بنگالی شناخت کے نام پرانگریزوں کے وفاداروں کی پذیرائی

مہاراجہ بیجے چند مہتاب اور ان کی اہلیہ کے مجسموں کی تنصیب پر تنازعہ

دعوت نیوز نیٹ ورک

پنڈت نہرو اورمولانا آزاد کی تصاویر غائب۔ کیا ممتا بنرجی ہندوتواکے آگے سپرڈال رہی ہیں؟
ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگر ہ پرمغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور دیگر سیاسی لیڈروں کے سوشل میڈیا ڈی پیز پرابھی سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ 1905 میں بنگال کو مذہبی بنیادوں پرتقسیم کرنے میں کلیدی کردار کی وجہ سے بدنام وائسرائے لارڈ کرزن کی پذیرائی اور ان کا استقبال کرنے والے بردوان کے مہاراجہ بیجے چند مہتاب اور ان کی بیوی رادھرانی کے مجسموں کی شہر بردوان میں واقع کرزن گیٹ کے قریب تنصیب پر سیاسی بحث تیز ہوگئی ہے۔ترنمول کانگریس کی قیادت والی بردوان میونسپلٹی اور مقامی ترنمول کانگریس کے رکن اسمبلی کے اس اقدام کی نہ صرف سیاست داں بلکہ تاریخ اور بنگالی ورثہ کے ماہرین بھی مخالفت کررہے ہیں اور حکومت کی نیت پر سوالات کھڑے کررہے ہیں۔
دراصل 14اگست کو ممتا بنرجی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر مجاہدین آزادی کی تصاویر پر مشتمل ایک ایسی ڈی پی لگائی جس میں رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ، پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کی تصاویر غائب تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر تنقید ہونی تھی اور ہوئی مگر چند گھنٹوں میں ہی اس ڈی پی کو تبدیل کردیا گیا اور بہت ہی بھونڈے انداز میں اس ڈی پی میں رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذرالاسلام ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکرکی تصاویر کو شامل کردیا گیا۔ مگر پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کو اس مرتبہ بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ ایک ایسے وقت میں جب مرکز میں برسراقتدار بی جے پی ہندوستان کی تاریخ سے نہرو کی وراثت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نہرو کے کردار پر انگلی اٹھائی جارہی ہے اور مجاہدین آزادی کی فہرست سے نہرو کی تصویر غائب کی جارہی ہے، ممتا بنرجی کا بی جے پی کی اتباع کرنا اپنے آپ میں کسی اہم سیاسی پیش رفت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور شبہ ہوتا ہے کہ آیا ممتا بنرجی نے اقتدار کے دوام کے لیے ہندوتوا کے سامنے سپرڈال دی ہے یاپھر اس کے پیچھے کوئی دوسرے سیاسی مقاصد ہیں؟ بظاہر سیکولرسیاست پر ایقان رکھنے والی ممتا بنرجی کے نہ جانے نہرو اور مولانا آزاد کو نظرانداز کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اور وہ اس کے ذریعہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
1905 میں بنگال کی تقسیم کی وجہ سے بدنام وائسرائے لارڈ کرزن نے 1903میں شہر بردوا ن کا دورہ کیا تھا ۔ان کے استقبال میں بردوان کے مہاراجا بیجے چند مہتاب نے شہر بردوان میں کرزن گیٹ کی تعمیر کی تھی ۔گزشتہ 119سالوں سے یہ گیٹ بردوان کی شناخت بنا ہوا ہے۔مگراب بنگالی شناخت کے نام پر ترنمول کانگریس کی قیادت والی بردوان میونسپلٹی نے اس کرزن گیٹ کے سامنے مہاراجا بیجے چند مہتاب اور ان کی بیوی رادھرانی (جسے بیجے توران بھی کہا جاتا ہے)کا مجسمہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے کی جہاں سیاسی سطح پر مخالفت ہورہی ہے کہ اس کی وجہ سے کرزن گیٹ کی اہمیت ختم ہوجائے گی، علاوہ ازیں آثارقدیمہ کے ماہرین اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ اس اقدام سے تاریخی کرزن گیٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے وہیں مورخین ان مجسموں کی تنصیب پر ہی سوال پر کھڑا کررہے ہیں۔ بردوان کی کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں اہم کردارا اداکیا ہے ان کے مجسمے لگانے کے بجائے مہاراجا بیجے چند مہتاب جنہوں نے انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی، ان کا مجسمہ لگانے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟
