مولانا مودودی ؒ کاحیدرآباد کے قائدین کے نام ایک خط

بتوسط : جناب محمد یونس صاحب
مورخہ 28 دسمبر 1947
محترمی و مکرمی

السلام علیکم
حیدرآباد کے مسلمانوں سے اپنی اخوت کی بنا پر میرا جو تعلق ہے، اگرچہ اس کا بھی یہ تقاضا ہے کہ میں اس نازک موقع پر ان کو ایک خیرخواہانہ مشورہ دوں، لیکن اس کے علاوہ حیدرآباد سے اس بنا پر میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے کہ اورنگ آباد میرا پیدائشی وطن ہے اور میری زندگی کا نصف سے زائد حصہ حیدرآباد ہی میں بسر ہوا ہے۔ اس دوہرے قلبی تعلق کی وجہ سے میں اس تمام تشویش اور فکر مندی میں بُعد مقام کے باوجود حیدرآباد کے مسلمانوں کے ساتھ برابر کا شریک ہوں جس میں وہ موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے اپنے آپ کو مبتلاپا رہے ہیں۔ یہی چیز مجھ ک ومجبو رکرتی ہے کہ میں بلا طلب اپنا مشورہ ان حضرات کی خدمت میں پیش کروں جو اس وقت مسلمانان حیدرآباد کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری ان گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور سرسری طور پر انہیں نظر انداز نہ کریں گے تاہم اگر ایسا کریں تو میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاوں گا اور میرا ضمیر مطمئن رہے گا کہ اپنے بھائیوں کا جو حق مجھ پر عائد ہوتا تھا اسے ادا کرنے کی میں نے کوشش کی۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے ابھی ابھی اپنا جو انجام دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں وہ دراصل خمیازہ ہے ان کوتاہیوں کا جو پچھلی صدیوں میں ہمارے حکمراں ہمارے امرا ہمارے مذہبی پیشواوں کا ایک بڑا گروہ اوربہ استثنائے چند ہمارے عام اہل ملت اپنے اس فرض کی ادائیگی میں برتتے رہے ہیںجو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتا تھا۔ اگر وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے، اگر وہ اپنے اخلاق اور معاملات اور اپنی سیرتوں میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرتے اگر وہ اپنی سیاست اور حکمرانی میں عدل و انصاف پر قائم رہتے اور اپنی طاقتوں کو اسلام کی سچائی پھیلانے میں صرف کرتے تو آج دہلی اور مغربی یوپی اور مشرقی پنجاب سے مسلمان اس طرح بیک بینی و دو گوش نہ نکال دیے جاتے جیسے اس وقت نکالے گئے ہیں اور یو پی ، بہار اور وسط ہند میں ان کے سر پر اس طرح تباہی منڈلارہی نہ ہوتی جیسی آج منڈلا رہی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کا اقتدار رہا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی بڑی بڑی عظیم جاگزیں قائم رہی ہیں اور جہاں مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے علوم و فنون کے عظیم الشان مراکز موجود رہے ہیں لیکن عیش دنیا میں انہماک فوجی طاقت اور سیاسی اقتدار پر انحصار اسلام کی دعوت پھیلانے سے تغافل اور انفرادی سیرتوں اور اجتماعی طرز عمل میں اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان علاقوں کی عام آبادی غیر مسلم رہی۔ مسلمان ان کے درمیان آٹے میں نمک کے برابر رہے اور دلوں کو مسخر کرنے کے بجائے معاشی اور سیاسی دباو سے گردنیں جھکوانے پر اکتفا کرتے رہے۔ پھر جب سیاسی اقتدار ان سے چھن گیااور ایک غیر ملکی قوم ان پر مسلط ہوئی تب بھی انہوں نے اور ان کے رہنماوں نے ان اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جن کی بنا پر وہ حاکم سے محکوم بن کر رہ گئے تھے ، بلکہ وہ اپنے سیاسی مطالبے اور دعوے ہمسایہ اکثریت کے مقابلے میں اس تیسری طاقت سے جس کے اقتدار کو بہرحال عارضی ہونا تھا منواتے رہے۔
اس تمام مدت میں زندگی کی جو مہلت مسلمانوں کو ملی تھی اس میں اپنی اخلاقی اصلاح کرنے اور اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے بجائے مسلمان محض معاشی اور سیاسی فائدوں کے لیے غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کشمکش کرکے بظاہر یہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنے جینے کا سامان کررہے ہیں لیکن دراصل وہ اپنی قبر کھود رہے تھے اور آخر کار آج ہماری بد قسمت آنکھوں نے دیکھ لیا کہ بہت سے تو قبر میں دفن ہوگئے ہیں اور بہت سے زندہ درگور ہیں۔
