میں چراغ لیے رہتے ہیں۔
بعض لوگ ننگے رہتے ہیں جو کپڑا پہنتے ہیں وہ سلا ہوا کپڑا نہیں پہنتے۔ کچھ لوگ جسم کے بال نہیں کاٹتے یہاں ہاتھ پیر دھونے کے سلسلے میں بھی عجیب رسم ہے۔ لوگ پہلے پیر دھوتے ہیں اور بعد میں چہرہ اور ہاتھ ۔ تہوار کے مواقع پر اپنے جسم کو گوبر سے لیپتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سب لوگ ایسا نہیںکرتے ہوں گے یہ لوگ کانوں میں بالیاں بازووں میں کڑے اور انگوٹھیاں پہنتے ہیں۔ پیروں کی انگلیوں میں چھلے پہنتے ہیں کالی کٹ کے لوگ تقریباً ننگے رہتے ہیں کچھ لوگ جانگیہ جیسا کپڑا لپٹ لیتے ہیں۔
آریہ تنہا کھانا کھاتے ہیں کھانے کی جگہ کو گوبر سے لیپ لیتے ہیں۔ پیڑوں کے پتوں یا مٹی کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد مٹی کے برتنوں کو توڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ شراب پیتے ہیں اور کچھ لوگ کھانا کھانے کے بعد گائے کے پیشاب کی چسکی لیتے ہیں۔ ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں۔
آریاوں کی مقدس کتاب وید
آریاوں کی مقدس کتاب وید ہیں۔ اس بیانیے (narrative) سے اختلاف ہے کہ وید کب لکھے گئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وید 3500سال قبل مسیح لکھے گئے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ جن لوگوں نے ویدوں کو لکھا ہے وہ بڑے قابل تھے۔
ویدوں کی اقسام
وید چار ہیں۔ رگ وید۔ یجرو وید۔ سام وید اور اتھر وید
1۔ رگ وید۔ یہ سب سے قدیم وید ہے اس میں تمام تر منتر دعائیں ہیں جو مختلف مواقع پر پڑھی جاتی ہیں۔
2۔ یجر وید۔ اس میں دعاوں کے علاوہ عقائد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس وید میں قربانی کے سلسلے کی تفصیلات ہیں۔
3۔ سام وید۔ اس میں مختلف منتروں کو یکجا کردیا گیا ہے
4۔ اتھر وید۔ اس میں جادو ٹونے کے سلسلے کے ناجائزمنتر ہیں۔ اس وید میں شراب اور گوشت
اپنیشد
یہ ویدوں کی تشریح ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ 500ق م میں لکھے گئے تھے۔
ہندوؤں کا معاشرتی نظام
برہما نے انسان کو وجود بخشا اور انسان کو چارگروہوں میں تقسیم کردیا۔
1۔ برہمن۔ یہ برہما کے سر سے پیدا ہوئے سر چونکہ جسم کا سب سے اعلیٰ عضو ہے اس لیے یہ لوگ اعلیٰ ترین ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام پڑھنا پڑھانا مذہبی رسوم ادا کرنا اور ان رسوم کی حفاظت کرنا یہ لوگ سب کے رہنما ہیں۔
2۔ چھتری۔ یہ برہما کے کندھے اور ہاتھ سے پیدا ہوئے اس لیے ان کا کام حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا، ملک کی حفاظت کرنا قرار پایا اس لیے فوج میں ان لوگوں کو داخل کیا گیا۔
3۔ ویش۔ برہما کی ران سے پیدا ہوئے اس لیے ان کا کام تجارت کرنا قرار پایا۔
4شودر۔ ان کا کام خدمت کرنا یہ برہما کے پیر سے پیدا ہوئے ان کی بستیاں بھی دوسروں سے بالکل الگ بسائی جاتی تھیں۔ ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک ایک ہزار سال تک ہوتا رہا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام اور عیسائیت قبول کرلیا تب کچھ سکون ملا۔ شودروں کے علاوہ بھی بہت سے طبقوں نے مذہب تبدیل کیا۔
ہندو مت میں ایک معاشرتی اصلاح آشرم بھی ہے اس کے مطابق انسان کی اوسط عمر 100سال مانی جاتی ہے۔ پہلا برہم چریہ آشرم جس میں 25سال تک تعلیم حاصل کرنا۔ دوم گرہستھ آشرم ، خاندانی زندگی گزارنا۔ دوسروں کی مدد قربانی وغیرہ فرائض انجام دینا۔
تیسراون پرستھ آشرم 75تک رہبانیت اختیار کرنا
چوتھا سنیاس آشرم۔ فقیرانہ زندگی اختیار کرنا اور کسی ایک جگہ قیام نہ کرنا۔ ان معاشرتی اصولوں یعنی انسانوں کی چار طبقات میں تقسیم پھر عمر کو چار حصوں میں تقسیم اور اس پر عمل سے جو شخصیت ابھر کر آتی ہے وہ پور ی طرح اس ہندو تہذیب کا آئینہ ہے۔
اس طرح کی تہذیبیں دوسرے ممالک میں بھی رہی ہیں۔ مثلاً عرب کے یہاں قتل غارت گری عام تھی۔انگلینڈ ، امریکہ کا ماضی تاریک تھا۔ مغربی ممالک میں تبدیلی اور ترقی انقلاب فرانس کے بعد آئی۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ماضی میں ہم میں گرچہ کچھ خوبیاں بھی تھیں لیکن بحیثیت مجموعی ہم پسماندہ ہی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ترقی کرتے گئے اور آج بھی ہم وہ ہیں جن کو دنیا جانتی ہے۔اس سلسلے میں مسلمانوں کی مثال ہمارے لیے اعلیٰ نمونہ ہے جب تاتاری مسلم ملکوں کو تاراج کررہے تھے تو تاتاریوں نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو پکڑا اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا تب بادشاہ نے نفرت کے انداز میں اپنے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم بہتر ہو یا یہ کتا!۔ ان میں ایک عالم بھی تھے انہوں نے کہا کہ اگر ہم اللہ کے فرمانبردار بندے نہیں ہیں تو واقعی یہ کتا ہم سے بہتر ہے۔ ان کی اس بات نے بادشاہ کے دل پر اس قدر گہرا اثر کیا کہ اس نے ان سے مزید اسلام کے بارے میں معلوم کیا۔ تب اسلام کا پورا تعارف کرایا گیا اور بالآخر وہ حکم راں مسلمان ہوگیا اور پھر دھیرے دھیرے پوری قوم اسلام لے آئی۔
فون :8860429901

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022