کرزن گیٹ کے نزدیک مہاراجا بیچے چند مہتاب کے مجسمے کو نصب کرنے کی مخالفت کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے ۔کرزن گیٹ کو نریش چندر بوس نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان کے بھتیجے اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے جدو جہد کرنے والے دیباسیس بوس کہتے ہیں کہ وراثتی یادگار میں اضافہ یا تبدیلی ماہرین کی رائے کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ماہرین کی رائے کے بغیر معمولی تبدیلی تاریخی ورثے کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔کرزن گیٹ کے قریب مہاراجا اوران کی بیوی کے مجسمے کو نصب کیا جانا میرے لیے ذاتی طور پر تکلیف دہ ہے کیونکہ گیٹ کی تعمیر کی منصوبہ بندی اور ڈیزائن میرے دادا کے بڑے بھائی نے کیا تھا۔
رشی بنکم چندر کالج نیہاٹی میں پروفیسر اور مورخ کاکالی مکھرجی سوال کرتے ہیں کہ مہاراجا بیجے چند مہتاب کے مجسمے کو نصب کرکے ترنمول کانگریس کیا پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے؟کرزن گیٹ واقعہ تاریخی ورثہ ہے ، اس کی حفاظت ہونی چاہیے مگر بیجے چند مہتاب کی عظمت و رفعت ثابت کرنے کی ضرورت کیو ں آن پڑی؟ جب کہ مہاراجا بیجے چند مہتاب نے نہ صرف لارڈ کرزن کے استقبال کے لیے کرزن گیٹ بنایا بلکہ انہوں نے ان کی تاجپوشی کا بھی پروگرام منعقدکیا۔ مہاراجا اور اس کے خاندان نے انگریزوں کی مستقل
آبادکاری کی پالیسی کا بھرپور فائدہ اس وقت اٹھا یا تھا جب ملک میں انگریزوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ دوسری جانب بردوان انگریزوں کے خلاف مسلح اور غیر مسلح دونوں طرح کی تحریکوں کا گواہ رہا ہے۔قاضی نذرالاسلام جیسے عظیم شاعر کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔انقلابی لیڈ ر شہید بھگت سنگھ کے ساتھی بٹو کیشور دتا جنہیں شہید بھگت سنگھ کے تعاون کرنے کی وجہ سے کئی برسوں تک جیل کی سزا کاٹنی پڑی تھی ان کا بھی تعلق اسی بردوان ضلع سے ہے ۔ایسے میں سوال ہے کہ بنگالی شناخت کی حامل شخصیات قاضی نذرالاسلام اور بٹو کیشور دتا جو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کی علامت تھے، ان لیڈروں کی یادگار کو زندہ کرنے کے بجائے مہاراجا کی شخصیت کو دوبارہ زندہ کرنے کے مقاصد سمجھ سے بالا تر ہیں۔
بردوان میونسپلٹی کے صدر پریش سرکار نے اس پورے تنازع پر بتایا کہ یہ مقامی ممبراسمبلی کھوکن داس کا پروجیکٹ ہے۔لیکن میونسپل کارپوریشن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہم اس پورے منصوبے کو عملی جامہ پہنارہے ہیں ۔کرزن گیٹ کے سامنے مجسموں کی تعمیر پر ہونے والے تنازع سے ہم واقف ہیں۔مگر یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے بیجے چند مہتاب نہ صرف کرزن گیٹ کے معمار ہیں بلکہ بردوان کو آباد کرنے میں ان کاکردار کافی اہم رہا ہے۔کرزن گیٹ کے سامنے ان کا مجسمہ نصب کرنے پر تنازع سمجھ سے بالاتر ہے۔ممبراسمبلی کھوکن داس بھی اپنے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بردوان کے زیادہ تر علاقے مہاراجا کے ہیں ۔اس لیے ہمیں اس میں کوئی برائی نظرنہیں آتی ہے۔
ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے ہندوتوا سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے’’ بنگالی شناخت‘‘کے احیاء کا نعرہ بلند کیا ہے۔اس کے لیے وہ بنگالی پوکھو جیسی لسانی عصبیت کی حامل تنظیم کی سرپرستی بھی کررہی ہے ۔اسی مہم کے تحت بنگال کی تاریخی شخصیات کے مجسمے شہر کولکاتا اور ریاست کے دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر لگائے جارہے ہیں، ترنمول کانگریس اس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ بنگالی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اس کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتے۔بی جے پی کا بنگال کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ترنمول کانگریس کے اس دعویٰ میں کسی حدتک صداقت بھی ہے کہ بی جے پی کے ہندوتوا کی سیاست بنگال کے کلچر کے لیے اجنبی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اجنبیت کتنے دنوں تک باقی رہے گی؟ کیا بنگال کی ثقافت و کلچر کی حفاظت کا یہی ایک ذریعہ ہے؟ کولکاتا میں ہی نیتا جی سبھاش چندر بوس، رابندر ناتھ ٹیگور، سوامی وویکانند، رام کرشن پرم ہنس، سسٹر نویدیتاکے مجسموں کے علاوہ شہر کے بیلیا گھاٹہ، مانک تلہ اور پٹولی جیسے علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مجسمے لگائے گئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی پریش پال کادعویٰ ہے کہ ان کے انتخابی حلقے بیلیا گھاٹا میں ہی 100 چھوٹے، درمیانے اور بڑے مجسمےہیں۔