پنجاب :تقسیم کے سانحے کے نشانات مٹانے کے لیے کوشاں

سکھ برادری کی جانب سے دکھوں کا مداوا ۔ نقصانات کے ازالے کے اقدامات

نور اللہ جاوید، کولکاتا

لاکھوں ہندو ۔ مسلم متاثرین کے لیے دعائیہ مجلس ۔ مساجد کی بحالی میں تعاون
ملک میں بڑھتی ہوئی منافرت کے درمیان سرحدی ریاست سے امن واخوت اور ہم آہنگی کا پیام
1956ء میں ہندوستان کے مشہور صحافی و مصنف خشونت سنگھ کی ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ شائع ہوئی تھی جس نے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس کتاب میں نہ صرف تقسیم کے المیے اور انسانی جانوں کے ضیاع کا ماتم کیا گیا ہے بلکہ مقامی آبادی کی حساسیت اور اس عہد کے مزاج اور رویے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوی گاوں منو منجارا کے ذریعہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت، کلچر، گنگا جمنی تہذیب اور تہذیبی رویے کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صرف ایک ملک کی تقسیم نہیں ہوئی بلکہ ہندوستانی تہذیب و تمدن اور گنگا جمنی تہذیب کی تباہی و بربادی ہوئی تھی۔ منو منجارا گاوں کی تباہی وبربادی یونہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے لیے ہر طرف کچھ طاقتوں نے منصوبہ بند طریقے سے نفرت کی آبیاری کی تھی۔ نفرت میں لوگ اس قدر اندھے ہو گئے تھے کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے اور ایک دوسرے کی جانوں کے درپے ہو گئے تھے۔ انہوں نے ایک دوسروں کی عبادت گاہوں اور یادگار عمارتوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔
خشونت سنگھ کی یہ کتاب ہند و پاک میں اس لیے مقبول ہوئی تھی کہ اس میں قتل و غارت گری کے لیے کسی ایک طبقے کو ملزم نہیں ٹھیرایا گیا تھا۔ خشونت سنگھ کے ناول کے خیالی گاؤں منو منجارا کے مسلم باشندوں سے جب کہا جاتا ہے کہ ملک تقسیم ہو چکا ہے لہٰذا مسلم آبادی کو کل رات پاکستان بھیجا جائے گا تو گاؤں کے مسلم باشندے برملا کہتے ہیں کہ ’ہمیں پاکستان سے کیا سروکار، ہم نے یہاں آنکھ کھولی ہے یہیں زندگی گزاری ہے اور یہیں کی مٹی میں دفن ہونا چاہتے ہیں۔ ناول کا ایک کردار مسلمانوں کی نقل مکانی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے ’’آزادی ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جدو جہد کی، ہم اب تک انگریزوں کے غلام تھے کل سے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں یا پھر تعلیم یافتہ پاکستانیوں کے غلام ہو جائیں گے‘‘ مگر ایک رات خوف ناک ٹرین منو منجارا کے اسٹیشن پر آکر رکتی ہے جس میں لاشیں ہی لاشیں ہوتی ہیں اس کے بعد منو منجارا کے گاؤں کا نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ پورا گاؤں تاخت و تاراج ہو جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے سانحے نے سکھ اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی جو دیوار کھڑی تھی اس نے دس لاکھ انسانی جانوں اور کروڑوں روپے کی جائیدادوں کو تباہ و برباد کردی تھا۔ عبادت گاہیں ویران کردی گئیں، خواتین کی عصمت دری اور بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔ تقسیم کے 75سال بعد بھی دونوں طرف تقسیم کے گہرے نشانات ہیں۔ مگر تباہی و بربادی سے سبق سیکھنے کے بجائے آج بھی نفرت کا کارو بار عروج پر ہے۔ پاکستان جو جمہوری اور معاشی ناکامی کے دہانے پر کھڑا ہے وہیں ہندوستان میں بھی نفرت کے سوداگروں نے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے ملک کو ایک بار پھر مذہبی تقسیم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، مذہبی بنیادوں پر ملک کی پالیسی بنائی جا رہی ہے اور ملک کی اقلیتیں اس وقت سب سے زیادہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں۔’