شُموع النھار: الحاد جدید کے محاکمہ پر ایک مفید کتاب

نام کتاب : شُموع النھار
( إطلالۃٌ علی الجدل الدینی الإلحادی المعاصر فی مسألۃ الوجود الإلٰھی)
مصنف : عبد اللہ بن صالح العجیری
ناشر: تکوین للدراسات والأبحاث
صفحات: 288
مبصر:محمد صادر ندوی (رفیق ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ)

جدید الحاد(New Atheism) اس وقت کا ایک سلگتا ہوا موضوع ہے۔اس میں یہ نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سائنسی بنیاد پر کائنات کی توجیہ ممکن ہے، اس لیے کسی خالق یا خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جدید الحاد کے فروغ میں جن مفکرین کا سب سے نمایاں کردار ہے، ان میں رچرڈ ڈاکنز(پ:1941)، ڈینئل ڈینٹ(پ:1942)، سیم ہیرس (پ:1967) اور کرسٹوفر ہیچنز (پ:1949) کا نام لیا جاتا ہے۔ان چاروں نے اپنے اپنے میدان میں الحاد کوجدید سائنسی بنیادیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔کتابوں اور مضامین کی اشاعت کے ساتھ سمیناروں، کانفرنسوں اور بحث و مباحثوں کے ذریعے ان افکار ونظریات کی اشاعت کا کام جاری ہے۔
اس نظریہ کی تنقید اور محاکمہ پر جن مسلم مفکرین و دانش وران نے قلم اٹھایا ہے، ان میں ایک نام عبد اللہ بن صالح عجیری (پ1976ء)کا ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے زیر تعارف کتاب کے علاوہ دو اور اہم کتابیں ’’ینبوع الغوایۃ الفکریۃ (فکری گمراہی کا سرچشمہ) اور ’’ملیشیا الإلحاد‘‘ (الحاد کی فوج) تصنیف کی ہیں۔زیر نظر کتاب میں انہوں نے الحاد جدید کی بنیادوں پر تنقید کرتے ہوئے خدا کے وجود کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔کتاب کا عنوان ’’ شموع النھار‘‘(دن کی روشنی) اس بات کی علامت ہے کہ جس طرح دن کی روشنی خود اس کے وجود پر دلیل ہے، اس کو اپنے ثبوت میں کسی برہان کی ضرورت نہیں ہوتی، خدا کا وجود اس سے بھی کہیں زیادہ واضح ہے۔ اس کتاب میں مصنف محترم نے دو طرح کے دلائل سے وجود باری تعالیٰ پر استدلال کیا ہے:1۔فطری دلائل 2۔ عقلی دلائل
فطری دلائل سے ان کی مراد یہ ہے کہ انسان کی سرشت میں ایسا مادہ موجود ہے کہ اگر شعور کے بعد اس کے ذہن کو مسموم نہ کیا جائے تو وہ خود بہ خود وجود باری کا اقرار کرنے لگے۔حدیث باری ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ ‘‘ میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید بار بار انسان کی اس فطرت کو آشکار کرتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ تم کسی مشکل میں گِھر جاتے ہو تو اس وقت غیر شعوری طور پر اسی ایک قادر مطلق ہستی کا تصور تمہارے ذہن میں آتا ہے اورتم اسی سے نجات کی امید رکھتے ہو، جیساکہ خود قرآن نے اس مسئلے کو واضح کیا ہے:وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ۔مثل مشہور ہے کہ : There are no atheists in foxholes
(مشکل کی گھڑی میں کوئی ملحد نہیں رہتا)
فطری دلائل کے ضمن میں صاحب کتاب نے یہ واضح کیا ہے کہ انسانی تاریخ اور تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین ہمیشہ سے انسانی زندگی کا سب سے اہم موضوع رہا ہے۔ یہاں تک کہ جدید دو رمیں Neuroscience کی ایک اہم شق Neurotheology کی شکل میں وجود میں آئی ہے، جس میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا انسانی ذہن اور خدا پرستی کے درمیان کوئی biological رشتہ ہے۔اگرچہ کسی بحث میں یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ انسان کے حیاتیاتی ڈھانچہ میں خدا پرستی موجود ہے؛ لیکن ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خدا پرستی کا رجحان کہاں سے آیا، اس کا منبع کیا ہے؟ اس پر بات کرنے کے بجائے ملحدین اس رجحان کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔چنانچہ رچرڈ ڈاکنز نے یہ تاویل پیش کی کہ بچہ کے اندر خدا پرستی اور ایمان والدین کی تمام باتوں کی تصدیق کا نتیجہ ہوتا ہے، بچہ جب ہر بات میں والدین کی تصدیق کرتا ہے تو بہت سی مصیبتوں سے بچ جاتا ہے۔ اسی اندھی تصدیق کے نتیجے میں ایمان کا وائرس بھی اس کے ذہن ودماغ میں بھر دیا جاتا ہے۔ اس تاویل پر ایک مرتبہ ڈاکنز سے یہ سوال کیا گیا کہ بچے کو بڑا ہونے کے بعد یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ Santa claus (سانتا) جس کی کہانی اس کو بچپن میں سنائی جاتی تھی، وہ محض ایک خیالی کردار ہے، جب کہ اللہ پر اس کا ایمان اس وقت بھی باقی رہتا ہے جس طرح بچپن میں تھا؟ ڈاکنز اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکا۔
مصنف نے فطری دلائل کی بحث میں مزید پانچ طریقوں سے خدا کے وجود کے اثبات پر دلیل دی ہے:
1۔ کچھ علوم ایسے ہوتے ہیں جنہیں بدیہی معقولات کہا جاتا ہے، ان علوم کو بنیاد بناکر دوسرے نظریات قائم کیے جاتے ہیں، لیکن خود ان علوم ومعارف کو ثابت کرنے کے لیے دلائل نہیں دیے جا سکتے، بلکہ وہ اپنے آپ میں ہی دلیل ہوتے ہیں۔خدا کے وجود کا علم ان بدیہی علوم میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یا ان علوم کی اساس ہے۔
2۔ انسانی فطرت میں اخلاقیات کا وہ رجحان جس کی بنیاد پر وہ خیر وشر کے درمیان تمیز کرتا ہے، وہ بھی وجود باری تعالٰی کی دلیل ہے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بغیر ان اخلاقی قدروں کا وجود ناممکن ہے، اگر یہ قدریں موجود ہیں تو ان قدروں کا الہام کرنے والا بھی موجود ہونا چاہیے۔ اور اگر ان جیسی قدروں کا وجود سرے سے ہے ہی نہیں تو پھر انسان کے بارے میں اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ ہمارے پاس کوئی پیمانہ بچتا ہی نہیں جس کو بنیاد بناکر اچھا یا برا کہا جا سکے۔ Sam Harry نے اپنی کتاب the moral landscape میں اس مسئلہ کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ نظریہ دیا کہ ہر وہ چیز اچھے اخلاق کے دائرہ میں جو انسانی زندگی کے فائدہ بخش ہو؛ لیکن سوال یہاں بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ انسانی زندگی کے لیے فائدہ بخش ہونا ہی اچھے اخلاق کا معیار ہے؟ ظاہر سی بات ہے یہ محض ایک ذہنی پیداوار ہے، اس کے پیچھے کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔ڈاکنز نے اس کو سماج اور فرد کے حوالے کر دیا کہ اس سلسلے میں معیار انہی کو مانا جائے گا۔ لیکن وہ بھی اس مسئلہ سے نجات نہ پا سکا کہ ہٹلر کے عمل کو اگر غلط کہا جائے تو کس بنیاد پر ۔اس کو صحیح بھی تو مانا جا سکتا ہے، کیوں کہ ہمارے پاس کوئی خدائی معیار ہے ہی نہیں، جس کو بنیاد بناکر اس کو غلط کہا جائے؟
3۔ فطرت میں محبت وشفقت کے جو جذبات پائے جاتے ہیں، ڈارونزم اس کو Selfish gene سے تعبیر کرتی ہے۔یعنی کائنات کی ہر چیز اپنے وجود (یا کائناتی وجود) کو باقی رکھنے کے لیے مختلف وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ بچہ سے ماں کی محبت، پرندوں کا وقت پر گھونسلے سے باہر نکلنا اور وقت پر اپنے ٹھکانے واپس آجانا ، یہ سب اسی نظام کے تحت ہو رہا ہے۔ ڈارونزم نے اگرچہ یہ توجیہ پیش کر دی ہے کہ یہ جذبات کیوں پیدا ہوتے ہیں، لیکن کہاں سے آتے ہیں، ان کا وجود کب ہوا، اس کی تشکیل کیسے ہوئی، اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔جب کہ قرآن اس سلسلے میں بھی واضح نقطۂ نظر پیش کرتا ہے کہ ان تمام جذبات کو ودیعت کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
