نظام عدل کا المیہ

سپریم کورٹ نے معافی کی درخواست پرغور کرنے کی ہدایت کیوں دی؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ہندوتوا پر مجرمیت کا رنگ! اصلاح حال کے لیے سول سوسائٹی کو آگے آنے کی ضرورت
گجرات قتل عام 2002ء کے دوران اجتماعی عصمت دری اور تین سالہ بچی سمیت ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کے بہیمانہ قتل کی متاثرہ بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس کی مثال کسی بھی ملک کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی نظر آئے گی۔ اس واقعہ کی وقوع پذیری کے اسباب، نظام عدل کے انہدام اور مجموعی طور پر سول سوسائٹی کی خاموشی کے اثرات جلد زائل نہیں ہوں گے۔ کئی افراد کا قتل اور اجتماعی عصمت دری جیسے گھناونے اور بدترین جرم کے مجرمین کی رہائی حکمراں جماعت کے حامیوں کے ذریعہ مجرموں کی پذیرائی اور انہیں ہیرو بنانے کی کوشش ہندوستان کی اجتماعی ضمیر پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے۔ بی جے پی کی زیر قیادت گجرات کی حکومت کے ذریعہ اس گھناونے جرم کے مجرموں کی رہائی نے ہندوتوا اور ہندو راشٹر کو متبادل نظام حکومت کے طور پر پیش کرنے والوں کے سامنے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ویسے مجرموں کی پشت پناہی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ شاباشی پانے والے مجرمین کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے جیسا کہ جموں کے کھٹوا میں جنوری 2018 میں آٹھ سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے مجرموں کی حمایت میں ہندوتوا کے حامیوں نے جلوس نکال کر انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ ماب لنچنگ کرنے والوں کو اعزازیہ دیا گیا اور انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا نیز، 1999 میں اڑیسہ کے دیہی علاقے میں 57 سالہ پادری گراہم اسٹینز اور ان کے دو بیٹوں دس سالہ فلپ اور آٹھ سالہ ٹموتھی کو جنونی ہندوؤں نے زندہ جلا کر بے رحمی سے ہلاک کر دیا تھا۔ پورے ملک کو شرمسار کرنے والے اس واقعے کی بھی حمایت میں بھی جلوس نکالے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ پرتاپ سارنگی کو جس پر مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مودی نے اپنی کابینہ کا رکن بناکر ملک کے نظام عدل کا کھلے عام مذاق اڑایا تھا۔ ایسے میں کیا یہ سوالات لازمی طور پر نہیں اٹھانے جانے چاہئیں کہ ہندوتوا بیشتر اوقات عصمت دری اور قتل کے مجرمین کے ساتھ کیوں کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیا اس کی یہ سیاسی ضرورت ہے یا پھر اس نظریہ کی خامی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو مجرموں کی حمایت میں کھڑا کر دیتا ہے۔ کیا اس فیصلے کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کی اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف جرائم کرنے والے ہیرو ہیں کیوں کہ وہ ’’ملیچھوں کا خاتمہ‘‘ کر رہے ہیں؟
ایسے موقع پر ہندوتوا کے نظریہ ساز ساورکر کو بھی یاد کیا جانا چاہیے کہ جنہوں نے شیواجی پر صرف اس لیے تنقید کی تھی کہ انہوں نے قیدی بنا کر لائی گئی ایک مسلم خاتون کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی نہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا تھا۔ گاندھی کے قتل کے بعد ہندوتوادیوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور جشن منایا اور اب تو کھلے عام ہندوتوادی گاندھی کو لعن طعن کرتے اور گوڈسے کی مدح سرائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ 75 سالوں میں ملک میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات کو درکنار کرکے صرف 2002 میں گجرات میں ہونے والے قتل عام کا اگر تجزیہ کیا جائے تو مجرموں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی بیسوں مثالیں مل جائیں گی۔ قتل و غارت گری، اجتماعی عصمت دری اور لوٹ مار کے مجرموں کو حکومت اور ہندوتوادیوں دونوں نے تحفظ فراہم کیا۔بابو بجرنگی اور سابق ریاستی وزیر مایا کوڈنانی کو بچانے اور حکومت کے ذریعہ فائدہ پہنچانے کی بھرپور کوشش کو کیا فراموش کیا جاسکتا ہے؟ ایسے میں کیا ہندو مذہب پر فخر کرنے والوں کے لیے یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ اگر یہی ہندوتوا ہے تو کیا ان لوگوں کی وجہ سے ان کا مذہب بدنام نہیں ہو رہا ہے؟ دنیا کی نظر میں ہندوستان اور ہندوؤں کی شبیہ نہیں بگڑ رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوالات کافی چبھنے والے ہیں لیکن غور وفکر کے متقاضی ہیں۔
بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی سپریم کورٹ کا کردار اور گجرات حکومت کی پوری کارروائی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارے نظام عدل میں بے شمار خرابیاں در آئی ہیں جسے اگر بروقت درست نہیں کیا گیا تو ملک کے نظام عدل سے عوام کا اعتماد اور بھروسہ ختم ہو جائے گا۔ کسی بھی ملک کے استحکام اور ترقی میں عوام کا اعتماد و بھروسہ ہی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اگر ملک کے نظام اور اداروں سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے تو ایسا ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ملک کی تباہی پر ہی منتج ہوتا ہے۔ گجرات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کی طویل تاریخ ہے تاہم، 1986 اور 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات ہندوستان کی تاریخ کے وہ بدترین فسادات ہیں جنہوں نے ہندوستان کے سیاسی نظام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔
بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور اس کی تین سالہ بچی کا بے رحمانہ قتل گجرات فسادات کا بھیانک ترین واقعہ ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی 75ویں جشن آزادی (امرت مہوتسو) کے موقع پر بدترین جرم کے گیارہ خونخواروں کو گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی آڑ میں رہا کر دیا ہے۔ ان گیارہ مجرموں کی رہائی نے ملک کے تمام سنجیدہ شہریوں کو غمزدہ اور شرمندہ کر دیا ہے۔ یہ سب اس دن ہوا جب کہ لال قلعہ کے تاریخی فصیل سے وزیر اعظم مودی خواتین کی عزت و عصمت کے تحفظ ان کی خود اختیاری اور سماجی حصہ داری میں اضافہ کے لیے شہریوں سے عہد لے رہے تھے۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ اتنے سنگین جرم کرنے والوں کے تئیں سماج، حکومت اور عدالت کو آیا نرمی برتنی چاہیے؟ عصمت دری کے مجرموں کی رہائی نے ثابت کر دیا ہے کہ بعض طاقتیں ہمارے ملک کے عدالتی نظام کو مکمل طور سے ٹھکانے لگانے کے درپے ہیں۔ کیا ہمارے عدالتی نظام کو ایک خاص نظریہ کی گھن لگ گئی ہے۔ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے اس پوری کارروائی کے قانونی پہلوؤں پر غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے
جس کے بعد ہی یہ حقیقت واضح ہو گی کہ جب یہ سپریم کورٹ کے سامنے ان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ سامنے آیا تو جرم کی نوعیت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس عرضی کو مسترد کر دیتی؟ جب بلقیس بانو کیس کی سنوائی ممبئی کی عدالت میں ہوئی تھی تب بامبے ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی تصدیق کی تھی ایسے میں قیدیوں کی رہائی کے لیے فیصلہ کرنے کے اختیارات سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو کیوں دیے؟ جب کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے جس میں ملک کے اگلے متوقع چیف جسٹس بھی شامل تھے، وی شری ہن کیس میں واضح کر دیا تھا کہ جس ریاست کی عدالت میں ٹرائل اور فیصلہ دیا جائے گا اسی ریاست کو قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا۔ تو پھر اس معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلے کو نظر انداز کیوں کیا؟
قیدیوں کی رہائی کے قانونی پہلو اور بلقیس بانو عصمت دری کیس
