ملحدین کا پوسٹ مارٹم

مسلمانوں میں سے کچھ لوگ الحاد کیوں اختیار کرتے ہیں؟

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

ملحد اس کو کہتے ہیں جو خدا کے وجود کا انکار کرے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تشکیک کا شکار ہیں جو نہ ہی خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اقرار کرتے ہیں۔ اس کیفیت کو Agnosticism کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کا انکار اس بنا پر کرتے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا لیکن وہ انکار بھی اس لیے نہیں کرسکتے کہ یہ کائنات بغیر کسی کے بنائے کیسے بن سکتی ہے۔ ملحدوں کی ایک قسم ان کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق تو ضرور ہے لیکن وہ تخلیقِ کائنات کے بعد اس کائنات سے بے تعلق ہوکر کسی اور شغل میں کہیں مصروف ہوگیا ہے۔ انہوں نے اس بنا پر یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کائنات میں نظم تو ہے لیکن انسانی معاشرہ میں انصاف نہیں پایا جاتا۔ ظالم کو فوراً سزانہیں ملتی اور نہ ہی نیکی پر فوری جزاملتی ہے۔ دنیا کی عدالتیں بھی مکمل انصاف دینے سے قاصر ہوتی ہیں۔ بے قصور بچے اور معصوم لوگ حوادث کا شکار ہوکر زندگی بھر اذیت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے الحاد کو Deism کہا جاتا ہے۔ تیسری قسم کا الحاد یہ ہےکہ وہ بظاہر خدا کا انکار کرتے ہیں لیکن وہ خالق کے بجائے مادرِ فطرتMother Natureکو تسلیم کرتے ہیں گویا کہ کائنات خود اپنی خالق ہے۔ کچھ لوگ خالق کی جگہ Supreme Intelligence یا Supreme Consciousnessکہنا چاہتے ہیں۔ لفظ خدا یا God سے یہ اس لیے اعراض برتتے ہیں کہ وہ ایسی ہستی کے قائل ہونا نہیں چاہتے جس کےآگے وہ خود کو جوابدہ سمجھیں اور وہ غیر ذمہ دار رہ کرزندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ملحدین کا دل گواہی دیتا ہے کہ : کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلارہا ہے، لیکن وہ مذہب سے بیزاری اور بے نیازی ظاہر کرنے کے لیے اپنے آپ کو ملحد کہلانا پسند کرتے ہیں چونکہ مذاہب کے بارے میں یہ عام تصوّر ہے کہ ان کے عقائد عقلی معیار پر نہیں اترتےاور ان کی کتابیں نامعقول کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہیں اس لیے ایک منطقی ذہن رکھنے والا فرد ان کو قبول نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ اندھی عقیدت میں ان کو مان لے۔ اس لیے ایک سائنس کے طالبِ علم کے لیےمذہب کو ماننا ایک غیر عقلی چیز سمجھی جاتی ہےاور مذہب کے انکار کو روشن خیالی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ مذہب جب اندھی عقیدت کی شئے بن چکی ہے اس لیے دینِ اسلام کے بارے میں بھی یہی قیاس کرلیا گیا کہ یہ بھی اندھی عقیدت کا تقاضا کرتا ہے جبکہ قرآن نے باربار سوچنے اورغورو تفکر کرنے پر ابھارتا ہے اور باپ دادا کی اندھی پیروی سے منع کرتا ہے۔ اسلام پر تنقید کرنے والے ملحدین قرآن کا مطالعہ کیے بغیر چند آیات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے بحث کرتے ہیں۔ اگر وہ سنجیدگی سے پورے قرآن کو پڑھے ہوتے اور سیرتِ رسول کی روشنی میں سمجھتے ہوتے تو اسلام کی عظمت کو محسوس کرتے اور اس حقیقت کو پاتے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح اندھی عقیقت کا نام نہیں ہے۔ اسلام کی عظمت کے معترف تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق کی تلاش و جستجو کے نتیجے میں حق شناس ہوکراسلام کو قبول کرتے ہیں۔ جب مسلمانوں کے اندر پیداہونے والے ملحد روایتی علماء سے استفسارات کرتے ہیں تو وہ ان کو عقلی طور پر مطمئن نہیں کرپاتے اس لیے کہ ایسے علماء کی تربیت اس نہج پر ہوئی ہی نہیں۔ ایسی صورت میں یہ ملحد اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھ کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو عقلی طور غلط ثابت کیا ہے جبکہ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے روایتی علماء کو مات دی ہے نہ کہ اسلام کو نیشنل ٹی وی چینلز پر بھی قصداً ایسے ہی روایتی علماء کو مدعو کیا جاتا ہے جو اسلام کو بدنام کرنےکا ذریعہ بنتے ہیں۔