یہ جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں کو پیش آیا ہے میں چاہتا ہوں کہ حیدرآباد کے مسلمان اس سے سبق لیں اور جو تھوڑی سی مہلت ان کو سنبھلنے کے لیے ملی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کی پوزیشن ہندوستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں بھی صدیوں کی حکومت کے باوجود باشندوں کی عظیم اکثریت غیر مسلم ہے اور مسلمان پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہاں بھی مسلمان اور غیر مسلموں کے درمیان سیاسی اور معاشی کشمکش سے وہی قومی منافرت پیدا ہوچکی ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوچکی تھی اور اس انتہائی تلخی کی حد تک پہنچتی جارہی جو دہلی اور پنجاب میں پائی جاتی ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی ریاست قائم ہے اور ریاست کے نظم و نسق پر مسلمان چھائے ہوئے ہیں لیکن یہ فرق جو اب تک حیدرآباد کے مسلمانوں کے بچے رہنے کا موجب بنا ہوا ہے کچھ ایسا زیادہ پائیدار اور مستحکم نہیں ہے کہ حیدرآباد کے مسلمان اس کے بھروسہ پر زیادہ مدت تک جی سکتے ہوں۔
’انڈین یونین کی ہندو اکثریت جو سابق انگریزی طاقت کی وارث ہوئی ہے حیدرآباد کے چاروں طرف محیط ہے۔ حیدرآباد اس کے محاصرہ میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ کسی طرف سے وہ مدد نہیں پا سکتا۔ ریاست کی 85 فیصدی آبادی غیر مسلم ہے اور وہ مسلمان ریاست کے اقتدار کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ جمہوریت کے دور میں پندرہ فیصدی مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ حکمرانی ان کے ہاتھ میں رہے یا وہ کم از کم آدھے اقتدار کے شریک ہوں کسی طرح نہیں چل سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ غیر مسلموں کے کسی معتدبہ عنصر کو مسلمان اپنے ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کرسکیں یا کم از کم پچاس فیصدی رائے حاصل کرسکیں گے۔ اس صورتحال میں اگر مسلمان اپنے اقتدار کو اور ان تمام امتیازی حقوق اور اختیارات اور فوائد و منافع کو برقرار رکھنا چاہیں جو انہیں اب تک حاصل رہے ہیں تو اس کے لیے انہیں لڑنا پڑے گا اور لڑائی محض ریاست کی غیر مسلم اکثریت سے نہیں ہوگی بلکہ آخر کار انڈین یونین کی فوجی طاقت سے ہوگی جس کی پشت پر پورے ہندوستان کی ہندو قوم کی متفقہ طاقت ہوگی۔ مجھے امید نہیں کہ اس لڑائی میں ریاست کی طاقت حیدرآبادی مسلمانوں کا ساتھ دے گی رئیس کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مفاد اور اپنے خانوادہ کے مفاد کو دیکھتا ہے ۔ اگر وہ محسوس کرے کہ مسلمانوں کا ساتھ دینے سے اس کو بھی نواب جونا گڑھ کا سا انجام دیکھنا پڑے گا تو بعید نہیں کہ وہ انڈین یونین کے ساتھ اپنا معاملہ طے کرلے اور اپنی قوم کو اس کی قسمت پر چھوڑدے۔ حیدرآباد کی فوج ، پولیس، عدالتوں اور (Administration) پر بھی آپ یہ بھروسہ نہیں کرسکتے کہ وہ اس لڑائی میں کچھ بہت زیادہ آپ کے کام آسکیں گے۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی خالص مسلمان عناصر پر مشتمل نہیں ہے بلکہ سب سے اچھا خاصا غیر مسلم عنصر موجود ہے۔ ’لہٰذا اگر خدانخواستہ لڑائی کی نوبت پیش آ گئی تو شاید حیدرآباد کے مسلمانوں کا انجام اس سے بھی زیادہ دردناک ہو گا جو مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا ہوا ہے۔ کیوں کہ یہاں کم از کم اتنا فائدہ تو تھا کہ پاکستان کی سرحدیں قریب تھیں اور پاکستان کی فوج ان کو نکال کر لانے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن اگر خدانخواستہ حیدرآباد کے مسلمانوں پر ایک طرف خود گھر کی اکثریت اور دوسری طرف گرد و نواح کے علاقوں کے مسلح ہندو جتھے اور تیسری طرف انڈین یونین کی فوجیں ٹوٹ پڑیں اور خود ریاست کے نظم و نسق نے ان کا ساتھ نہ دیا تو ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی۔ نہ کہیں سے وہ مدد پا سکیں گے اور نہ کہیں جا سکیں گے۔‘
