این سی ای آرٹی کے ذریعہ نصاب کی گئی چند اہم تبدیلیاں
٭ دو درسی کتابوں سے 2002کے گجرات فسادات کے حوالے حذف کردیے گئے ہیں۔ 12ویں جماعت میں سوشل سائنس کے نصاب کتاب کے آخری باب میں فسادات سے متعلق دو پورے صفحات کو حذف کر دیا گیا ہے۔اس کا عنوان ’’ہندوستان میں سیاست آزادی کے بعد سے‘‘۔ پہلے صفحہ پر ایک تفصیلی پیراگراف تھا جس میں واقعات کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ کارسیوکوں سے بھری ٹرین کو آگ لگا دی گئی اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعار ونما ہوئے اور تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہونے پر گجرات حکومت پر قومی انسانی حقوق کمیشن کی تنقید کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ حذف شدہ اقتباس میں کہا گیا تھا: ’’گجرات کی طرح کے واقعات، ہمیں مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس سے جمہوری سیاست کو خطرات لاحق ہوتے ہیں‘‘۔
دوسرا صفحہ (جسے اب حذف کر دیا گیا ہے) اس میں فسادات سے متعلق تین اخباری رپورٹس کے ساتھ ساتھ قومی حقوق انسانی کمیشن کی 2001-2002 کی سالانہ رپورٹ جس میں گجرات حکومت کے فسادات سے نمٹنے کے طریقے پر سوال کھڑے کیےگئے تھے ۔ اس حصے میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی مشہور نصیحت جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو’’راج دھرم‘‘نبھانے کی ہدایت دی گئی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’میرا ایک پیغام وزیرا علیٰ (گجرات) کو یہ ہے کہ وہ ’’راج دھرم‘‘ کی پیروی کریں۔ کسی حکم راں کو اپنی رعایا کے درمیان ذات پات، مسلک اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کرنا چاہیے۔ واجپائی نے یہ بات مارچ 2002 میں احمد آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہی تھی۔اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ان کے پہلو میں بیٹھے تھے۔اب یہ سب نصاب کا حصہ نہیں ہے۔
٭12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب ’’انڈین سوسائٹی‘‘سے گجرات فسادات کا دوسرا حوالہ حذف کر دیا گیا ہے۔این سی ای آر ٹی نے باب 6 میں Communalism, Secularism and the Nation ‘Stateکے عنوان کے تحت ایک پیراگراف کو حذف کردیا ہے جس میں بتایا گیا تھاکہ کس طرح فرقہ واریت لوگوں کو ’’دوسری برادریوں کے افراد کو مارنے، عصمت دری کرنے اور لوٹنے پر مجبور کرتی ہے۔
حذف شدہ پیرا گراف میں لکھا گیا تھا کہ ’’ کوئی بھی خطہ کسی نہ کسی طرح کے فرقہ وارانہ تشدد سے مکمل طور پر مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔ ہر مذہبی طبقے نے کم و بیش تشدد کا سامنا کیا ہے، تاہم زیادہ نقصانات اقلیتوں کو برداشت کرنے پڑے ہیں ۔کوئی بھی حکومت یا حکمران جماعت اس سلسلے میں بے قصور ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ درحقیقت، فرقہ وارانہ تشدد کی دو سب سے زیادہ تکلیف دہ مثالیں ہیں۔1984 میں دہلی کے سکھ مخالف فسادات کانگریس کے دور حکومت میں ہوئے تھے۔ 2002 میں گجرات میں مسلم مخالف تشدد بی جے پی دورحکومت میں ہوئے ۔
٭ 12 ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں ایمرجنسی سے متعلق باب ‘Politics in India since Independence’کے پانچ صفحات کوکم کر دیا گیا ہے۔ ’جمہوری نظام کا بحران‘ کے عنوان سے باب میں حذف شدہ مواد میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے اور اس دوران اندرا گاندھی حکومت کے ذریعہ کیے گئے اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانی سے متعلق تنازعات کا ذکر تھا ۔ اس میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، میڈیا پر پابندیاں، تشدد اور حراست میں اموات، جبری نس بندی اور غریبوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسی زیادتیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا ۔ اس حصے میں جسٹس جے سی شاہ کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جسے جنتا پارٹی حکومت نے مئی 1977 میں ایمرجنسی کے دوران حکومت کی طرف سے زیادتیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا تھا۔اس کے علاوہ 12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب ‘انڈین سوسائٹی’ کے باب 6 (‘ثقافتی تنوع کے چیلنجز’) سے ایمرجنسی کے سخت اثرات کا حوالہ بھی حذف کر دیا گیا ہے۔
٭سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے راجا اشوک سے متعلق اقتباس کو چھٹی کلاس کی نصابی کتاب سے ہٹادیا گیا ہے۔اس میں راجااشوک کے ذریعہ تشدد کی راہ چھوڑنے کا ذکر کیا گیا تھا ۔حذف شدہ اقتباس میں کہا گیا تھاکہ ’’اشوک کے ہدایات سے اب بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور ان کی راہ پر چل کر دنیا کی بہتر تشکیل کی جاسکتی ہے۔