آئین کے آرٹیکل 72 اور آرٹیکل 161 بالترتیب صدر جمہوریہ اور ریاستوں کے گورنر کو سزا یافتہ قیدیوں کی سزا معاف یا پھر سزا میں کٹوتی کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ جب کسی مجرم کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے تو عدالت نے عمر قید سزا کی مدت بیس سال طے کی ہے جس میں دو تہائی سزا پوری کرنا لازمی ہے یعنی چودہ سال کی سزا کی مدت پوری کیے بغیر کسی بھی قیدی کی معافی نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر سزا یافتہ قیدی کم از کم چودہ سال کی سزا کاٹ چکا ہے تو ٹرائل کورٹ کے جج کی رائے، جیل انتظامیہ کے رویے اور اس رہائی کی وجہ سے سماج پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد ضابطہ فوجداری کے سیکشن 433A کے تحت، حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قیدی کو رہا کر دے۔ مگر سزا یافتہ قیدی کا معافی حاصل کرنا اس کا بنیادی حق نہیں ہے بلکہ اسے صرف معافی کی درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
اپریل 2022 میں بلقیس بانو عصمت دری کے کیس کے گیارہ مجرمین میں سے ایک رادھے شیام بھگوان داس نے جس کی عمر ستر سال سے زائد ہو چکی ہے، پہلے گجرات ہائی کورٹ میں اپیل کی کہ چوں کہ وہ چودہ سال کی سزا کاٹ چکا ہے اس لیے اس کی سزا کو معاف کر دیا جائے۔ گجرات ہائی کورٹ کے جج نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ چوں کہ اس کیس کا فیصلہ مہاراشٹر میں ہوا ہے اس لیے اس درخواست پر سماعت اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ رادھے شیام نے پھر اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے قبل از وقت رہائی کی اپیل کی اور دعویٰ کیا کہ اس نے پندرہ سال اور چار ماہ حراست میں گزار لیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے رادھے شیام کو رہا کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے گجرات حکومت سے اس درخواست پر غور کرکے دو ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔ سپریم کورٹ کے سامنے دو سوالات تھے کہ اس درخواست پر غور کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے، گجرات حکومت کے پاس یا پھر مہاراشٹر کے پاس جہاں یہ ٹرائل چلا تھا؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اس کی معافی کی درخواست پر 1992 کی پالیسی کے تحت غور کیا جائے گا یا پھر 2014 کی پالیسی کے تحت؟ چونکہ 1992 کی پالیسی میں عصمت دری کے مجرمین کی معافی پر غور کرنے اختیار دیا گیا ہے جب کہ 2014 کی پالیسی کے مطابق عصمت دری کے مجرمین کی سزا کی معافی کی درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا۔
2002 میں گجرات قتل عام میں بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے تین سالہ بچی سمیت اہل خانہ کے بے رحمانہ قتل کی جانچ میں گجرات پولیس کا رویہ مایوس کن تھا۔ گجرات پولیس نے مجرمین کی شناخت نہ ہونے پر اس کیس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی مگر بلقیس بانو نے حقوق انسانی کی مدد سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے غیر معمولی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے کی جانچ کی ذمہ داری سی بی آئی کو دیتے ہوئے پورے معاملے کا ٹرائل گجرات سے مہاراشٹر منتقل کر دیا تھا۔
مہاراشٹر میں اس معاملے کا ٹرائل چلا اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج جسٹس یو ڈی سالوی نے 2008 میں گیارہ افراد کو مجرم ٹھہرایا تھا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہوں نے ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے دیگر سات ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ مئی 2017 میں جسٹس وجیا تہلرامانی اور مردولا بھٹکر کی بامبے ہائی کورٹ بنچ نے گیارہ مجرمین کی سزا کو برقرار رکھا اور سات افراد کو بھی مجرم قرار دیا جنہیں جسٹس سالوی نے بری کیا تھا۔ ان مجرمین کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپریل 2019 میں زیریں عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ فسادات کے دوران بلقیس بانو چونکہ بے بسی اور خانہ بدوش کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی تھی، اسے تشدد میں اپنے خاندان کے پانچ افراد کو کھونے کے صدمے میں ابھرنے اور خود کو سنبھالنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس لیے سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے دینے کی گجرات حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے سرکاری نوکری اور رہائش کے انتظامات کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔ مگر سپریم کورٹ نے2017 کے اپنے ہی احساسات کو بالائے طاق رکھ کر مئی 2022 میں معافی کی درخواست پر غور کرنے کے لیے گجرات حکومت کو اختیار دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چوں کہ سزا 2008 میں ہوئی تھی اور اس وقت 1992 کی پالیسی نافذ تھی اس لیے معافی کی درخواست پر 1992 کے قانون کے تحت غور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی کہ وہ دو ماہ کے اندر رادھے شیام کی درخواست پر فیصلہ کرے۔