مجسمے لگانے کے مقاصد سے متعلق وہ بتاتے ہیں جب بچے سڑکوں پر چلیں گے تو انہیں ہندوستان اور بنگال کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات سے متعلق واقفیت حاصل ہوگی۔نیتا جی اور گاندھی جی کے علاوہ، ہم نے بنگال کی نشاۃ ثانیہ سے جڑی شخصیات جیسے راجہ رام موہن رائے اور ودیا ساگر کے ساتھ ساتھ شری چیتنیا، سوامی وویکانند اور رام کرشن جیسی مذہبی شخصیات کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنے ملک اور اس کی روشن خیال شخصیتوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ بنگال میں مسلمانوں کی 30فیصد آبادی ہے مگر ترنمول کانگریس کے ذریعہ لگائے جانے والے مجسموں میں قاضی نذرالاسلام کے علاوہ کوئی اور مسلم شخصیت نظر نہیں آتی ہے۔ایسے میں ترنمول کانگریس سے سوال کیا جانا چاہیے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں کیا بنگالی مسلمانوں کا اہم کردار نہیں رہا ہے؟اگر مسلمانوں کا کردار رہا ہے تو پھر مسلم شخصیات کے مجسمے کیوں نہیں لگائے جارہے ہیں۔بنگالی ثقافت کے احیاکی اس پوری مہم اورمنظر نامے سے مسلم شخصیات کا غائب ہوجانا ترنمول کانگریس کی نیت پر سوالات کھڑے کرتے ہیں ۔کیاان سوالوں کا جواب بنگالی ثقافت و کلچرکے پرچارکوں کے پاس ہے۔ مولانا آزاد جن کے کولکاتا سے گہرے تعلقات رہے ہیں وہ اب اس شہر کے لیے اجنبی بنتے جارہے ہیں کہ ان کا نام تک مجاہدین آزادی کی فہرست میں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔19ویں صدی میں انگریزوں کے خلاف کسانوں کی پہلی مسلح تحریک کی قیادت کرنے والے تیتو میر کو اب ہندو مخالف قرار دے کر معلون کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بنگا ل میں جدید تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے حاجی محمد محسن ، نواب عبد اللطیف ،جسٹس سید امیر علی کا ذکر ہی غائب ہوچکا ہے۔انگریزوں کے خلاف میدان جنگ میں لوہا لینے والے نواب سراج الدولہ کے شہر مرشدآباد کی تاریخی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
سی اے اے کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں پھرصف بندی
دوسال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر شمال مشرقی ہندوستان کی ریاستوں آسام اور دیگر ریاستوں منی پور اور ناگالینڈمیں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے۔آ ل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی تنظیموں نے اس کی پہل کی ہے۔دو سال قبل بھی احتجاج میں ان دونوں تنظیموں کا بہت ہی اہم رول رہا ہے۔2019میں پارلیمنٹ سے قانو ن پاس ہونے کے بعد سے ہی آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج ہورہے ہیں ۔کورونا وبا کی وجہ سے احتجاج کا سلسلہ رک گیا تھا مگر اب جب کہ وبا کنٹرول میں ہے تو ایک بار پھر احتجاج شروع ہورہے ہیں۔شہریت ترمیمی ایکٹ کو نافذ نہ کرنے کے مطالبے کے علاوہ ان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے، آسام معاہدے(آسام آکورڈ) کا نفاذ، شمال مشرقی ریاستوں سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (AFSPA) کو واپس لینے اور آسام، میگھالیہ اور تریپورہ میں اندرونی لائن پرمٹ رول کا نفاذ جیسے مطالبات شامل ہیں۔
شہری ایکٹ 1955 ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے 31 دسمبر 2014 یا اس سے قبل افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی غیر قانونی تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت دینے کا قانون پاس کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔آسام میں ایک ایسے وقت میں احتجاج شروع ہوا ہے جب وہاں مختلف سرکاری ملازمتوں میں بحالی کا عمل شروع ہوا ہے۔ایسے میں آسام حکومت کو فکر ہے کہ اگر احتجاج شدت اختیارکرگیا تو یہ بحالی کا عمل روک سکتا ہے۔ 21، 28 اگست اور 11 ستمبر 2022 کو30ہزار آسامیوں کے لیے امتحانات ہونے والے ہیں ۔اس میں14,30,337 امیدواروں کے امتحانات میں شرکت کی توقع ہے۔
