صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
مسلمانوں کو مضبوط قوت ارادی اور صبر وحکمت کے ساتھ میدان عمل میں اترنے کی ضرورت
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
چند روز پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا جو دہلی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس کے بارے میں تھا۔ اس کانفرنس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال شریک تھے۔ میں نے دعوی کے ساتھ یہ تحریر کیا تھا کہ ہندوستان میں وہ پیغمبرانہ مشن جو تمام انبیاء کا مشن تھا اور جو رسول اکرم ﷺ کا مشن تھا ختم ہو گیا ہے۔ دنیا کے نقشہ پر ہندوستان شرک کا سب سے بڑا گڑھ ہے لیکن اس شرک کے خلاف اصلاحی تحریک ہندووں میں تو اٹھی لیکن مسلمانوں نے کبھی توحید کی تحریک شروع ہی نہیں کی، جبکہ ہر پیغمبر نے سب سے پہلے شرک کے خلاف اپنے مشن کا آغاز کیا، لوگوں کو بت پرستی سے روکا، پیغمبروں نے شرک اور بت پرستی کے سماج میں یہ آواز بلند کی کہ:
ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاو تو لو اس سے اپنی لگاو
جھکاو تو سر اس کے آگے جھکاو
ہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانے میں اپنی مشرک قوم کو یہی بات کہی، بتوں کو سجدہ کرنے سے منع کیا، توحید کی دعوت دی۔ اس پیغمرانہ مشن کا ذکر قرآن مجید میں جا بجا موجود ہے۔ یہ قرآن کا جلی عنوان ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے اور ان کے مصلحین نے مشرکوں اور کافروں کو یہ بات نہیں کہی۔ جہاں کہنی چاہیے تھی وہاں نہیں کہی، مشرکوں کے مجمع میں نہیں کہی شرک اور کفر کی برائی شرک کے بڑے بڑے قلعوں میں نہیں کی، مندر کے پجاریوں کے سامنے نہیں کہی نہ عوام میں کہی نہ خواص میں کہی، البتہ بدعت کی مخالفت میں مسلمانوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، رسالۃ التوحید لکھ کر مسلمانوں کو بدعات اور خرافات سے روکا، تبلیع کے بزرگوں نے مسلمانوں کو کلمہ سکھایا نماز کی تلقین کی لیکن قد آدم بلکہ فلک بوس پتھر کے بتوں کی عبادت سے اہل شرک کو بالکل نہیں روکا۔ معبودان باطل برسر عام پوجے جاتے رہے۔ چو راستوں پر نصب کیے جاتے رہے لیکن ہمارے علماء علمی اور تحقیقی کاموں میں مشغول رہے دینی کتابیں تصنیف کرتے رہے، قرآن کی تفسیر دس جلدوں میں لکھ دی، سیرت پر کتاب دس جلدوں میں لکھ دی بخاری اور مسلم کی شرح دس جلدوں میں لکھ دی لیکن بتوں کے آگے سر نیاز جھکانے والے دس انسانوں کو انہوں نے توحید کی دعوت نہیں دی، کسی کو پیغمبرانہ سنت اور عزیمت پر عمل کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی طرح کسی نے اپنی قوم کو یہ نہیں کہا: یَـٰقَوۡمِ ٱعۡبُدُوا۟ ٱللَهَ مَا لَكُم مِّنۡ إِلَـٰهٍ غَیۡرُهُۥۤ اے قوم ایک اللہ کی بندگی کرو اس کی سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح کسی نے اپنے والد آذر کو توحید کی دعوت نہیں دی اور نہ بت خانہ کے بت توڑے بلکہ زبان سے بھی ان کو تفہیم کی توفیق نہیں ملی۔ تمام انبیاء کی مشترک دعوت ایک تھی: وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیۤ إِلَیۡهِ أَنَّهُۥ لَاۤ إِلَـٰهَ إِلَّاۤ أَنَا۠ فَٱعۡبُدُونِ (ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو)۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے علماء نے نہیں کیا۔ بعض علماء نے مناظرے کیے لیکن مناظرہ اور شے ہے اور اسلام کی دعوت اور شے۔ ہمارے مصلحین نے مسلمانوں کی تربیت کی، لسان قوم کے مدرسے قائم کرنے کے بجائے لسان المسلمین کے مدرسے قائم کیے، لسان قوم کا ایک بھی مدرسہ پورے ملک میں قائم نہیں کیا، چنانچہ قوم کو دعوت لسان قوم میں نہیں دی جا سکی۔ اس کام کے لائق علماء ہی ان مدرسوں میں تیار نہیں ہوئے، صرف لسان المسلمین والے علماء تیار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو مسجدوں میں مسلمانوں کی زبان میں خطاب کیا ہمارے علماء اور مصلحین پیغمبرانہ مشن سے بہت دور رہے ۔جو اصل کام تھا وہ نہیں ہوا۔ خیر امت کا کردار انہوں نے ادا نہیں کیا۔ اخرجت للناس کے منصب پر ان کو فائز کیا گیا تھا مگر وہ اخرجت للمسلمین کے منصب پر بیٹھ گئے اور اپنی منصبی ذمہ داریوں سے گریز کیا