جب کوئی قیدی سزا کی معافی کی درخواست کرتا ہے تو اس کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے کہ حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے۔ٹرائل کورٹ کے جج اور جیل اتھاریٹی کی رائے لیتی ہے اور پھر سزا کی مدت کے دوران قیدیوں کے رویے اور کردار کی جائزہ لینے علاوہ معافی کی وجہ سے سماج پر پڑنے والے اثرات اور اس رہائی سے سماج کو ملنے والے پیغام کو مکمل طور پر تجزیہ کرنے کے بعد ہی کمیٹی معافی سفارش کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے اس متعینہ اصول و ضوابط کی پاسداری کی تھی؟ کیا حکومت نے ان گیارہ مجرموں کو معاف کرنے سے قبل ٹرائل کورٹ کے جج ڈی سالوی کی رائے لی گئی تھی جبکہ حکومت کو معلوم تھا کہ معافی کی وجہ سے سماج پر خراب اثرات مرتب ہوں گے۔
کل تک جو بلقیس بانو کہتی تھی کہ ہندوستان کے نظام عدل پر ان کے بھروسے میں اضافہ ہوا ہے وہ اب پوچھتی ہیں کہ کیا یہی انصاف ہے؟ اس کے سامنے سوال یہ بھی کھڑا ہو گیا کہ وہ اس گاؤں میں کیسے رہ سکتی ہے جہاں اس کی عصمت دری کرنے والے مجرمین رہتے ہوں؟
کریمنل قوانین کی ماہر اور سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ایڈووکیٹ ریبیکا جان نے آج (سنیچر کو) عدالتی فیصلوں کی رپورٹنگ کرنے والی مشہور ویب سائٹ لائیو لا (Live Law) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ کا معافی کی درخواست پر غور کرنے کے لیے گجرات حکومت کو ’’مناسب اتھاریٹی قرار دینا‘‘ قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے، چنانچہ سپریم کورٹ کو اس پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ریبیکا جان کہتی ہیں کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر کی دفعہ 432 (7) کے مطابق چوں کہ ٹرائل مہاراشٹر میں ہوا تھا اس لیے معافی کا فیصلہ کرنے کے لیے مہاراشٹر حکومت ہی مناسب اتھارٹی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جرم کہاں انجام دیا گیا ہے۔
ریبیکا جان کہتی ہیں کہ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قیدی کی سزا معاف کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ سے رائے لینا ضروری ہے کیونکہ جج نے ہی ریکارڈ پر موجود شواہد دیکھے ہیں اور کارروائی کے دوران ملزمان کے طرز عمل کو دیکھا ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس یو ڈی سالوی سے جو ٹرائل کورٹ کے جج تھے رائے لی گئی ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اس کیس کی جانچ سی بی آئی نے کی تھی جو مرکزی ایجنسی ہے۔ دفعہ 435 کے مطابق اگر کسی مجرم کے خلاف مرکزی ایجنسی جانچ کرتی ہے تو ایسے مجرم کی سزا معاف کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو مرکز سے مشورہ کرنا لازمی ہے۔ سپریم کورٹ نے مئی 2022 میں معافی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دیتے وقت دفعہ 435 پر بھی غور کرنے کی ہدایت دی تھی، تو گجرات حکومت نے ان گیارہ مجرمین کی رہائی کے لیے مرکزی حکومت سے رائے کیوں نہیں لی؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ جون میں مرکزی وزارت داخلہ نے ہندوستان کی آزادی کے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر قیدیوں کی رہائی کے لیے رہنما خطوط جاری کیے تھے کہ 15 اگست 2022، 26 جنوری، 2023 اور 15 اگست، 2023 کو قیدیوں کو خصوصی معافی دی جائے گی۔ رہنما خطوط میں واضح کیا گیا کہ عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو ریاستی حکومت رہا نہیں کر سکتی ہے۔
