ایک قوم، ایک الیکشن! کیا واقعی ملک کے مفاد میں ہے؟

برسراقتدار پارٹی مفاد مضمر۔ مثبت اور منفی پہلووں کا ایک جائزہ

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ملک میں پھر ایک بار یہ گفتگو چل پڑی ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات ہونے چاہئیں، یعنی ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ بی جے پی حکومت کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات ہوں۔ وہ اس کے جواز بھی پیش کرتی رہتی ہے کہ ایک ہی وقت میں انتخابات ہونے سے بہت سے فائدے ہیں۔ حکومت کا اس ضمن میں یہ استدلال ہے کہ ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے الگ انتخابات ہونے سے انتخابی خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ حکومتی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے، جہاں انتخاب ہوتا ہے وہاں ضابطہ اخلاق لاگو ہونے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا، اسی وجہ سے ملک میں یکساں ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں ملک میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان پر سات ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں، یہ سرکاری اعدادد و شمار ہیں، غیر سرکاری اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر ان اخراجات کو کم کرنا ہو تو ایک ہی وقت میں تمام انتخابات اس کا واحد حل ہے۔ مرکزی حکومت کے وزیر قانون کرن رجیجو نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں انتخاب کرانے کا مسودہ لا کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے اور وہ اس پر غور بھی کر رہی ہے۔
کیا بی جے پی کا یہ استدلال کہ ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات ہونے سے بہت سے فائدے ہیں درست ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں کہیں نہ کہیں انتخابات ہوتے رہتے ہیں، کہیں ضمنی انتخاب تو کہیں بلدیاتی، کہیں کسی بورڈ کے چیئرمین کے لیے تو کہیں پنچایت کے لیے۔ ہمارا ملک انتخابات کو عید و تیوہار کی طرح مناتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والا امیدوار اپنی جائز و ناجائز کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ اس میں خرچ کر دیتا ہے۔ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے نئے نئے ہتھکنڈے اپناتا ہے، پیسے کی تقسیم سے لے کر شراب کی تقسیم تک ہر وہ کام کرتا نظر آتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کے لیے تو کچھ عرصہ عید جیسا ماحول ہی ہوتا ہے، ہر لیڈر ان کو لبھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اس غریب کے بچوں کو نہلاتا بھی ہے، یہ الگ بات ہے کہ جیسے ہی وہ انتخاب جیت جاتا ہے پھر ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سینگ۔
کیا ملک میں انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں؟ کیا انتخابات الگ الگ وقتوں پر ہونے سے ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرنا دشوار ہوتا ہے؟ کیا انتخابات پر ہی مستقل نظر رکھنے کی وجہ سے انتظامی امور پر سے توجہ ہٹ جاتی ہے؟ 2014 سے 2022 کے درمیان ہونے والے پچاس اسمبلیوں کے انتخابات پر تقریباً سات ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت ایک ہی وقت میں سارے ملک میں انتخانات کرانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور بہت جلد اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بے چین ہے۔ نریندر مودی نے 2016 میں ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ دیا تھا، تب ہی سے اس پر غور و فکر اور ملک بھر میں اس پر گفتگو جاری ہے۔ پھر 30 اگسٹ 2018 میں لاکمیشن نے ایک مسودہ تجویز پیش کیا تھا۔ لا کمیشن نے ایک ہی وقت میں انتخابات کرانے کے لیے حکومت کو مسودہ پیش کر دیا ہے اور یہ تجویز بھی پیش کر دی ہے کہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت دستور میں ترمیم بھی کرے اور ساتھ ہی انتخابی کمیشن کے قوانین میں بھی ترمیم کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی نے کوئی نیا نعرہ نہیں دیا بلکہ ملک میں 1967 تک پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی ریاستوں کے انتخابات بھی ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں ہوا یوں کہ 1967 کے بعد بعض اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ معیاد پوری ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گئیں یا انہیں توڑ دیا گیا جبکہ پارلیمنٹ نے اپنی معیاد پوری کی۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ پارلیمنٹ بھی اپنی معیاد پوری نہیں کر سکی یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ساتھ انتخابات ہونے میں فرق واقع ہو گیا۔ اس کے بعد سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ ہونے لگے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی کہ ملک میں سال بھر کہیں نہ کہیں انتخاب ہوتے رہتے ہیں۔
اب حکومت یہ چاہتی ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کروائے جائیں، تو ایسی صورت میں چند ریاستوں میں انتخابات پہلے ہوں گے اور کچھ ریاستی حکومتیں اپنی معیاد پوری ہونے کے بعد بھی باقی رہیں گی کیوں کہ جب ایک ساتھ انتخابات ہونا ہے تو ایسی صورت میں کیا وہاں موجود دوسری سیاسی جماعتیں خاموش رہیں گی؟ یا جہاں پہلے انتخابات کروانے کی نوبت آئے گی وہاں کی برسر اقتدار جماعت اس کو تسلیم کر لے گی؟ ایسی سیاسی جماعتیں جو صرف ریاستوں کے حد تک ہی محدود ہیں وہ یہ تجویز کسی صورت میں نہیں قبول کریں گی کیوں کہ ان کا استدلال یہ ہو گا کہ ایک ساتھ پارلیمنٹ و اسمبلیوں کے انتخابات ہونے سے مرکز میں موجود سیاسی جماعت کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنچ دستور میں ترمیم کرنا ہے۔ جہاں تک خرچ کی بات ہے اگر اسی کو معیار مقرر کیا جائے تو کیا یہ بات بہتر نہیں ہوگی کہ بیس سال میں ایک بار انتخابات کروائے جائیں یا پھر کم از کم دس سال میں ایک مرتبہ؟ جس سے خرچ اور بھی کم ہو گا یا پھر بادشاہت قائم کر دی جائے جس میں انتخابات پر کسی بھی قسم کا خرچ ہی نہیں ہوتا کہ بادشاہ جب تک زندہ رہا وہی حکم راں رہے گا۔ چنانچہ دنیا میں اب بھی بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں ملوکیت قائم ہے۔ اسی لیے جمہوری نظام کو پیسوں سے تولا نہیں جا سکتا۔ اگر حکومت کی بات مان لی جائے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں سات ہزار نہیں بلکہ آٹھ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور اس رقم کو ہر ووٹر پر تقسیم کیا جائے جو کہ تقریباً ساٹھ کروڑ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کروڑ روپے کے مقابلے میں ساٹھ کروڑ افراد، یعنی ہر سال ایک ووٹر پر پندرہ روپے ساٹھ پیسے خرچ ہورہے ہیں۔ ہر سال اپنی جمہوری نظام کو بچانے کے لیے ایک ووٹر پر سولہ روپے خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ حکومت اگر اس کو فضول خرچی تصور کر رہی ہے تو اس سے بڑی جہالت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر اس خرچ کو سارے عوام پر تقسیم کر دیا جائے تو محض چھ روپے ایک فرد پر خرچ آئے گا۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ حکومت انتخابات کے موقعوں پر کتنا خرچ کرتی ہے، لیکن جب انتخابات آتے ہیں تو لیڈر بھی بے تحاشہ دولت لٹاتے ہیں جس سے چند غریبوں کا فائدہ ہو جاتا ہے، انہیں کھانے کے لیے بریانی مل جاتی ہے، ریالیوں میں جانے پر انہیں پانچ سو ہزار روپے مل جاتے ہیں، پرنٹنگ پریسوں ہوٹلوں پٹرول پمپوں اور دیگر کا کاروبار خوب چلتا یے۔ بے روزگار نوجوانوں کو چند دن کا ہی سہی روزگار مل جاتا ہے، ڈرائیوروں کی اچھی آمدنی ہو جاتی ہے، بڑی بڑی ہورڈنگس لگائے جاتے ہیں وغیرہ۔ اس زاویہ سے دیکھا جائے تو بار بار انتخابات کا آنا غریب عوام کے لیے فائدہ مند ہی ہے۔ اور ان انتخابات میں وہی شخص حصہ لیتا ہے جس کے پاس کالا دھن ہو، وہی ان پیسوں کو خرچ بھی کرتا ہے، پھر جب وہ پیسہ عوام کے پاس آئے گا تو عوام بھی اس کو خرچ کرے گی، اس طرح عوامی خرچ بڑھے گا اور جب عوامی خرچ بڑھے گا تو معیشت بھی مستحکم ہو گی۔ حکومت کا رونا تو یہی ہے کہ عوامی خرچ کم ہو رہا ہے اس لیے معیشت کمزور ہو رہی ہے۔ بالواسطہ طور پر انتخابات ایک بہترین ذریعہ ہیں معیشت کو مستحکم کرنے کا۔ حکومت کا یہ استدلال کہ انتخابی خرچ سے نقصان ہو رہا ہے انتہائی نامعقول اور بے دلیل بات ہے۔