بغیر دل ہمہ نقش ونگار بے معنیست
ہمہ ورق کہ سیہ گشتہ مدعا ایں جاست
’’خطائے بزرگان گرفتن‘‘ ایک مجبوری ہے اس کے بغیر ہم مسلمانوں کو ان کی منصبی ذمہ داری یاد نہیں دلا سکتے ہیں۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسلام کی دعوت کیسے برپا کی جائے پیغمبرانہ مشن کو جو سیکڑوں سال سے ختم ہو چکا ہے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے۔ ’’خیر امت‘‘ کی گاڑی کو ’’اخرجت للناس‘‘ کی پٹری پر کیسے واپس لایا جائے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری کام منافرت کے ماحول کو ختم کرنا ہےفرقہ پرستی کے مزاج پر قابو پانا ہے، دل بدست آوری کے مشن کو لے کر کھڑا ہونا ہے، دلوں کو فتح کرنا ہے، محبت کی باد بہاری اور شفقت اور خدمت اور ہمدردی کی نسیم سحری سے اسلام کے لیے کشش پیدا کرنی ہے۔ اس حد تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں جب مسلمان زبان کھولتے ہیں لفظ لفظ میں قند گھولتے ہیں۔ سب مسلمان اخلاق کی تصویر ہر ایک شرافت میں بے نظیر۔ ہر مسلمان کردار کے اعتبار سے یکتائے زمانہ اور اوصاف حمیدہ میں فرد ویگانہ ہے۔ اس عام تاثر کے بغیر اسلام کی دعوت زندہ نہیں ہو سکتی ہے۔ کئی سو سال سے اسلام کی دعوت کا جھنڈا سرنگوں ہے پیغمبرانہ مشن کی گاڑی ’’ڈی ریلمنٹ‘‘ سے دو چار ہو گئی ہے اور انسانیت کا مستقبل خطرہ میں ہے، کیونکہ انسانیت کی نجات اسلام سے وابستہ ہے۔ لیکن دین اسلام کے فروغ کے لیے اور اس کی تعلیمات کو خاص وعام میں مقبول بنانے کے لیے خاص وعام سے رابطہ قائم کرنا ہوگا۔ سماجی رابطے استوار کرنے ہوں گے۔ اگر یہ رابطہ نہیں ہو گا تو اسلام کی اشاعت اور مقبولیت کا دروازہ کیسے کھلے گا؟ ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں سے غیر مسلموں کو مانوس کرنے کے لیے اور دعوت کے لیے ماحول سازگار بنانے کے لیے مولانا ابوالحسن علی ندوی نے پیام انسانیت کی تحریک شروع کی تھی۔ ہندوستان میں’’عقل خداداد‘‘ رکھنے والے علماء نہ پہلے اس تحریک کو سمجھ سکے نہ آج سمجھ سکے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا علی میاں کی حکمت اور ذہانت ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئی ہے۔
معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے رابطہ استوار کرنا سب سے زیادہ ضروری کام ہے اس کے بغیر دعوت کے تمام منصوبے قرطاس وقلم کی سرحد سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے اس کے لیے مسلمانوں کو مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اور صبر وحکمت عملی کے ساتھ میدان عمل میں اترنا ہو گا اور حسن اخلاق کا نقش دلوں پر قائم کرنا ہو گا۔ غیر مسلموں کے ساتھ میل ملاپ اور تعلقات اور خدمت کو زندگی کامشن بنانا ہو گا۔ ایک عام تاثر پیدا کرنا ہو گا کہ مسلمان جرائم پیشہ نہیں ہوتا ایمان دار ہوتا ہے، وہ خیانت نہیں کرتا وہ لوگوں کے دکھ سکھ میں کام آتا ہے۔ داعی گروہ کے بارے میں اس طرح کا اچھا تاثر پایا جانا ضروری ہے۔ حضور اکرم کو جب نبوت ملی تھی اور آپ غار حرا سے نیچے اتر کر آئے تو آپ پر لرزہ طاری تھا حضرت خدیجہ نے انہیں ڈھارس دی کہ آپ غریبوں کی مدد کرتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں مسافروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جس شخص میں یہ سب خوبیاں موجود ہوں اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ ہندستان میں خواجہ معین الدین چشتی اور ان کے خلفاء نے حق کا یہ پیغام ہندستان کے لوگوں کو سنایا تھا، توحید اور انسانی مساوات کا درس دیا تھا۔ دہلی میں جو سجادہ نشینوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی کاش یہ خواجہ معین الدین چشتی کے پیغام کو عام کرنے کے ارادے سے منعقد ہوئی ہوتی لیکن یہ کانفرنس ’’ڈیریلمنٹ‘‘ کا شکار ہو گئی اور ایک مسلم تنظیم پر پابندی عائد کرنے کی بات اس میں کہی گئی۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غیر مسلموں کی اکثریت بھی انسان دوست اور انصاف پسند ہے اگر ہم اکثریت سے الگ رہیں گے اور بیگانہ وشی کو اپنا وطیرہ بنائیں گے اور اپنے مسائل ان کے سامنے مدلل طریقہ سے نہیں پیش کریں گے تو فرقہ پرست عناصر ان کے ذہن کو مسموم کریں گے اور اسلام مخالف بنائیں گے۔ مسلمانوں کی غیر مسلموں سے دوری اور کنارہ کشی اور بیگانگی کے نتیجہ میں فرقہ پرستوں کو کامیابی بھی مل رہی ہے۔ مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق نہیں مل رہے ہیں، مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے، اگر مسلمانوں نے ہندو سماج سے دوری اسی طرح برقرار رکھی تو اس کا ان کو شدید نقصان پہنچے گا۔ کاش کہ مسلمانوں کی قیادت کو عقل و ہوش کی یہ باتیں سمجھ میں آجائیں۔ ہم مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے اور دین اسلام کے تعارف کے لیے حسن اخلاق اور حسن خدمت کے ہتھیاروں سے لیس ہونا ہو گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ دین اچھے اخلاق کا نام ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مسلمان حسن اخلاق سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے پر فضیلت حاصل کر لیتا ہے۔ اس لیے خسروے اقلیم دل بننے کے لیے شیریں زبان و سحر بیان ہونا اور بلند کردار و خوش اطوار ہونا ضروری ہے، اگر حسن اخلاق کے ساتھ مسلمان تعلیم یافتہ بھی ہو جائیں تو ساری خلق خدا بندہ بِے دام ہو جائے گی۔ ادائے دلبری کے ساتھ نوائے عاشقانہ کے ذریعہ اور حسن اخلاق کے ساتھ حسن کلام کے ذریعہ لوگوں کو اپنا حامی اور ہم خیال بنایا جا سکتا ہے، اسی سے تمام لوگوں کو ہمنوا، ہم فکر اور ہم مذہب بنایا جا سکتا ہے۔ دشمنوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ضروری ہے کہ ہماری باتوں میں جادو کا اثر ہو، ہماری گفتگو سلک گہر ہو۔ جو لوگ نفرت کی کھیتی کرنا چاہتے ہیں وہ شوق سے کریں، مسلمان تو بس محبت اور خیر سگالی کے پھول ہی کھلاتے رہیں گے۔ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر حرف قند ونبات، منہ سے نکلی ہوئی ہر بات آب حیات ہو۔ لیکن پھولوں کی حفاظت کے لیے قدرت نے کانٹے بھی پیدا کیے ہیں، ہم قدرت کی اس خاموش آواز کو بھی سنیں گے، زخم دینے والوں کے لیے، حملہ آوروں کے لیے خار زار اور باعث آزار بھی ہوں گے۔ ہمارے سینوں میں جذبہ شہادت بھی موجود ہونا چاہیے۔لیکن بحثیت مجموعی ہم شرافت اور محبت کے طرفدار رہیں گے، پیکر انسانیت بنے رہیں گے، نمونہ آدمیت بنے رہیں گے اور معاشرہ میں توحید کی اذان بھی دیتے رہیں گے۔ اخلاق وشرافت میں ہم چشموں میں سب سے ممتاز رہیں گے جیسے باغ میں گلاب کا پھول ہوتا ہے، جیسے تالاب میں کنول کھلتا ہے، جیسے ستاروں کی جھرمٹ میں چاند نکلتا ہے۔ خدمت اور حسن اخلاق کے میدان میں امتیاز کے ساتھ مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں بھی پیش رفت کرنی ہو گی اور برادران وطن کے سامنے دین توحید کا تعارف بھی کرانا ہو گا۔ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر فاتح زمانہ بننا ہے تو دلوں کو اسیر اور دماغ کو نخچیر بنانے کا ہنر سیکھنا ہو گا۔
وہ ادائے دلبری ہو یا نواے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
***
***
جو لوگ نفرت کی کھیتی کرنا چاہتے ہیں وہ شوق سے کریں، مسلمان تو بس محبت اور خیر سگالی کے پھول ہی کھلاتے رہیں گے۔ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر حرف قند ونبات، منہ سے نکلی ہوئی ہر بات آب حیات ہو۔ لیکن پھولوں کی حفاظت کے لیے قدرت نے کانٹے بھی پیدا کیے ہیں، ہم قدرت کی اس خاموش آواز کو بھی سنیں گے، زخم دینے والوں کے لیے، حملہ آوروں کے لیے خار زار اور باعث آزار بھی ہوں گے۔ ہمارے سینوں میں جذبہ شہادت بھی موجود ہونا چاہیے۔لیکن بحثیت مجموعی ہم شرافت اور محبت کے طرفدار رہیں گے، پیکر انسانیت بنے رہیں گے، نمونہ آدمیت بنے رہیں گے اور معاشرہ میں توحید کی اذان بھی دیتے رہیں گے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2022