جہاں تک سوال ٹرائل عدالت کے جج کی رائے لینے کا ہے تو جسٹس یو ڈی سالوی نے بذات خود سامنے آ کر ایک انٹرویو میں پورے معاملے کو واضح کر دیا ہے کہ گجرات حکومت نے ان سے کوئی رائے نہیں لی ہے۔مشہور صحافی برکھا دت کو دیے گئے انٹرویو میں جسٹس یو ڈی سالوی کہتے ہیں کہ ’’اجتماعی عصمت دری اور قتل وغارت گری جیسے گھناؤنے جرم کے مجرمین کی رہائی نے ملک کے سامنے بدترین مثال قائم کی ہے۔ اس فیصلے کے وسیع اثرات مرتب ہوں گے اور اس کو نظیر بنا کر عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم کے مجرمین ریلیف کی تلاش کریں گے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ گجرات حکومت نے گیارہ مجرمین کو ایسے وقت میں رہا کیا ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی نے خواتین کا احترام کرنے اور ان کی تذلیل سے گریز کرنے اور خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی ہے مگر ان کے ہی لوگ ایک بے بس عورت کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے والوں کو رہا کر کے عورتوں کی تذلیل کر رہے ہیں۔ جسٹس سالوی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی انگشت نمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ریاستی حکومت کو 1992 کی پالیسی کے تحت معافی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دینا ناقابل فہم ہے۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالت اس قسم کے فیصلوں کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ جب 1992 کی پالیسی منسوخ ہو چکی ہے تو پھر اس پالیسی کے تحت مجرمین کی رہائی پر غور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس سالوی کہتے ہیں کہ سزا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دی جاتی ہے کہ مجرم کو یہ احساس ہو کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے۔ ملزم کو پشیمان ہونا چاہیے اور توبہ کا اظہار کرنا چاہیے۔ مگر جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جیل سے رہائی کے بعد ان گیارہ مجرمین کا باضابطہ استقبال کیا گیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، ان کے اعزاز میں پروگرام منعقد ہوئے تو پھر ندامت کہاں ہوئی؟
تاہم سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ سنتوش ہیگڑے کہتے ہیں 1992 کی پالیسی کے تحت بھی ان مجرمین کی معافی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ 1992 کی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عصمت دری اور دیگر گھناؤنے جرم کے مجرمین کو معافی دینے سے قبل اس بات کا جائزہ لینا لازمی ہے کہ اس معافی سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سے سوسائٹی کو کیا پیغام جائے گا اور ان مجرمین کو سزا کن حالات میں دی گئی تھی؟ ایڈووکیٹ ہیگڑے کہتے ہیں کہ ان مجرمین کی رہائی کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی وہ بذات خود سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ اس کمیٹی میں بی جے پی کے دو ممبران اسمبلی شامل تھے، سماجی کارکن کے نام پر جن لوگوں کو شامل کیا گیا تھا وہ سب بی جے پی کے کارکنان ہیں اور گودھرا فسادات کے کئی معاملوں میں مجرموں کے گواہ ہیں۔ کیا ایسے ممبروں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ متاثرہ کے جذبات اور معاشرہ پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں گے؟
’’ہفت روزہ دعوت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ فردوس مرزا کہتے ہیں کہ مجرمین کی رہائی کا پورا معاملہ ہی غیر قانونی ہے۔سپریم کورٹ نے خود اپنی ہی آئینی بنچ کے فیصلے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس پانچ رکنی بنچ کے چار ججوں نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ جرم کہاں ہوا ہے بلکہ ٹرائل جس ریاست میں ہوا ہے اسی ریاست کو مجرمین کو معاف کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح آر پی سی کی دفعہ 435 کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جس کے تحت مرکزی حکومت کی رائے لینا لازمی تھا۔ ایڈووکیٹ فردوس مرزا کہتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالت میں اگر نظرثانی کی اپیل کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان گیارہ مجرمین کی معافی منسوخ ہو جائے گی۔
مجرموں کی پشت پناہی گجرات ماڈل کا حصہ ہے؟