4۔ مقصدیت کا شعور بھی وجود خالق کی دلیل ہے۔اسی شعور کے نتیجے میں میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، میں یہاں کیوں ہوں اور میرا انجام کیا ہے؟ جیسے سوالات جنم لیتے ہیں۔ انہی فطری سوالات کی وجہ سے انسان دیگر حیوانات سے ممتاز ہے۔
5۔ آزادانہ ارادہ کا شعور ۔ یہ بھی وجود خالق کی ایک دلیل ہے، کیوں کہ اگر انسان کے اختیاری افعال محض بائیوکیمیکل رد عمل کی پیداوار ہیں ، جیسا کہ ملحدین کہتے ہیں تو پھر انسان کے خود مختار اور آزادانہ ارادہ کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی۔
فطری دلائل کی مختلف قسموں کو پیش کرنے کے بعد صاحب کتاب نے عقلی دلائل کی بحث شروع کی ہے ۔ اس میں دو طرح کے دلائل ہیں:
1۔ خلق وایجاد : یعنی کائنات کا پیدا کیا جانا۔ یعنی کائنات کا ایک آغاز ہے، جس کا کوئی آغاز ہو ، وہ حادث ہے، حادث کے لیے کسی سبب کا پایا جانا ضروری ہے۔ اور وہ سبب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
لیکن ملحدین اس دلیل کو نہیں مانتے ہیں، چنانچہ David hume نے اپنی کتاب A Treatise of Human Nature میں یہی دکھایا ہے کہ یہ بات امکان کے درجہ میں ہے کہ سبب کے بغیر کسی وجود کا تصور کیا جا سکتا ہے۔وہ اس طرح کہ سبب اور اثر یعنی مسبب دو جدا چیزیں ہیں، جس طرح ذہن میں کسی سبب کا تصور کیے بغیر ایک اثر کا خیال لایا جا سکتا ہے، اسی طرح یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ کوئی چیز بغیر سبب کے وجود میں آسکتی ہے۔ جب ذہنی طور پر ان دونوں فکر کو الگ مانا جا سکتا ہے تو پھر خارجی دنیا میں بھی یہ دونوں جدا ہو سکتے ہیں۔
مصنف نے اس کا یہ جوا ب دیا ہے کہ عقل کے تصور کا دائرہ خارجی دنیا کے مقابلہ میں بہت زیادہ وسیع ہے، اس لیے یہ گمان کرنا کہ جو چیز بھی عقل کے احاطہ میں آتی ہے اس کا خارجی دنیا میں تحقق بھی ہو یہ کسی طرح درست نہیں۔ایک اور مفکر بروس ریکنباک نے بھی ڈیوڈ کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ محض ذہنی طور پر دو چیزوں کے درمیان فرق ممکن ہونے کی وجہ سے وہ لازم وملزوم نہیں رہتے ، تو پھر اس کی مثال ایسے ہی ہوگی کہ ایک پیالہ جس میں ایک جانب سے گہرائی محسوس ہو اور دوسری جانب سے اس میں ارتفاع ہو، اس دو مختلف تصور کی وجہ سے اس کے باہمی رشتہ کو معدوم سمجھا جائے اور یہ دعویٰ کیا جائے کہ دونوں لازم وملزوم نہیں ہیں؟
اسی طرح کائنات کا کوئی آغاز ہے، اس پر بھی ملحدین کا اعتراض ہے۔وہ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ کائنات اصلاً ایک ازلی اور مستقر حالت میں ہے۔ اس کا کوئی آغاز نہیں، البتہ اگر بگ بنگ کے تصور کو مان بھی لیا جائے تب بھی اس کے مستقر حالت میں ہونے کی نفی نہیں ہوتی، کیوں کہ دھماکہ مطلق آغاز نہیں ہے ، بلکہ بگ بنگ محض پہلے سے موجود مادہ کا دھماکہ ہے، جس کے نتیجے میں کائنات میں امتداد کا عمل شروع ہوا۔مادہ اور اس میں موجود طاقت ازلی ہیں، اس کو Eternal inflation تھیوری کہا جاتا ہے۔بگ بنگ کی ایک توجیہ یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ کائنات پھیلتی اور سمٹتی رہے گی، بگ بنگ کے بعد امتداد کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، ایک مرحلہ پر جاکر سمٹنا شروع ہوجائے گا اور سمٹنے کے بعد پھر سے امتداد کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا ازلی ہونا بھی باقی رہ جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو oscillating universe model کا نام دیا گیا ہے۔ حالاں کہ بگ بنگ کے نظریہ ہی میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ گیلیکسیز کی عمر اگر چہ بہت پرانی ہے، لیکن قدیم نہیں ہے۔اس سے کائنات کی ابتدا ثابت ہوتی ہے۔
