صحیح آدمی کا انتخاب

شبیع الزماں، پونے

نااہلوں نے ہمیشہ قوم کا نقصان ہی کیا۔ تاریخ سے کچھ مثالیں
دنیا میں ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ قابل آدمیوں کی قدر دانی کا رہا ہے جس کے سبب اقوام و ملل نے بے انتہا نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر زمانے میں رہا ہے۔بارہا ایسا ہوا کہ قابل آدمیوں کے رہتے ہوئے ضمنی وجوہات کی بناء پر انہیں ذمہ داری نہیں دی گئی جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ اسے سمجھنے کے لیے تاریخ سے دو مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پہلی مثال شاہ خوارزم سلطان علاءالدین کی ہے جب اس نے چنگیز خان کے بھیجے ہوئے تاجروں کو قتل کر دیا تھا جن کا انتقام لینے کے لیے چنگیز خان نے جنگ کا فیصلہ کیا اور 1218 کے موسم بہار میں چنگیز کی فوج انتقام کے لیے نکل پڑٰی تھی۔ چنگیر خان سے ٹکرانے سے پہلے منگولوں کی ایک چھوٹی سی فوج سے سلطان کی جھڑپ ہوئی جس میں اسے شکست ہوئی اور وہ بمشکل جان بچا پایا۔ اب سلطان کے سامنے سوال یہ تھا کہ چنگیز سے کس طرح نمٹا جائے۔ اغلب یہ ہے کہ جلال الدین جو اس کا سب سے بڑا لڑکا تھا اور جسے ولی عہد تسلیم کیا جا چکا تھا، اگر اس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی تو مسلمان ڈٹ کر مقابلہ کرتے کیونکہ آدمیوں اور ساز و سامان کی کمی نہ تھی اور جلال الدین جوان مرد تھا۔ اس کی قیادت میں منگولوں کو ایسے انجان علاقوں میں جہاں کی زبان وہ نہیں سمجھتے تھے، چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے ذریعے انہیں خستہ حال کر کے اور ان کے وسائل کا راستہ بند کر کے کامیابی حاصل کی جاسکتی تھی۔ جلال الدین طاقت، جرات اور ابھرنے کی صلاحیتیں رکھتا تھا جن کا یہ بحران تقاضا کر رہا تھا۔ عوام اس کے وفادار تھے اور دفاعی فوج کے سردار کی حیثیت سے اس کے جھنڈے تلے جمع ہوجاتے۔ اپنے زمانے کے مسلم جنرلوں میں وہی ایک تھا جو منگولوں سے کبھی خائف نہیں ہوا اور ایک جنگ میں اس نے منگولوں کی شکست بھی دی تھی۔ اس کی بہادری سے چنگیز خان بھی حیرت زدہ رہ گیا تھا اور یہاں تک کہہ گیا کہ "ایک باپ کو ایسا ہی بیٹا ہونا چاہیے” اور منگولوں کو حکم دیا کہ اس پر تیر نہ چلائے۔
لیکن سلطان اور اس کے درباری جلال الدین کی لیڈرشپ اور شہرت سے خوف زدہ تھے اور اسے قیادت سے دور رکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ سلطان نے خود قیادت کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے درباریوں کے غلط مشورہ پر عمل کر کے وہ اقدام کر بیٹھا جس نے چنگیز خان کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ اس نے اپنی پانچ لاکھ کی فوج مختلف قلعوں اور شہروں تقسیم کردی اور انہیں قلعوں میں متعین کرکے کھلے ہوئے نخلستان، گاؤں، میدانی علاقے اور زرخیز دریا منگولوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے کھلے چھوڑ دیے۔ اس کے بعد یہ تاریخ کا ہی حصہ ہے کی ہندوکش پہاڑ کے دوسری طرف کی پوری مسلم دنیا کو چنگیز نے محاورۃ نہیں بلکہ حقیتا تہہ تیغ کر ڈالا۔
دوسرا واقعہ ہندوستان کی تاریخ کا ہے جب ایران کے مشہور فاتح نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔ مئی 1738 سے لے کر جنوری 1739 تک نادر شاہ نے غزنی، کابل، جلال آباد، پشاور، پنجاب اور لاہور فتح کر لیا تھا۔ امرائے سلطنت میں جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے تھے ان کی رائے یہ تھی کہ ملک میں اس وقت صرف نظام الملک ہی ایک جہاندیدہ، ماہر جنگ، تجربہ کار اور مدبر سیاست داں ہے جو اس وقت سلطنت کو بچا سکتا ہے لیکن سیاسی وجوہات کے سبب سے یہ فیصلہ نہیں لیا جا سکا۔ نادر شاہ کی ڈیڑھ لاکھ کی فوج کے مقابلے میں محمد شاہ کو دس لاکھ آدمیوں، زیادہ سامان جنگ، توپ خانہ اور ڈھیر سارے مال و اسباب کے باوجود ابتدائی شکستوں کے بعد دب کر صلح کرنی پڑی اور اس صلح کے ناکام ہونے کے بعد نادر شاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گھروں کو لوٹا، جلایا، مرودوں و عورتوں اور بچوں و بوڑھوں سب کو بلا کسی امتیاز و تفریق کے قتل کر دیا۔مدفون خزانوں کی تلاش میں گھروں کو کھود ڈالا گیا، عورتوں کے جسموں سے زیور اور کپڑے تک اتار لیے گئے۔ بہت سے لوگوں نے ذلت کے سبب خود کشی کر لی۔ اس کے علاوہ 15 کروڑ نقد، بیش قیمت ہیرے جواہرات جن کی قیمت کروڑوں میں تھی، شاہ جہاں کا تخت طاوس اور دوسرے نو مرصع تخت، تین سو ہاتھی، دس ہزار گھوڑے، دس ہزار اونٹ اور اس کے علاوہ ہر طرح کے قابل لوگ جیسے اکاؤنٹ میں مہارت رکھنے والے، انجینئرز، سنگ تراش اور مختلف صنعت کار اپنے ساتھ لے گیا۔ اس طرح کابل، غزنی، کشمیر، سندھ اور دیگر علاقوں پر بھی نادر شاہ کا قبضہ ہو گیا۔
نادر شاہ سے صلح کے معاملات طے کرنے لیے جب نظام المک کو وکیل مطلق کی حیثیت سے بھیجا گیا تب دوران گفتگو نادر شاہ ان کی ذہانت، تدبر اور شخصیت سے بہت متاثر ہوا اور پوچھا کہ "جب ہندوستان کے بادشاہ کے پاس تم جیسے امیر موجود ہوں تو کس طرح ننگے دھڑنگے مرہٹے دہلی کی دیواروں تک تاخت کرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور فدیہ وصول کرتے ہیں؟ نظام المک نے جواب دیا جب سے نئے امیروں کا اثر بڑھا ہے ظل سبحانی جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ میرے مشورے ان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتے۔ اسی لیے میں مایوس ہو کر دکن میں گوشہ گیر ہو گیا ہوں”
ہندوستان سے جاتے وقت نادر شاہ نے شاہ عالم کو پھر سے دہلی کا بادشاہ بنایا اور وصیت کی کہ ’’تمہارے ہاں صرف ایک شخص میں نے دیکھا ہے جو مدبر، جہاندیدہ اور حکمرانی کی قابلیتوں سے متصف ہے اور وہ نظام الملک ہے۔ مناسب یہ ہے کہ تم اس کو اپنا مشیر بناؤ اور اس کی رائے پر سب کام چھوڑ دو‘‘
ان تاریخی مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نتائج کے اعتبار سے افراد کا انتخاب کس درجے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ حالانکہ جدید منیجمنٹ میں اس نقطہ کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور باضابطہ ایک سبجیکٹ بنا کر مستقل طور پر ایک نظام ایسا بنایا گیا ہے جس میں قابل آدمی کے انتخاب کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ معاملہ صرف کمپنیوں تک محدود ہے سماج میں ابھی تک وہی پرانا مزاج پایا جاتا ہے اور اس کے برے نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
اوپر تاریخ سے مثالیں تو بڑی سطح کے انتظام کی دی گئی ہیں لیکن یہ اصول سبھی جگہ یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ پارٹیاں، تنظیمیں، ادارے، چھوٹے چھوٹے گروپس، پروفیشنل اور نان پروفیشنل سیٹ اپس، مختلف سطح کی این جی اوز اور حکومتی ادارے جہاں بھی قابل آدمیوں کو نظر انداز کر کے کم صلاحیت کے افراد کو آگے بڑھایا جائے گا اس کے خراب نتائج ہی بر آمد ہوں گے۔
حوالہ جات:
-1 جامع تاریخ ہند۔ محمد حبیب -خلیق احمد نظامی
-2 دکن کی سیاسی تاریخ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
***

 

***

 پارٹیاں، تنظیمیں، ادارے، چھوٹے چھوٹے گروپس، پروفیشنل اور نان پروفیشنل سیٹ اپس، مختلف سطح کی این جی اوز اور حکومتی ادارے جہاں بھی قابل آدمیوں کو نظر انداز کر کے کم صلاحیت کے افراد کو آگے بڑھایا جائے گا اس کے خراب نتائج ہی بر آمد ہوں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022