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کے مصنف خشونت سنگھ کی زندگی کے آخری دنوں میں جبکہ بالخصوص 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد حالات بے حد خراب ہو گئے تھے، انہوں نے ’’The End Of India‘‘ نامی ایک کتاب لکھ کر اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر اسی طرح ملک کو مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا خواب ملک کے معماروں نے دیکھا تھا۔ ملک کے حالات اور خشونت سنگھ کی مایوسی اپنی جگہ مگر پنجاب، جس نے سب سے زیادہ نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری کا مشاہدہ کیا آج وہی پنجاب اور بالخصوص سکھ اس درد اور تقسیم کے نشانات کو مٹا کر خوش گوار یادوں کے ساتھ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو پیار و محبت کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔
75ویں یوم آزادای کے موقع پر پنجاب میں دس لاکھ افراد کے قتل اور تباہی و بربادی پر اظہار افسوس کے لیے ’’پچھتاوا دیوس‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سب سے بڑے سکھوں کے مذہبی مقام اکال تخت نے 16اگست کو کل مذاہب دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا ہے جس میں ان دس لاکھ افراد کی روحوں کے لیے دعا ئیں کی جائیں گی جن کی جانیں تقسیم ہند کے سانحے کی نذر ہو گئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پروگرام اور سکھوں کی یہ کوششیں سخت گرمی میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے مانند ہیں۔ پنجاب نفرت کی شدید لپیٹ میں مبتلا ہندی بیلٹ کو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو ایک روشنی دکھا رہا ہے کہ ماضی کے زخموں کو کرید کر مستقبل کی تعمیر نہیں کی جا سکتی بلکہ شاندار مستقبل کی تعمیر کے لیے ماضی کی غلطیوں کے درست تجزیے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
75ویں یوم آزادی پر پچھتاوا دیوس کا انعقاد
انڈین ایکسپریس نے دو دن قبل اکال تخت کے حوالے سے خبر شائع کی تھی کہ 1947ء میں پنجاب کے دونوں طرف دس لاکھ افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں، ان روحوں کی سلامتی کے لیے اکال تخت نے 16 اگست کو دعائیہ مجلس کا اہتمام کیا ہے۔ اس تقریب میں ہندو مسلم اور سکھوں کے مذہبی و سماجی رہنما شریک ہو رہے ہیں۔ اکال تخت کے کارکن پرم پال سنگھ کے مطابق اکال تخت نے دنیا بھر کے تمام گردواروں کو اس طرح کی دعائیہ مجالس کے انعقاد کی ہدایت دی ہے جس میں تقسیم کے دوران مارے گئے لوگوں کے لیے دعا کی جائے گی۔ اختتامی تقریب 16 اگست کو اکال تخت میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس طرح کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب میں تقسیم اور فسادات کی تباہی و بربادی اور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے تدارک کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کیندریہ شری گورو سنگھ سبھا کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خوشحال سنگھ نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں پنجاب سب سے زیادہ قتل و غارت گری کا شکار ہوا ہے۔ ’’بلیڈنگ پنجاب وارنس‘‘ کی رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں طرف قتل و غارت کے اسباب اور طریقے کار الگ تھے۔لاہور کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں سکھ تاجروں اور مال دار طبقے کو قتل کیا گیا، اس کے انتقام کے طور پر پنجاب میں عام اور غریب مسلمان شہری قتل کیے گئے۔ پنڈت نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دور میں دھنونتری اور پی سی جوشی کی قیادت میں ’’بلیڈنگ پنجاب وارنس‘‘ رپورٹ مرتب کی گئی تھی مگر رپورٹ کی سفارشات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ڈاکٹر خوشحال سنگھ کہتے ہیں کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے گرودواروں کا استعمال کیا گیا۔گرودواروں سے مسلمانوں کے قتل کی اپیل کی جاتی تھیں جبکہ سکھ مذہب میں قتل و غارت گری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال سکھ مذہب کی تعلیمات کے برخلاف تھی۔ تقسیم کا سانحہ ہماری اجتماعی ضمیر پر بوجھ بن گیا ہے اگرچہ ہم اس کو پہلے اپنی فتح سے تعبیر کرتے تھے مگر اب ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ یہ فتح نہیں تھی بلکہ ہم نے اپنی ضمیروں کو شکست دی تھی۔ جسے ہم اب سرحدی علاقہ کہتے ہیں یہ تقسیم سے پہلے پنجاب کا سب سے خوشحال علاقہ تھا اور اب یہ سرحدی پٹی اسمگلنگ کے لیے بدنام ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات دونوں ممالک کے درمیان ہموار سرکاری تجارت کی اجازت نہیں دے رہے ہیں جس سے دونوں طرف کے پنجابی معاشی طور پر ایک بار پھر متاثر ہو رہے ہیں۔ مغربی پنجاب میں جہاں اردو پنجابی زبان پر قابض ہو چکی ہے وہیں مشرقی پنجاب میں ہندی کی اجارہ داری پنجابی کو خطرہ بنا رہی ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ان غلطیوں کا تدارک کیا جائے۔
‏سکھ اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات
مغل دور میں قتل و غارت گری، سکھوں کے مذہبی رہنماؤں کے بہیمانہ قتل کے واقعات کو الگ کر دیا جائے تو سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان گہرے تعلقات ہمیشہ سے رہے ہیں ۔مسلمانوں کے عقیدہ توحید کے سکھوں پر بہت ہی زیادہ اثرات رہے ہیں۔سکھوں کے مذہبی رہنماؤں نے مسلم مذہبی رہنماؤں کی تربیت میں روحانی منازل طے کیے ہیں۔ گرونانک اور بابا فرید کے تعلقات کی ایک مکمل تاریخ ہے۔ سکھوں کے مذہبی کتاب گروگرنتھ میں اللہ کا لفظ 57 مرتبہ لکھا گیا ہے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک (1469-1539) ہندو کھتری والدین کے یہاں پیدا ہوئے۔ لیکن گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے سینے پر جینو (مقدس دھاگہ) کو پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق کی سخت مخالفت کرتے ہوئے معاشرے میں انسانی بنیاد پر یکجہتی، صنفی امتیاز کے خاتمے اور سماجی مساوات کی تحریک شروع کی تھی۔ ان کی تحریک برہمن طبقے کے جبر اور حکمرانوں کے استحصال کے خلاف تھی۔ انہوں نے گرو گرنتھ کے صفحہ 353 پر لکھا ہے کہ ان کا مذہب سچے خدا پر یقین رکھتا ہے اور رسومات کی جگہ سچائی پر مبنی زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔شری گرو گرنتھ میں بابا شیخ فریدالدین کی تعلیمات کے مطابق نماز نہیں پڑھنے والے مسلمانوں کے تئیں ناراضگی ظاہر کی ہے۔صفحہ 1381 پر بابا شیخ فریدالدین کے حوالے سے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ’’ اے بے نمازی یہ زندگی کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ تم کبھی مسجد میں پانچ وقت کی نماز کے لیے نہیں آتے۔ اٹھو، وضو کرو (اپنا چہرہ، ہاتھ پاؤں دھو لو) اور صبح کی نماز پڑھو۔ جو سر، سائیں (اللہ) کے آگے نہ جھکتا ہو اسے کاٹ دو کیونکہ جو سر، سائیں کے
