خصوصی رپورٹ: دہلی کی فضائی آلودگی کے لیے کسان نہیں ریاستی اور مرکزی حکومتیں ذمہ دار ہیں

دلی میں 200 سے زیادہ پولیوشن سنٹروں میں سے بیشتر ناکارہ، بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے لیے عالمی بنک کے فنڈ کا استعمال کیوں نہیں ہوا۔ آلودگی سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان۔ افروز عالم ساحل کی دعوت نیوز کے لیےخصوصی رپورٹ۔

افروز عالم ساحل

دہلی اور قومی راجدھانی کے علاقے میں فضائی آلودگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال فضائی آلودگی اکتوبراور نومبر کے مہینوں میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ دہلی کے عوام اسی زہریلی فضا میں گھٹ گھٹ کر جینے کو مجبور ہوتے ہیں۔ ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے بعض عارضی فیصلے کیے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں بعد کہانی وہیں پہنچ جاتی ہے۔ یہ صورت حال اب ملک کے بیشتر حصوں کی ہے۔ لیکن اس زہریلے ماحول میں سیاست دیکھیےکہ مرکزی و ریاستی حکومتیں اس کا حل نکالنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال جہاں اس کے لیے مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ اس نے پرالی جلانے والے کسانوں کے لیے کچھ نہیں کیا، وہیں بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کیجریوال اپنی ناکامی کا ٹھیکرا کسانوں کے سر پر پھوڑ رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کے لیے صرف اور صرف دہلی حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ بی جے پی لیڈر ونیت اگروال شاردا نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بیان بھی دے ڈالا کہ فضائی آلودگی کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرالی جلانے سے ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔

الٹے سیدھے بیانوں کی اس فضا میں، سپریم کورٹ نے ایک بار پھر مرکزی و ریاستی حکومتوں کو پھٹکار لگائی ہے۔ عدالت عظمی نے کہا کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، اس کے بعد بھی کیا آپ کو شرم نہیں آرہی ہے؟

جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں پرالی جلائے جانے کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ ہر سال آمرانہ طریقے سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ اپنا فرض نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس سال بھی پرالی جلائی گئی، حکومت پہلے سے تیار کیوں نہیں تھی اور کسانوں کو مشینیں کیوں نہیں دی گئیں؟ بہتر بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے لیے عالمی بینک سے آنے والے فنڈ کا کیا ہو رہا ہے؟ اسمارٹ سٹی کا نظریہ کہاں ہے؟ سڑکوں کو بہتر کیوں نہیں بنایا گیا؟

واضح رہے سپریم کورٹ گذشتہ سال بھی مرکزی حکومت کو پھٹکار لگا چکی ہے۔ گذشتہ سال ہی عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ دہلی کے زیادہ تر پولیوشن کنٹرول سنٹر یا تو کام نہیں کر رہے ہیں یا بند ہونے والے ہیں۔ پھر آپ فضائی آلودگی پر کنٹرول کس طرح کر رہے ہیں؟ ملحوظ رہے کہ راجدھانی دہلی میں 200پولیوشن کنٹرول سنٹر ہیں، جن میں بیشتر کام نہیں کر رہے ہیں۔

فضائی آلودگی پر کئی برسوں سے کام کر رہی تنظیم گرین پیس کے سنیل دہیانے دعوت نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں فضائی آلودگی پورے سال رہتی ہے۔ لیکن چونکہ اکتوبر-نومبر میں ماحولیات میں تبدیلی آتی ہے، ٹھنڈ بڑھنے سے فضا میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے، اس وجہ سے آلودگی والے ذرات اوپر نہیں اٹھ پاتے ۔

پرالی جلانے سے دہلی کی فضا پر کیا اثر پڑتا ہے؟ یہ پوچھنے پر سنیل بتاتے ہیں کہ فرق تو پڑتا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا دہلی حکومت یا میڈیا بتاتی ہے۔ کسان پرالی کوئی شوق سے نہیں جلاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسان پرالی جلانے سے ہونے والے نقصان کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ وہ بھی اپنے اور اپنے خاندان کی صحت کے لیے فکرمند ہیں اور اس مسئلے سے نجات پانا چاہتے ہیں، لیکن حکومتیں اس کے لیے کوئی حل نہیں نکال پا رہی ہیں۔

سنیل کے مطابق کھیت میں آگ تو صرف پندرہ دن کےلیے لگائی جاتی ہے جبکہ تھرمل پاور پلانٹ، ریئل اسٹیٹ کنسٹرکشن، گاڑیوں اور صنعتی پلانٹ سے نکلنے والی آلودگی پورے سال ملک کی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں۔ سرکار کو اس جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔

وہیں ماحولیات پر کام کرنے والے اویناش کمار کا کہنا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے کھیتی والے علاقوں کے ہم نے کئی دورے کیے ہیں۔ پرالی کو قدرتی طریقے سے نمٹا پانا بے حد خرچے کا کام ہے۔ جو کام پچاس پیسے کی ماچس سے ہو سکتا ہے اس کے لیے پانچ ہزار فی ایکڑ خرچ کسی کو راس نہیں آئےگا، وہ بھی تب جب کھیتی مستقل  گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہو۔

غورطلب ہے کہ 2015 میں این جی ٹی کے ایک حکم کے بعد پنجاب اور ہریانہ حکومت نے کسانوں کو پرالی کو کھیت میں ہی سڑانے یا اسے الگ کرنے والی مشینیں مہیا کرائے جانے کی بات کہی تھی۔ دو ایکڑ سے کم زمین والے کسانوں کو یہ سہولت مفت میں دینے کی بات کی گئی تھی، لیکن دونوں ہی سرکاروں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔

مرکزی حکومت فضائی آلودگی کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ نیشنل کلین ائیر پروگرام، جس کوشروع کرنے کی آخری تاریخ پہلے 5 جون، پھر 15 اگست 2018 طے کی گئی تھی، اسے شروع کرنے کا اعلان 10 جنوری 2019 کو کیا گیا، اور اس بات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ اس کے تحت کیا اور کتنا کام ہوا۔