شمالی ہند میں حقیقی مسائل کے بجائے جذباتی موضوعات انتخابی مہم پر حاوی

بی جے پی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر میں مصروف تو انڈیا اتحاد کی انتخابی مہم ابھی بھی زمینی!

عرفان الٰہی ندوی

بھارتی تھانوں میں جب پولیس اہلکار ہی غیر محفوظ ہوں تو پھر عوام کی حفاظت کون کرے گا ؟
شمالی ہند میں سیاسی ماحول تیزی سے بدل رہا ہے۔ رمضان اور عید کے بعد ہندوؤں کا مقدس تہوار نوراتری منایا جا رہا ہے۔ اس میں روزوں کی طرح ہی برت رکھے جاتے ہیں لیکن اناج اور نمک کے علاوہ پھل و دیگر اشیاء خوردنی استعمال کر سکتے ہیں۔ رام نومی کی سب سے بڑی تقریب ایودھیا میں منائی جا رہی ہے۔ رام نومی کو رام چندر جی کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی اپنے حامیوں کو خاص پیغام دے سکتے ہیں کیونکہ 19 اپریل کو پارلیمانی انتخابات کے لیے پہلے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ تمام سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ دلی کا اقتدار یو پی اور بہار میں کامیابی کے بغیر ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس کو بخوبی سمجھتے ہیں اسی لیے وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں ترقی اور عوام کے بنیادی مسائل کے بجائے جذباتی مسائل پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ غریب کی روزی روٹی کی جگہ بہار کے نوجوان اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کی تھالی پر سیاست ہو رہی ہے۔ تیجسوی یادو نے نوراتری کے پہلے دن اپنا ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں جاری کیا جس میں وہ مچھلی کھاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی آئی ٹی سیل نے اسے سناتن دھرم کی بے حرمتی قرار دیتے ہوئے تیجسوی یادو کو ٹرول کرنا شروع کیا تو انہوں نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو نوراتری سے پہلے مچھلی کھانے کی ہے اور میں تو بی جے پی والوں کا آئی کیو ٹیسٹ لے رہا تھا اس کے باوجود یہ موضوع ختم نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے ’انڈیا اتحاد‘ کی ذہنیت سے جوڑتے ہوئے سیاسی کارڈ کھیل دیا ۔
امریکہ میں مقیم تجربہ کار صحافی اور پروفیسر دلیپ منڈل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایکس ہینڈل پر ٹویٹ کیا ’بھارت میں شاکھا ہاریوں کا آتنک واد ہے، ان کی اکثریت نہیں ہے، پر دادا گیری چل رہی ہے، گوشت خور دگنے ہیں پر شریف ہیں، برداشت کر لیتے ہیں‘‘
دراصل این ڈی اے نے اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں 400 پار کا جو ہدف رکھا ہے سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ کافی مشکل ہے۔ ان کے مطابق پنجاب اور ہریانہ کے کسان ابھی بھی دلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے احتجاج پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ راجپوت اور ٹھاکر گجرات راجستھان سے لے کر مغربی یو پی تک بی جے پی کی مخالفت کر رہے ہیں، حالانکہ یو پی کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ، ٹھاکر ہونے کے ناطے اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن ٹھاکروں کے سماجی کارکن اسے اپنے مان سمان کی لڑائی قرار دیتے ہوئے ووٹ کی چوٹ لگانے پر بضد ہیں۔ مغربی یو پی کے انتخابی اعداد و شمار پر گہری نظر رکھنے والے تجربہ کار صحافی آس محمد کیف کا تجزیہ ہے کہ پہلے مرحلے میں این ڈی اے کو امید سے کم کامیابی ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ راجپوت فیکٹر بہت اہم ہے، اگر ووٹنگ سے پہلے ان کی ناراضگی دور نہ ہوئی تو کئی سیٹوں کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔ راجستھان کے ضلع بوندی میں کرنی سینا نے باقاعدہ حلف لے کر بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی قسم کھائی ہے۔ اسی طرح ہریانہ کے سرسا میں بی جے پی امیدوار کو مقامی ووٹوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی لوگوں نے کاروں کے قافلے کو دوڑا کر بھگا دیا۔ مغربی یو پی میں بی جے پی لیڈر سنجیو والیان کے قافلے پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔
این ڈی اے کی جانب سے دھواں دار تشہیری مہم چل رہی ہے۔ اپوزیشن انڈیا اتحاد کی انتخابی مہم کہیں نہیں دکھائی دے رہی ہے اس کے باوجود ذات برادری میں پھنسے اس الیکشن کے نتائج چونکا دینے والے ہو سکتے ہیں۔
پورو آنچل کے شیر اور مافیا ڈان جیسے القاب سے یاد کیے جانے والے مختار انصاری کی جیل میں مشتبہ موت کی جانچ شروع ہو گئی ہے۔ اسی درمیان جیل میں بند مختار انصاری کے بڑے بیٹے عباس انصاری کو سپریم کورٹ نے راحت دی ہے۔ عباس کو اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے دو دن کی عارضی ضمانت کے بعد کاس گنج سے غازی پور جیل لے جایا گیا اور وہاں سے سخت سیکیورٹی انتظامات کے درمیان ان کے آبائی قبرستان لے جایا گیا۔ اس دوران عباس انصاری نے اپنے گھر والوں سے مختصر ملاقات بھی کی۔ ملاقات کے بعد جیل واپسی پر ان کے بیٹے کا جذباتی ہونا سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مختار انصاری کی مشتبہ موت پورو آنچل کی کئی پارلیمانی سیٹوں کو متاثر کر سکتی ہے ۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ نے یو پی میں عآپ امیدوار کھڑے نہ کرنے کا اعلان کر کے انڈیا گٹھ بندھن کو طاقت بخشی ہے۔ سنجے سنگھ نے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو سے ملاقات کے بعد دہلی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا۔ عآپ کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کو دہلی میں صدر راج نافذ ہونے کا اندیشہ ہے۔ عآپ لیڈر آتشی نے پریس کے سامنے دلائل کے ساتھ اس اندیشے کا اظہار کیا ہے۔ عآپ دہلی کے ساتھ پنجاب پر توجہ دے رہی ہے اسی لیے یو پی میں نیا محاذ کھولنے سے کنارہ کش ہوگئی ہے ۔
یو پی میں سماج وادی پارٹی نے اپنا انتخابی منشور جاری کر دیا ہے۔ پارٹی نے کسانوں کے ساتھ نوجوانوں اور خواتین سے کئی وعدے کیے ہیں۔ ان میں انسانوں کا قرض معاف کرنا نوجوانوں کو روزگار دینا اور خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن کے ساتھ مفت تعلیم کا وعدہ شامل ہے۔ سماج وادی پارٹی نے سرکاری ملازمین کی پرانی پینشین بحالی کا بھی وعدہ کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں انڈیا گٹھ بندھن کی حلیف جماعتیں آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتر چکی ہیں۔ بی جے پی دفعہ 370ے خاتمہ کو اپنی کامیابی بتا کر پیش کر رہی ہے جبکہ دیگر جماعتیں ریاست کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ لداخ میں ماحولیاتی کارکن و سماجی جہد کار سونم وانگ چک کا 21 دنوں تک چلنے والا احتجاجی دھرنا مطالبات پورے ہوئے بغیر ہی ختم ہو گیا ہے۔ تاہم، انتخابات میں اس کا کیا اثر ہوگا یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔
آسام کے وزیر اعلیٰ عام انتخابات کو ہندو بنام مسلمان بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کانگریس کے انتخابی منشور کو پاکستان سے جوڑ کر اپنے ارادے ظاہر کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کانگریس کا منشور بھارت نہیں پاکستان کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ کانگریس کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی ان کے انتخابی منشور سے گھبرا گئی ہے اس لیے کبھی مسلم لیگ تو کبھی پاکستان سے جوڑ رہی ہے۔
یو پی کے ضلع سیتا پور سے ایک چونکا دینے والی خبر آئی ہے۔ مچھرہٹا تھانے کے داروغہ نے تھانے کے احاطے میں ہی گولی مار کر خودکشی کر لی ہے۔ داروغہ کے اہل خانہ نے تھانے دار پر ناجائز وصولی کا دباؤ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق تھانے دار ہی داروغہ کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اسی ضلع کے رام کوٹ تھانے کی ایک خاتون سپاہی نے بھی تھانے دار پر رشوت مانگنے اور استحصال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان دو واقعات کے بعد لوگ سوال کر رہے ہیں کہ جب پولیس تھانوں میں اس کے ملازم ہی محفوظ نہیں ہیں تو عوام کی حفاظت کون کرے گا؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال آئندہ ہفتے پھر ملیں گے، کچھ دلچسپ اور تازہ حال احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024