آگے نہ جھکے ایسے سر کا کیا فائدہ؟ اسے مٹی کے برتن کے نیچے لکڑی کی جگہ جلا دو‘‘۔ گرو گرنتھ میں کئی مقامات پر توحید کی تلقین کی گئی ہے۔ گرو گرنتھ کے تمہید میں خدا کے تصور کے بارے میں ایک سطری وضاحت درج ہے کہ ’’اک اومکار ست نام کرتا پورکھ نربھاؤ نراویر اکل مورت اجونی سائبھنگ گڑ پرساد‘‘۔ (خدا اکیلا ہے۔ وہ ہر چیز پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا نام سچا ہے۔ وہ تمام اعمال کا کرنے والا ہے۔ وہ بے خوف ہے، اس سے دشمنی نہیں ہے، وہ ازلی ہے، اس نے جنم نہیں لیا، وہ خود موجود ہے۔ ایسے خدا کے فضل (گرپرساد) سے میں اس عبارت کو شروع کر رہا ہوں‘‘ مسلمانوں کے سکھوں کی تہذیبی و ثقافتی ورثے پر اثرات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے:
پنجاب سے لے کر ملک کے کئی حصوں میں ان کے مذہبی مقامات کے نام مسلم شخصیات پر رکھے گئے ہیں ننکانہ صاحب (پاکستان) میں ایک گرودوارہ کا نام مولوی پٹی ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں گرو نانک صاحب نے ایک مولوی سے فارسی اور عربی سیکھی تھی۔ گرودوارہ مجنو کا ٹیلا دہلی میں ایک صوفی بزرگ کے نام پر واقع ہے، جن کے ساتھ پہلے گرو صاحب نے بات چیت کی تھی۔ پنجاب میں مسلمانوں کے نام پر اور بھی بہت سے گرودوارے ہیں، جیسے کہ گرودوارہ فرید ٹِلا، فرید کوٹ اور گرودوارہ حاجی رتن بھٹنڈا، گرونانک دیو یونیورسٹی، امرتسر کے یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس کا نام ’’شیخ سجن گیسٹ ہاؤس‘‘ ہے۔ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کا ایک اور یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس وارث شاہ کے نام پر ’’وارث بھون‘‘ ہے۔ گزشتہ ہفتے کولکاتا کے مشہور ادارہ ایران سوسائٹی کے زیر اہتمام ’’فارسی زبان کے فروغ میں سکھوں کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک قومی سمینار کا انعقاد ہوا ۔اس سیمینار میں پٹنہ صاحب کے جتھ دار نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھوں کے بانی کے اقوال فارسی اشعار کے بغیر مکمل نہیں ہوتے ہیں۔
ماضی کی غلطیوں کے تدارک کی کوشش
75 سال قبل ہندوستان اور پاکستان نے انگریزوں سے آزادی حاصل تو کی مگر پنجاب کی تقسیم نے سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات کرائے، جس سے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ دشمنی اور فساد کا یہ عالم تھا کہ ہندوستان کے پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی 33 فیصد سے کم ہو کر 0.5 فیصد ہو گئی۔ اسی طرح کی کہانی مغربی پنجاب میں بھی نوزائیدہ پاکستان کا حصہ بنی۔ مگر گزشتہ 75سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند حلقہ پنجاب کے امیر عبدالشکور ہفت روزہ دعوت سے پنجاب کی نئی صورت حال سے متعلق بتاتے ہیں کہ پنجاب اس وقت معاشرتی اور سماجی انقلاب کی راہ پر گامزن ہے۔ پنجاب میں مختلف تنظیمیں اس وقت ماضی کی خطاوں اور غلطیوں کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ سکھوں کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی نقل مکانی یا قتل کی وجہ سے سات دہائی قبل ترک کی گئیں مساجد کو بحال کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ گزشتہ مہینے پٹیالہ میں جہاں صرف دس سے پندرہ افراد پر مشتمل مسلم آبادی ہے وہاں سکھوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد بنا کر دی ہے۔ عبدالشکور کہتے ہیں کہ پنجاب کی سول سوسائٹی کا احساس ہے کہ نفرت کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ کھویا ہے اس لیے ہمیں اس کے خاتمے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امیر حلقہ پنجاب جناب عبدالشکور کہتے ہیں یہ صورت حال ہمارے لیے غنیمت ہے ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ امن وامان کے قیام کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