ایک طرف سپریم کورٹ کے ایک تبصرے کی بنیاد پر گجرات قتل عام کے مجرموں کو بے نقاب کرنے والے سماجی کارکن تیستا سیتلواد اور سابق پولس آفیسر سری کمار جیسی شخصیات کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے تو دوسری طرف گھناؤنے جرائم کرنے والے مجرموں کو معاف کیا جا رہا ہے۔ گجرات میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی میور جانی کہتے ہیں کہ بلقیس بانو عصمت دری کے مجرمین کی رہائی دراصل گجرات ماڈل کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ان کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ تمام رعایتیں برتی جائیں گی اور جو ان کے ساتھ نہیں ہیں انہیں کسی جرم کے بغیر بھی سلاخوں کے پیچھے میں بند کر دیا جائے گا۔ میو جانی مزید کہتے ہیں کہ دراصل گجرات فسادات کے بعد سے ہی میڈیا میں پروپیگنڈے کے ذریعہ ترقی کا گجرات ماڈل پیش کیا گیا اور اس کی بدولت ہی مودی وزارت عظمی تک پہنچ گئے۔ دوسری طرف اسی عرصے میں گجرات فسادات کی جانچ کرنے والے کمیشنوں میں ناناوتی کمیشن، جسٹس شاہ کمیشن، کرشنا ائیر کمیشن اور دیگر چار کمیشنوں کو کمزور کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔جسٹس شاہ اور ناناوتی کمیشن میں آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ نے جب ثبوت پیش کیے تھے تو اس کو قبول ہی نہیں گیا۔ آر وی کمار، کلدیپ شرما جیسے پولیس عہدیداروں نے ثبوت جمع کرنے کی کوشش کی تو ان کا سزا کے طور پر تبادلہ کر دیا گیا۔ گلبرگ سوسائٹی قتل کیس میں، جس میں سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کا قتل کیا گیا تھا، وکلا نے کئی گواہوں کو پیش کیا مگر انہیں سنا ہی نہیں گیا۔ میور جانی کہتی ہیں کہ مجرموں کی پشت پناہی ہی دراصل گجرات ماڈل ہے۔ سیاسی مفادات کی خاطر ہندوتوا کا ’’اپرادھی کرن‘‘ ہو رہا ہے یعنی اسے مجرمانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال اقلیتوں سے زیادہ ہندوتوا سماج کے لیے سنگین ہے کہ اگر اس لمحے ہم سب نے مل کر آواز بلند نہیں کی تو ہم دنیا کے سامنے ہندوازم کو رسوا اور بدنام کر رہے ہوں گے۔مشہور صحافی شیتل پی سنگھ گیارہ مجرمین کی رہائی کو سماج اور معاشرہ کا ’’اپرادھی کرن‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ گجرات سے اترپردیش تک پھیل گیا ہے۔ گجرات فسادات میں جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے انہیں بھی بچانے کے لیے گجرات حکومت نے ہر ممکن کوشش کی، مایاکوڈنانی، بابو بجرنگی اور دیگر مجرمین کو قانون سے ہٹ کر پیرول پر ریا کیا گیا ہے۔ بے گناہوں کا انکاؤنٹر کرنے والے ونجارا کو بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ مگر اس پورے معاملے میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اجتماعی عصمت دری اور بے گناہوں کی تعذیب اور بے رحمانہ قتل کے معاملے میں سپریم کورٹ کو بھی ملوث کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ خود دانستہ و نادانستہ اس دلدل میں پھنس گئی ہے۔ شیتل کہتے ہیں کہ جب مجرموں کی معافی کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر غور تھی اس وقت بلقیس بانو کا موقف رکھنے کے لیے کوئی وکیل موجود نہیں تھا۔در اصل یہ مسئلہ سپریم کورٹ کا ہے جو ملک کے ایلیٹ کلاس کی عدالت بن گئی ہے جہاں عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہے۔ جب ملک کی خدمت کرنے والے آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ سپریم کورٹ تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں تو بلقیس یا پھر عام لوگوں کی رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی صرف اقلیتوں کو انصاف دینے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس نے عدالت عظمی اور ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہندوؤں کے سامنے بھی بحران کھڑا کر دیا ہے کہ آیا وہ مظلوموں کے ساتھ ہیں یا اپنے گھناؤنے جرائم سے تمام ملک کو شرمسار کر دینے والے مجرموں کے ساتھ ہیں؟ اب دیکھنا ہو گا کہ یہ دونوں اس بحران سے نکلنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
فون:8777308904

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022