آسام کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ’’آسام معاہدے‘‘ کے خلاف ہے۔آ ل آسام اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت میں 6سالوں تک 80کی دہائی میں احتجاج ہوئے، نیلی اور دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔راجیو گاندھی کی پہل پر1985میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا کہ مارچ 1971 کے بعد آسام آنے والے تمام افراد چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ غیر ملکی ہوں گے۔اس کا پتہ لگانے کے لیے این آر سی کرانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔اگرچہ دو دہائیوں سے زائد عرصے تک این آر سی کے عمل میں تاخیر برتی گئی مگر 2013میں سپریم کورٹ کی پہل کے بعد آسام میں این آر سی کی شروعات ہوئی 31اگست 2019کو این آرسی کی حتمی فہرست شائع ہوئی۔اس میں 19لاکھ افراد کا نام این آر سی فہرست میں شامل نہیں تھا۔16سو کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود این آر سی کا پورا عمل لوگوں کو اطمینان دلانے میں ناکام رہاہے۔آسامی اور غیر آسامی کے ایشو مسلم اور غیر مسلم بنانے والوں کو امید تھی کہ این آر سی میں شامل نہیں ہونے والوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی مگر این آر سی کی حتمی فہرست میں 19لاکھ افراد میں مسلمانوں کی تعداد 486,000 ہے جنہیں این آر سی میں جگہ نہیں ملی ہے جبکہ 14لاکھ افراد بنگالی ہندو، قبائلی اور دیگر طبقات شامل ہیں۔دراصل شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ 14لاکھ ہندوؤں کو شہریت فراہم کرنا مقصد ہے۔مگر آسام کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ سے این آر سی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔اس سے آسامی بولنے والے شہری اقلیت میں آجائیں گے اور بنگلہ بولنے والوں کی اکثریت ہوجائے گی۔
ہر گھر ترنگا: ناگالینڈ اور منی پور کے کچھ علاقوں میں بے اثر
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کی آزادی کا 75 سالہ جشن منا یا گیا اورمرکزی حکومت کی اپیل پر’’ہر گھر ترنگا‘‘ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا مگرناگا لینڈ اور منی پور کے کچھ حصوں میں ترنگالہرانے کے بجائے گھروں پر’’ناگا پرچم‘‘ لہرایا گیا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، گھروں، دکانوں اور دیگر مختلف اداروں میں ناگا جھنڈے دیکھے گئے۔1997کے بعد سے ہی مرکزی حکومت اور ناگا مسلح گروپ کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں اور اس وقت مذاکرات سب سے بہترین مرحلے میں ہیں ۔مگر ناگا پرچم کو لے کر دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات باقی ہیں ۔ناگالینڈ کی تنظیمیں اپنے پرچم کے وجود کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ سب سے بڑے ناگا مسلح گروپ NSCN (IM) کے بیان کے مطابق 3اگست 2015 کو تاریخی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہم نے سات سال تک صبر سے انتظار کیا ہے۔ ہم نے معاہدے پر عمل کرنے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے مگر ایسا حل نکالنے کی ضرورت ہے جو قابل احترام اور جامع ہواور ناگوں اور مرکزی حکومت کے لیے قابل قبول ہو۔گیند اب حکومت ہند کے کورٹ میں ہے کہ وہ صحیح اقدام کرے اور ناگاووں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے۔ ہم ناگا لینڈ کی منفرد تاریخ اور ناگاوں کی حفاظت کے لیے اپنے عہد پر قائم ہیں، کسی بھی قیمت پر قومی اصول، ناگا پرچم اور تسلیم شدہ خودمختاری اور منفرد تاریخ کے ناقابل تقسیم حصے سے دستبراد نہیں ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہندوستانی لیڈر ہمارے اس جذبات کو سمجھیں گے۔

 

***

 ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے ہندوتوا سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے’’ بنگالی شناخت‘‘کے احیاء کا نعرہ بلند کیا ہے۔اس کے لیے وہ بنگالی پوکھو جیسی لسانی عصبیت کی حامل تنظیم کی سرپرستی بھی کررہی ہے ۔اسی مہم کے تحت بنگال کی تاریخی شخصیات کے مجسمے شہر کولکاتا اور ریاست کے دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر لگائے جارہے ہیں، ترنمول کانگریس اس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ بنگالی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اس کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتے۔بی جے پی کا بنگال کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022