ملحدین کا معاملہ یہ ہے جب انہوں نے خدا کا انکار کیا ہے اور خدا بیزاری کو انہوں نے اختیار کیا ہے تو خدا کو اپنی گفتگو میں لانا ہی نہیں چاہیے۔لیکن یہ ردِّ خدا میں خدا کا ذکر اس کثرت سے کرتے ہیں کہ ذاکرین بھی نہیں کرتے۔یہ زندگی کے سارے معاملات میں عقلِ عام common sense کو استعمال کرتے ہیں لیکن وجودِ خدا کےثبات میں کسی عقلِ عام کو تسلیم کرنے کے لیے تیا رنہیں ہوتے۔جب ملحدین سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اتنی منظم کائنات کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ اس کا راست جواب دینے کے بجائے بات کا رخ موڑ دیتے ہیں اور کائنات کیسے وجود میں آئی اس پر بحث شروع کردیتے ہیں۔اگر ہم نے کسی سے یہ سوال کیا کہ اس کار کو کس نے بنایا ہے تو اس کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ فلاں کمپنی نے اس کو بنایا ہے۔اس کے بجائے اگر کوئی یہ جواب دے کہ اس کے اجزاء کو کس طرح فیکٹری میں assemble کیا گیا ہےتو کیا یہ بحث معقول ہے؟اکثر دہرئیے خالق کے بارے میں جب سوال کیا جاتا ہے تو تخلیق کے عمل پر گفتگو کرنے لگتے ہیں اور ان کی گفتگونظریہ ارتقا ء evolution کے فرسودہ موضوع پر شروع ہوجاتی ہےاور نظریہ ارتقاء کے نئے نظریات کو پیش کرکے مخاطب کو مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر بفرضِ محال نظریہ ارتقاء کو تخلیق کے پراسس کے طور پر اگر مان بھی لیا جائے توسب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ابتداء میں تخلیق شدہ خلیہ کو کس نے پیدا کیا؟ اسکا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ایک خلیہ کی پیدائش بھی ہر لحاظ سے بہت پیچیدہ کام ہے اور اس کی تفصیلات کا انسان نے آج بھی مکمل احاطہ نہیں کیا ہے۔ خود بخود تخلیق کا فلسفہ ایک بے ہودہ مفروضہ ہے جو probability کی سطح پر صفر کا امکا ن رکھتی ہے۔ جب ڈارون نے نظریہ ارتقاء پیش کیا تھا اس وقت اتنی طاقتور خوردبین ایجاد نہیں ہوئی تھی جس سے اس کی ساخت اور اسکی پیچیدگی کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے ۔
یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ یہ بات بتلاتا ہےکہ خالق کون ہے اور اسکی صفات کیا ہیں وہیں وہ یہ بھی بتلاتا ہے کائنات کا آغاز کس طرح سے ہوااور پہلے انسان کی ابتداء کس طرح ہوئی۔وہ علم ِ غیب کے حقائق کو بھی پیش کرتا ہے اور کائنات کے بارے میں ایسی باتیں اجمال کے ساتھ بیان کرتا ہے اس کی ایک بات بھی آج تک سائنسی حقائق کی روشنی میں غلط ثابت نہیں کی جاسکی۔
جہاں تک سائنس کا معاملہ ہےوہ اول روز سے یہ اعلان کرتی ہے کہ اس کے پاس کائنات کے بارے میں کیا اور کیسے کا جواب تو ہے کہ اس کی ایک ایک چیز کیا ہےاور کیسے کام کرتی ہےلیکن وہ اس بات کا جواب نہیں د ےسکتی کہ اس کائنات کو کس نے پیدا کیا ہےاور کیوں پیدا کیا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنس کی ابتداء مسلمان سائنسدانوں نے کی ۔قرآن کے نزول سے پہلے اجرام ِ فلکی پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے ۔قرآن کی دعوتِ فکر نے پہلی مرتبہ ان کو تحقیق کا موضوع بنایا۔نزول ِ قرآن کے بعد ہی سائنسی علوم میں ترقی انسانوں کی فکری جدوجہد کا نتیجہ ثابت ہوئی اور اس کے ساتھ وحی کے علم سے تمام مابعد الطبیعات حقائق بھی معلوم ہوئےجو انسانوں کے حواس،مشاہدے ،تجربے اور ان کے زورِ تخیل سے ماوراء ہیں ۔جب مغربی دنیا کے سائنس دانوں نے سائنسی میدان کی کمان سنبھالی تو وہ دور عیسائی مذہبی استبداد کا دور تھاجس میں آزاد فکری اور تحقیق کو جرم گردانا گیا۔اسلام نے مسلم سائنس دانوں کو سائنسی علوم کی شاہراہ دکھائی جبکہ عیسائی مذہبی علماء بادشاہوں کی ملی بھگت سے سائنسی علوم کے راستے مسدود کرنے کی شرمناک کوششیں کی گئیں۔