بھاکڑا ننگل ڈیم پر نہرو کے تبصرے کو12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب (ہندوستان میں سماجی تبدیلی اور ترقی) کے باب ’’ساختی تبدیلی‘‘ کو حذف کردیا گیا ہے۔اس میں لکھا گیا تھا کہ ’’ہمارے انجینئر ہمیں بتاتے ہیں کہ شاید دنیا میں اس سے زیادہ اونچا ڈیم کہیں اور نہیں ہے۔ کام مشکلات اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب میں اس جگہ پر گھوم رہا تھا تو میں نے سوچا کہ ان دنوں سب سے بڑا مندر اور مسجد اور گردوارہ وہ جگہیں ہیں جہاں انسان بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔ ان سے بڑا کون سا مقام ہو سکتا ہے، یہ بھاکڑا ننگل جہاں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے کام کیا، اپنا خون پسینہ بہایا اور اپنی جانیں بھی نچھاور کیں۔‘‘
٭ سماجی سائنس کی نصابی کتابوں سے نکسل ازم اور نکسل تحریک کے تقریباً تمام حوالوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔ 1967 کی کسان بغاوت پر ایک پورا صفحہ اور نکسلی نظریاتی چارو مجمدار کے ایک باکس کے ساتھ اب 12ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب ‘Politics In India since Independence’ کے باب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب ’’ہندوستان میں سماجی تبدیلی اور ترقی‘‘کے باب 8 میں ’’کسان تحریک‘‘ سے نکسل تحریک کا ذکر ہٹا دیا گیا ہے۔
٭چھٹی جماعت کے پولیٹیکل سائنس کی نصابی کتاب (سماجی اور سیاسی زندگی : حصہ اول) کے باب ’’تنوع اور امتیاز‘‘ کے تحت ’امتیازی سلوک‘ کے زیر عنوان مواد سے ایک بڑا حصہ حذف کردیا گیا ہے۔ حذف شدہ حصے میں لکھا ہوا تھا کہ: ’’.. ذات پات کے ضابطے طے کیے گئے تھے جو نام نہاد ’’اچھوت‘‘ کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے‘‘۔اس کے علاوہ نصابی کتابوں سے آشرم کے کردار اور خواتین کو ویدوں کا مطالعہ نہ کرنے کی اجازت سے متعلق باب کو بھی حذف کردیا ہے ۔
قدیم ہندوستان میں خواتین اور شودروں کو ویدوں کا مطالعہ کرنے کی اجازت نہ دینے کا تذکرہ جماعت ششم کی تاریخ کی نصابی کتاب سے ہٹادیا گیا ہے۔ایک اور پیراگراف کو ہٹا دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ذات پر مبنی امتیاز صرف دلتوں کو بعض اقتصادی سرگرمیوں سے روکنے تک محدود نہیں تھا بلکہ انہیں عزت اور وقار سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب ’’انڈین سوسائٹی‘‘ میں ’’اچھوت پن‘‘ کیسے چلتا ہے کے باب کو ہٹادیا گیا ہے۔اس کے علاوہ سماجی کارکن وسابق آئی اے ایس آفیسر ہرش مندر کی کتاب ’’اَن ہارڈ وائسز: اسٹوریز آف فارگاٹن لائفز‘‘ کا ایک اقتباس، جس میں دلت دستی صفائی کرنے والے کی مشکلات کو بیان کیا گیا ہے کو حذف کردیا گیا ہے۔
٭ سماجی تحریکوں کے ذریعے دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے انصاف کے حصول اوراونچی ذات کے ردعمل سے متعلق ایک باب کو 12ویں جماعت کی سماجیات کی نصابی کتاب کے آخری باب ’’ہندوستان میں سماجی تبدیلی اور ترقی‘‘ سے ایک حصہ ہٹا دیا گیا ہے۔
٭چھٹی جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب ’’سماجی اور سیاسی زندگی‘‘ کے باب ’تنوع اور امتیاز‘کو حذف کردیا گیا ہے۔اس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے بارے میں ایک عام دقیانوسی تصور کو بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے جب کہ یہ حقیقت سے بعید ہے۔ ایک ساتھ پڑھنے والی تین لڑکیوں کی ایک تصویر بھی نکال دی گئی ہے۔
12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب سے ’’ثقافتی تنوع کے چیلنجز‘‘کے باب کو حذف کردیا گیا ہے۔اس باب میں ہندو فرقہ پرستی کے خطرات،اس کے سر اٹھانے کے اسباب اور اس سے اقلیتوں کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کیا گیا تھا۔
اسی باب میں عددی اکثریت کے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے امکان اور اقلیتی برادری پر اس کے اثرات کے بارے میں ایک پیرا گراف کو نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔اس میں لکھا ہوا تھا کہ جمہوری سیاست میں انتخابات کے ذریعے عددی اکثریت کو سیاسی طاقت میں تبدیل کرنا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی یا ثقافتی اقلیتیں – ان کی معاشی یا سماجی حیثیت سے قطع نظر – سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ انہیں اس خطرے کا سامنا کرنا ہوگا کہ اکثریتی طبقہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرے گا اور ریاستی مشینری کو اپنے مذہبی یا ثقافتی اداروں کی بالادستی کے لیے استعمال کرے گا، بالآخر انہیں اپنی مخصوص شناخت کو ترک کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2022