خدا کو کس نے پیدا کیا؟
ملحدین کی طرف سے ایک بڑا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اللہ موجود ہے تو پھر اس کو کس نے پیدا کیا؟
مصنف نے جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سوال ہی غلط ہے، کیوں کہ ہمارا دعویٰ ہی نہیں ہے کہ ہر موجود کا موجد ہوتا ہے، بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ ہر حادث کا سبب ہوتا ہے۔ خدا حادث نہیں ہے، اس لیے اس کا سبب بھی نہیں ہوگا۔اس کی ذات واجب الوجود ہے، عقل اس کے وجود کے تصور کے علاوہ کچھ اور تصور کر ہی نہیں سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ خدا کی ذات کے بارے میں یہ سوال کہ اس کو کس نے پیدا کیا، سرے سے غلط ہے، جیسے کسی Triangle کے بارے میں پوچھا جائے کہ اس کا فورتھ اینگل کتنا لمبا ہے تو سوال ہی غلط ہوگا۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ ایک مر د کے بطن سے ایک بچی پیدا ہوئی ہے اس کا نام کیا رکھا جائے تو یہ سوال بھی غلط ہوگا ۔اسی طرح اللہ کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کو کس نے پیدا کیا ، دراصل یہ کہنا ہے کہ جس کا کوئی خالق نہیں اس کو کس نے پیدا کیا؟
اس کا ایک جواب فلسفیانہ انداز میں یہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر خدا کی ذات کو قدیم اور خالق نہ مانا جائے توپھر یہ مشکل پیش آئے گی کہ اس خالق کا بھی کوئی خالق ہونا چاہیے اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، ہر حادث کا ایک سبب تلاش کرنا ہوگا ۔ اور پھر یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا۔ جب تک کسی قائم بالذات ہستی کو تصور نہ کیا جائے، تب تک تسلسل باقی رہے گا، جو عقلاً محال ہے۔
2۔ منظم کائنات
اللہ تعالیٰ کے وجود کی دوسری عقلی دلیل کائنات کی حیرت انگیز تنظیم ہے۔اس چیز کا حوالہ خود قرآن کریم نے جگہ جگہ پر دیا ہے اور لوگو ں کو کھلی آنکھوں سے غور کرنے پر ابھاراگیا ہے۔مصنف نے اس طویل بحث میں متعدد فلاسفرز کے حوالے سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اس قدر منظم اور محکم کائنات کا وجود کسی خالق کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔مزید انھوں نے ملحدین کے 9 بڑے اعتراضات کو بھی نقل کیا ہے۔مثال کےطور پر ان کا کہنا ہے کہ کائنات کی حیرت ناک تنظیم محض نفسیاتی پروجیکشن سے زیادہ کچھ نہیں ہے، کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہن میں ایسا تصور پیدا ہوجاتا ہے، جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے۔اسی طرح بعض ملحدین کا یہ بھی خیال ہے کہ کائنات کے perfect ہونے کے بارے میں جتنا کہا جاتا ہے، اتنا وہ ہے نہیں۔اس طرح کے اور جتنے بھی بڑے اعتراضات ہیں، مصنف نے ان تمام کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے استدلال کی کمزوری کو واضح کیا ہے ۔
خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ الحاد جدید پر یہ کتاب علمی دنیا میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب کی بڑی خوبی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مصنف نے اساطین علوم اسلامیہ :امام ابن تیمیہ، ابن القیم اور ابن الغزالی کے علوم کو جدید پیرائے میں سمجھنے اور استفادے کی خوب کوشش کی ہے ۔ اسی طرح خود ان مغربی مفکرین کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا ہے، جنہوں نے رد الحاد پر کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کتاب کو قبولیت سے نوازے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024