مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا کہ پیگاسس جاسوسی کے الزامات درست نہیں ہیں، لیکن ’’ماہرین‘‘ اس کی جانچ کریں گے

نئی دہلی، اگست 16: مرکزی حکومت نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ پیگاسس اسپائی ویئر کو بھارتی حکومت کے ذریعے کارکنوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کی نگرانی کے لیے استعمال کرنے کے الزامات کی جانچ ’’ماہرین کی ایک کمیٹی‘‘ کے ذریعے کی جائے گی۔

وزارت الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس ونیت سرن اور سوریہ کانت کی تین ججوں کی بنچ کے سامنے حلف نامہ داخل کیا۔ بنچ ان الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں کے ایک گروپ کی سماعت کر رہا ہے۔

تاہم مرکز نے اپنے حلف نامے میں ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو کے ذریعے 19 جولائی کو پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کو بھی ضم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں غیر قانونی نگرانی ممکن نہیں ہے۔ معلوم ہو کہ ویشنو خود سپائی ویئر کے ممکنہ اہداف کی فہرست میں شامل ہیں۔

سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، صحافی این رام، دی ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایشین کالج آف جرنلزم کی چیئرپرسن سشی کمار، راجیہ سبھا کے رکن جان برٹاس اور ایڈوکیٹ ایم ایل شرما نے سپریم کورٹ میں پیگاسس تنازعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواستیں دائر کی ہیں۔

صحافیوں پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا، پریم شنکر جھا، ایس این ایم عابدی، روپیش کمار سنگھ اور اپسا شتاکسی نے بھی، جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ پیگاسس اسپائی ویئر اہداف کی فہرست میں شامل ہیں، سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

5 اگست کو کیس کی پچھلی سماعت کے دوران عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ نگرانی کے الزامات، اگر درست ہیں، تو نہایت سنگین نوعیت کے ہیں۔

پیگاسس اسپائی ویئر کا مبینہ غلط استعمال اس ماہ کے اوائل میں سامنے آیا جب پیرس میں قائم غیر منافع بخش میڈیا ادارے فوبیڈن اسٹوریزاور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کی جس میں 50،000 سے زائد فون نمبر تھے جو ’’ان ممالک میں مرکوز تھے جو اپنے شہریوں کی نگرانی میں مصروف ہیں۔‘‘

بھارت میں اس اسپائی ویئر کے ممکنہ اہداف کی فہرست میں 40 سے زائد صحافی، دو مرکزی وزرا، کانگریس لیڈر راہل گاندھی، بھارت کے سابق الیکشن کمشنر اشوک لوسا اور سپریم کورٹ کا ایک سابق عملہ شامل ہے جس نے اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔

اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس کمپنی این ایس او گروپ کے ذریعہ دنیا بھر کی حکومتوں کو اس اسپائی ویئر کا لائسنس دیا گیا ہے۔ کمپنی کا اصرار ہے کہ وہ اپنے سافٹ وئیر کو صرف ’’معائنہ شدہ حکومتوں‘‘ کو اچھے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے ساتھ لائسنس دیتی ہے اور یہ کہ پیگاسس کا مقصد مجرموں کو نشانہ بنانا ہے۔

9 اگست کو وزارت دفاع نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ اس کا ’’این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز کے ساتھ کوئی لین دین نہیں ہوا ہے۔‘‘ اپوزیشن کے بار بار سوالات کا یہ حکومت کا پہلا براہ راست جواب تھا۔