نیوٹن کلاسکل فزکس کا موجد تھا اور آئنسٹائن جدید فزکس کا موجد تھا اور دونوں اگرچہ مذہب بیزار تھے لیکن انہوں نے کبھی خدا کا انکار نہیں کیا۔بےشمار سائنس دانوں نے سائنسی تحقیقات کے باوجود خدا کے تصوّر کو فراموش نہیں کیا۔یہ ڈارون کے بعد کے کچھ سائنس دانوں کا خاصّہ رہا کہ انہوں نے خدا کا انکار کیا۔ آج کے ملحدین نے سائنس اور الحاد کو لازم و ملزوم قراردینا شروع کیا۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ الحاد کو کیوں اختیار کرتے ہیں؟اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے سائنسدانوں سے متاثر ہوکروہ اس راہ کو اپناتے ہیں جن کے مذہبی کتابوں میں علم و عقل کے خلاف باتیں کہی گئی ہیں۔آج کا سب سے بڑا دہریہ Richard Dawkins ہے ۔مسلمانوں میں سے جو ملحد بنے ہیں انہوں نے اصلاً اسلام کے مقدمات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔اسلام کے تین بنیادی مقدمات ہیں جن کو نہ سمجھنے سے ایک انسان خدابیزاری کی طرف مائل ہوتا ہے۔پہلا مقدمہ یہ ہے کہ یہ دنیا دارلامتحان ہے جس کے لیے انسانوں کو آزادی سے نوازا گیا ہے۔جب آزادی کا غلط استعمال کیا جائے گا تو دنیا میں ظلم و ستم کے امکانات پیدا ہوں گے۔دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ اس دنیا میں مکمل انصاف نہیں مل سکتا ۔مکمل انصاف کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ دنیا بنائی ہےجہاں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور جزا و سزا کے فیصلے ہوں گے۔تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق زماں و مکاں کی حدود سے ماوراء ہے اور وہ ان قوانین کا پابند نہیں جو مادہ اور توانائی کے لیے خود اللہ نے بنائے ہیں۔اللہ خالقِ کائنات ہے اور اس پران قوانین کا اطلاق نہیں ہوسکتا جو مخلوق کے لیے بنائے گئے ہیں۔ہرمخلوق کے لیے سوال پیدا ہوگا کہ اس کا خالق کون ہے لیکن خالق اس علّت سے خالی ہے کہ اس کی تخلیق ہو ۔ ملحدین کا یہ بہت ہی پسندیدہ سوال ہے کہ جب ہر مخلوق کا خالق ہے تو خالق کا خالق کون ہے؟جبکہ خالق وہی ہوسکتا ہے جس کی تخلیق نہ ہوئی ہو۔خالق کے خالق ہونے کا سوال تو لامتناہی سوالات کا سلسلہ پیدا کرے گا جس کی کوئی انتہا نہ ہوگی جس کو infinite regress کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی افسر کے حکم کی اطاعت اس بات سے مشروط ہوکہ اس کو اس سے بڑے افسر کی اجازت لینی پڑے تو کبھی اس حکم کی اطاعت کی نوبت نہیں آئے گی۔ ایک افسر ایسا ہونا چاہیے جس کو کسی کی اجازت لینی نہ پڑےاسی وقت اس بات کا امکان ہے کہ حکم کی تعمیل ہو۔ چونکہ کائنات موجود ہے اس لیے اس کا خالق وہی ہوگا جو خود محتاجِ تخلیق نہیں ہوگا۔
ملحد جسم کو مانتےہیں لیکن اس شخصیت یعنی روح کا انکار کرتے ہیں جو جسم سے الگ وجود رکھتی ہے۔ جس کے جسم سے نکل جانے سے شخصیت اپنے تشخص کو کھو کر ایک میّت بن جاتی ہے جس کو نام سے موسوم نہیں کیا جاتا۔روح ایک سافٹ ویر کے مانند ہے جو ہارڈ ویر سے الگ وجود رکھتی ہے۔ ملحد ین ہرنادیدہ حقیقت کو جھٹلاتے ہیں جس کا وجود اپنے اندر کئی شہادتیں رکھتا ہے۔روح ذی شعور ہوتی ہے،ارادہ رکھتی ہے ،احساسات و جذبات رکھتی ہے، اخلاقی حس رکھتی ہے،شرم و حیا کا احساس رکھتی ہے۔ اگر انسان، مچھلی اوربندروں سے ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے انسان بنا ہے تو اس کے اندر اخلاقی حس اور شرم وحیا کے جذبات evolutionکے کس مرحلے میں عود کر آئے۔کس مرحلے میں تحقیق و ایجاد اور بولنے اور لکھنے کی جبلت پیدا ہوئی اوریہ حیوانِ ناطق دوسرےحیوانات سے یکسر ممیّز کس اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں ہوا ہے۔