گزشتہ چند سالوں میں مساجد کی باز آبادکاری کی مسلسل خبریں پنجاب سے آرہی ہیں۔ انگریزی اخبار دی ٹربیون کے مطابق گزشتہ سال جون میں جیتوالکلان گاؤں کے ایک سکھ خاندان نے سکھ اکثریتی گاؤں میں رہنے والے چند مسلم خاندانوں کے لیے مسجد بنانے کے لیے اپنی آبائی زمین عطیہ کی۔ مسجد اب تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ اس گاؤں کے مسلم باشندے محمد انور کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھنے کے لیے قریبی گاؤں جایا کرتے تھے۔ سکھ بھائیوں کی وجہ سے اب ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہے جو یہاں کے ہر شخص کے لیے بہت معنی رکھتی ہے اس کے لیے ہم اپنے ساتھی سکھ بھائیوں کے بے حد مشکور ہیں‘‘ رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں مسلم خاندانوں کی تعداد محض ایک درجن ہے۔ان کی مالی حالت اس قدر مستحکم بھی نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر کا خرچہ برداشت کر سکیں۔سکھ خاندان نے جہاں مسجد کے لیے زمین کا عطیہ کیا وہیں تعمیر کا 90 فیصد صرفہ بھی برداشت کیا ہے۔
جیتوالکلان گاؤں ایک واحد مثال نہیں ہے۔ سکھ اکثریتی ریاست کے مختلف حصوں میں اسی طرح کی کہانیاں ہیں۔ پنجاب میں قائم ادارہ تمری مسجد (مساجد بنانے کی تنظیم) سے وابستہ شہباز احمد ظہور کہتے ہیں کہ ادارے نے 2017 میں آزادی کے وقت سے لاوارث اور خستہ حال مساجد کی تزئین و آرائش کا منصوبہ شروع کیا ہے، ایسی کئی مساجد جن پر سکھوں کے قبضے تھے انہوں نے مسلمانوں کے لیے رضاکارانہ طور پر خالی کر دیا ہے۔ شہباز احمد بتاتے ہیں کہ ہم نے ریاست کے مختلف حصوں میں 200 سے زیادہ مساجد کی تزئین و آرائش کی ہے۔ تقریباً 100 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ کئی مساجد جو 1947 کے بعد سکھ بھائیوں کے پاس چل گئی تھیں وہ ہمارے حوالے کر دی گئی ہیں۔ میرے خیال میں ہمارے سکھ بھائیوں کی حمایت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ لدھیانہ کے گاؤں بھلور میں سکھوں کی مدد سے ایک مسجد بھی بنائی جا رہی ہے۔اس گاؤں میں محض پانچ مسلم خاندان رہتے ہیں۔2010 میں ضلع سمرالا میں، سرور پور نامی گاؤں میں صرف دو خاندانوں کے لیے ایک مسجد کی تزئین و آرائش کی گئی۔گاؤں کے سربراہ گردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ ’’تقسیم کے دوران دو خاندانوں نے ہجرت کرنے کے بجائے گاؤں میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی اس لیے سکھوں نے یہاں دوبارہ مسجد بنانے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے گاؤں نے عظیم اقدار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کی ہے۔ اسی طرح 1634ء میں گورو صاحب نے پنجاب کے ضلع گورداس پور کے گاؤں ہرگوبند پور میں مسلمانوں کے لیے ایک مسجد تعیر کرائی تھی جو ’’گرو کی مسجد‘‘ کے نام سے مشہور تھی جسے تقسیم کے سانحہ کے بعد سکھوں نے گرودوارہ میں تبدیل کردیا تھا مگر 2003 میں جب کچھ مسلمان یہاں آباد ہونے کے لیے آئے تو سکھوں نے رضاکارانہ طور پر گرودوارہ خالی کر کے مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ اب یہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک بار پھر ’’گرو کی مسجد‘‘ کے طور پر کھڑی سکھ مسلم دوستی کی ایک انوکھی کہانی سنا رہی ہے۔
کہیں فرقہ پرستوں کی نظر نہ لگ جائے
اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ کہتے ہیں کہ تقسیم ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا داغ ہے۔ اس وقت کی اعلیٰ قیادت دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے برے اثرات کا اندازہ لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ تقسیم کے بعد دونوں طرف کی قیادتیں اقتدار کے حصول میں مشغول ہو گئیں مگر تقسیم سے متاثر افراد اور علاقے اب بھی متعدد مسائل کے شکار ہیں۔ آج بھی پنجاب کے مسائل دو قومی نظریہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ تقسیم کے اثرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ سکھ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سکھ کسانوں نے اپنی زرعی زمینیں کھو دیں۔ ہم نے روحانی نقصانات کو بھی برداشت کیا ہے۔ تقسیم کی وجہ سے سکھوں کو پاکستان میں اپنی روحانی جائیداد کا ایک بڑا حصہ چھوڑنا پڑا۔ اسی لیے ہمیں تقسیم کے متاثرین ہندو اور مسلم دونوں کے لیے ہمدردی ہے۔ اس لیے ہم نے تمام متاثرین کے لیے دعائیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ صورت حال ناامیدی کے اس دور میں چہروں پر مسکان تو ضرور لاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ نفرت کا کاروبار کرنے والے یکجہتی اور ہم آہنگی کے اس ماحول کو کب تک برداشت کریں گے؟ کہیں اس کو ختم کرنے کے لیے سازشیں تو نہیں رچی جائیں گی؟ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے تبدیلی مذہب کے ایشو کو بیشتر انتخابی جلسے میں اٹھاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پنجاب میں سکھوں کو مسلمان بنایا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل ’لو جہاد‘ کا ایشو بھی اٹھایا گیا تھا۔ مسلم لڑکے اور سکھ لڑکی کے درمیان شادی کو ایشو بنا کر مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی اور اس کا نفرت کا بیانیہ کام نہیں آیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی یہ ناکامی دائمی رہے گی؟ ظاہر ہے کہ بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتیں ناکامی کے بعد خاموش نہیں رہتیں بلکہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھتی ہیں۔سکھوں اور مسلمانوں کا اتحاد اور پنجاب کی یہ فضا سنگھ پریوار کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ڈاکٹر خوشحال سنگھ نے بتایا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے قربانیاں دے کر اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھا ہے۔مسلمانوں کا یہی وہ رویہ ہے جو انہیں سب سے زیادہ کھٹکتا ہے مگر ہم اس معاملے میں کچھ لاپروا واقع ہوئے ہیں۔ہماری تہذیبی و ثقافتی شناخت پر وہ حاوی ہوتے جارہے ہیں بلکہ اب تو کہا جانے لگا ہے کہ سکھ ہندو مذہب کی ایک شاخ ہے، جبکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ ہمارے سامنے اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہو گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہمیں اس کا ادارک ہوا ہے کہ ہم نے خود کو الگ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے مگر ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
***

 

***

 تقسیم کے 75سال بعد بھی دونوں طرف تقسیم کے گہرے نشانات ہیں۔ مگر تباہی و بربادی سے سبق سیکھنے کے بجائے آج بھی نفرت کا کارو بار عروج پر ہے۔ پاکستان جو جمہوری اور معاشی ناکامی کے دہانے پر کھڑا ہے وہیں ہندوستان میں بھی نفرت کے سوداگروں نے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے ملک کو ایک بار پھر مذہبی تقسیم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، مذہبی بنیادوں پر ملک کی پالیسی بنائی جا رہی ہے اور ملک کی اقلیتیں اس وقت سب سے زیادہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022