دنیا کی دوسری جمہوریتوں میں بھی پارٹیاں حکومتیں کرتی ہیں، امریکہ جیسے سوپر پاور ملک میں تمام صوبوں کے الگ انتخابات ہوتے ہیں۔ چاپان میں بھی حکومتیں گری ہیں وہاں بھی وسط مدتی انتخابات آئے ہیں، تو کیا وہ ممالک غریب ہیں؟ وہاں تو فی کس خرچ ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ملک کا مرکزی بجٹ اور ریاستوں کا بجٹ سالانہ ستر لاکھ کروڑ روپے ہے، اس میں سے محض ایک ہزار کروڑ روپے انتخابات پر خرچ ہوتے ہیں اس کو بھی بہت زیادہ خرچ گرداننا کونسی عقلمندی کی بات ہے؟ ستر لاکھ کروڑ کا اگر ایک فیصد بھی لیا جائے تو ستر ہزار کروڑ روپے ہوتے ہیں، یہاں تو صرف ایک ہزار کروڑ کی بات ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ چونکہ جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں انتخابی ضابط اخلاق لاگو ہوتا ہے اس لیے ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں انتخابی ضابطہ اخلاق کا ترقیاتی کاموں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، جو منصوبے پہلے سے چل رہے ہیں اس پر تو عمل درآمد کیا جا سکتا ہے، نئے منصوبے جو عوام کو لبھانے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں اس پر روک لگی ہوتی ہے، اگر ترقیاتی منصوبوں پر عمل نہیں کیا جا سکتا تو انتخابات ایک ہی دن میں رکھ لیے جائیں، مہینوں تک انتخابی مہم چلانے کی کیا ضرورت ہے۔
ایک اور استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہر وقت انتخابات ہونے سے حکومت کو انتظامی امور کی احسن ادائیگی میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ریاستی سطح کے انتخابات ہوں کہ بلدیاتی انتخابات، وزیر اعظم صاحب کو اس کی تشہیر میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے، انہیں ایک ریاست میں ساٹھ تا ستر ریالیوں میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے، جب حکومت کا سربراہ ہی ریالیوں میں حصہ لیتا رہے تو حکومت احسن انداز میں کیسے چلے گی؟ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اپنی اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھیں اور جس سطح کے انتخابات ہوں وہاں کے نمائندے حصہ لیں، تمام سطح کے وزرا کو اس میں حصہ لینے سے روکا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر جمہوری نظام اور جمہوری اقدار کو اپنائیں، حکومت کے انتظامی امور پر سارے وزیر نگرانی رکھیں، اپنا محور و مرکز صرف اور صرف انتخابات ہی کو نہ بنائیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ جو حکومت انہیں ملی ہے وہ عوام کی خدمت کے لیے ملی ہے، لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ عوام کی خدمت کر کے ان کے دل جیتیں اور عوام بھی انہی لوگوں کو اقتدار میں لائیں جو بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔

 

***

 صحیح بات یہ ہے کہ جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں انتخابی ضابطہ اخلاق کا ترقیاتی کاموں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، جو منصوبے پہلے سے چل رہے ہیں اس پر تو عمل درآمد کیا جا سکتا ہے، نئے منصوبے جو عوام کو لبھانے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں اس پر روک لگی ہوتی ہے، اگر ترقیاتی منصوبوں پر عمل نہیں کیا جا سکتا تو انتخابات ایک ہی دن میں رکھ لیے جائیں، مہینوں تک انتخابی مہم چلانے کی کیا ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022