اگر ایک انسان اپنے آ پ کواچانک ایک ہوائی جہاز میں پائے جہاں وہ بزنس کلاس کی سیٹ پر براجمان ہو اور خوبصورت ایر ہوسٹس اس کی ضیافت کے لیے مشروبات پیش کرے اور نہایت معزز مہمان کا پروٹوکول اس کو دیا جائے تو وہ ان سے لطف اندوز ہونے سے پہلے یہ سوال کرے گا کہ میں اس ہوائی جہاز میں کیوں ہوں اور یہ جہاز مجھے کہاں لے جارہا ہے؟ یہ کرہ ارض بھی ایک جہاز کے مانند ہے اور ہر ذی عقل انسان کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ کون ہے اور کس کے احسانات کی اس پر ہرآن بارش ہورہی ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟ اور اگر کوئی سنجیدگی سے ان سوالوں کے معقول جوابات دے تواس کو توجہ سے بات سنی چاہیے۔
ملحدین جب غیبی حقائق کا انکا رکرتے ہیں تو وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ انسان کو دی ہوئی فہم و شعور کی صلاحیت کو کھو کر حیوانات کی سطح پرنیچے آ چکے ہیں اس لیے کہ حیوانات کے اندریہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ علامتوں اور نشانیوں سے غیبی حقیقتوں کا ادراک کریں۔اگر کسی بلڈنگ میں اچانک آگ لگ جائے تو فائر الارم ہوگا۔الارم سن کر ہر ہوشمند انسان بلڈنگ سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا۔وہ یہ مطالبہ نہیں کرے گا کہ جب تک میں آگ کو نہ دیکھوں میں اس بلڈنگ سے نہیں نکلوں گا۔ ہاں اگر اس بلڈنگ میں کوئی بلی یا کتا ہوگا تو وہ اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک وہ آگ کو محسوس نہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بے شمار نشانیوں کو آفاق و انفس میں رکھدیا ہے تاکہ اسکے بندے اپنے خالق کو بغیردیکھے ان نشانیوں کو دیکھ کر اس کی حقیقت کو عقل و شعور کی سطح پر پائیں اورغیب پر ایمان لائیں۔
ملحدین کے الحاد کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہےکہ ان کی زندگی میں کوئی حادثہ ایسا پیش آتا ہے جس کے نتیجہ میں ان کے اندر شدّتِ غم trauma سے مایوسی depression کی کیفیت یا بغاوت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک مدرسے میں بے تحاشہ پٹائی نے بچے کے اندر دین سےبغاوت کےجذبات کو پیداکردیا۔ ایک بچے نے باپ کو اپنی ماں پر بے انتہا ظلم کرتے دیکھا اور اس نے یہ سوال کیا کہ اگر خدا ہے تو وہ ظالموں کو کیوں نہیں پکڑتا ۔
مسلمانوں میں الحاد کے بڑھنے کی اہم وجہ اسلامی تعلیمات کی کمی ہےبالخصوص قرآن کو پسِ پشت ڈالنا ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات نو جوانوں میں ذہن نشین کروائی جائیں۔ اسلام کے خلاف اٹھنےوالے اعتراضات کے مدلل جوابات نئی نسل کو بروقت فراہم ہوں۔ان کے اندر یہ یقینِ محکم پیدا کیا جائے کہ اسلام ہر مسئلے کا حل پیش کرتا ہے اور اخروی کامیابی کا بھی ضامن ہے۔ان کو یہ بتلایا جائےکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا دین ہے جو ساری کائنات کا خالق ہے جو انسان کی ہر ضرورت اور کمزوری کو جانتا ہے۔
***

 

***

 مسلمانوں میں الحاد کے بڑھنے کی اہم وجہ اسلامی تعلیمات کی کمی ہےبالخصوص قرآن کو پسِ پشت ڈالنا ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات نو جوانوں میں ذہن نشین کروائی جائیں۔ اسلام کے خلاف اٹھنےوالے اعتراضات کے مدلل جوابات نئی نسل کو بروقت فراہم ہوں۔ان کے اندر یہ یقینِ محکم پیدا کیا جائے کہ اسلام ہر مسئلے کا حل پیش کرتا ہے اور اخروی کامیابی کا بھی ضامن ہے۔ان کو یہ بتلایا جائےکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا دین ہے جو ساری کائنات کا خالق ہے جو انسان کی ہر ضرورت اور کمزوری کو جانتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022