اس بنا پر میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اس فرق کو جو سردست آپ کی حالت اور ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت میں پایا جاتا ہے کوئی بہت بڑا پائیدار قابل اعتماد فرق نہ سمجھیں اور چند مہینوں کی مہلت جو خوش قسمتی سے آپ کو مل گئی ہے ضائع کرنے کے بجائے ایسا لائحہ عمل بنانے میں صرف کریں جس سے مسلمانان حیدرآباد کی نہ صرف یہ کہ جان و مال اور آبرو بچ جائے بلکہ ان کو ایک بہتر اور زیادہ شاندار مستقبل تک پہنچنے کا راستہ مل جائے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں اصل چیز جو مسلمانوں کے لیے ذریعہ تحفظ ہی نہیں بلکہ ذریعہ ترقی اور وسیلہ سر بلندی ہوسکتی ہے وہ تو یہی ہے کہ وہ اسلام پر قائم ہوں، اس کے صحیح نمائندے بنیں اور اس کی دعوت اپنے قول وعمل سے دنیا کے سامنے اور بحیثیت ایک قوم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے کھڑے ہوں۔ یہی چیز ان کے لیے زندگی اور عزت کی زندگی کی ضامن ہوسکتی ہے لیکن ان خطوط پر اپنی قوم کو تیار کرنے کے لیے بہر حال ہمیں کچھ وقت درکار ہے اور یہاں حال یہ ہے کہ طوفان سر پر آچکا ہے۔ اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم کوئی ایسی تدیبر سوچیں جس سے یہ طوفان ٹل سکے اور ہمیں اتنا وقت مل جائے کہ ہم مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح کرسکیں اور دعوت اسلامی کے کام کو منظم طریقہ سے آگے چلاسکیں۔
میں اس مسئلہ میں بہت غور کرتا رہا ہوں کہ ایسی تدابیر کیا ہوسکتی ہے اور آخر کار میں جن نتائج پر پہنچا ہوں ان کو ذیل میں نمبر وار بیان کرتا ہوں
۱۔ ہندوستان اور حیدرآباد کی سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کسی طرح ممکن نظر نہیں آتا کہ آپ انڈین یونین میں حیدرآباد کے داخلہ کو اور حیدرآباد میں ذمہ دارانہ حکومت کے قیام کو روک سکیں ،یہ چیز بہرحال ہو کر رہے گی آپ کے روکے نہ رک سکے گی اور روکنے کی کوشش کا حال اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ ریاست اور مسلمان دونوں تباہ ہوجائیں یا صرف مسلمان تباہ ہوں اور ریاست مسلمانوں کوبھینٹ چڑھا کر اپنے آپ کو بچا لے۔ اس صورت حال میں عقلمندی یہ ہے کہ مزاحمت کرنے کے بجائے آپ ایسی بنیادوں پر مفاہمت کرنے کی کوشش کریں جن سے انڈین یونین کی شرکت اور ذمہ دار حکومت کا قیام نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے کم سے کم مضر ثابت ہو سکے بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے مواقع حاصل ہو جائیں جن سے وہ اپنی تعمیر زیادہ اچھی طرح کر سکیں۔
۲۔’مزاحمت اور کشمکش کرنے کے بجائے اگر اس وقت حیدرآبادی مسلمانوں کی قومی تنظیم یعنی انجمن اتحاد المسلمین یہ بات پیش کر ے کہ وہ چند شرائط کے ساتھ انڈین یونین کے داخلہ اور مکمل ذمہ دار حکومت کے قیام پر بخوشی راضی ہے تو مجھے امید ہے کہ اس مرحلہ پر اسٹیٹ کانگریس اور انڈین یونین ہماری شرائط ماننے پر راضی ہو سکیں گی۔‘
۳۔ میرے نزدیک جو شرائط اس غرض کے لیے مفید ہوسکتی ہیں اور جن پر انڈین یونین اور اسٹیٹ کانگریس کو بآسانی راضی کیا جاسکتا ہے حسب ذیل ہیں:
الف: ریاست کے آئندہ دستور میں مسلمانوں کو یہ حق دیا جائے کہ ان کے تہذیبی اور مذہبی معاملات کے لیے ان کا پنا الگ ایک آرگنائزیشن ہو جسے مسلمانوں پر زکوۃ عائد کرنے اور خرچ کرنے کے لیے اور مذہبی اوقاف کا انتظام کرنے اور ان کی آمدنی کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کرنے کے لیے نیز مسلمانوں کا پرسنل لا ان کے معاملات نکاح و طلاق و وراثت وغیرہ پر جاری کرنے کے لیے قانونی اور عدالتی اختیار ات حاصل ہوں (ایسے اختیارات اگر دوسرے غیر مسلم گروہ بھی حاصل کرنا چاہیں تو مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں)
ب۔ مسلمانوں کے اس حق کو بھی دستور میں محفوظ کردیا جائے کہ وہ اپنے خرچ پر الگ مذہبی درس گاہیں قائم کرسکیں اور اس طرح سرکاری تعلیم گاہوں میں مسلمان بچوں کے لیے اپنے خرچ پر لازمی مذہبی تعلیم کا انتظام کرسکیں ( یعنی مسلمان بچوں کے لیے سرکاری درس گاہوں میں مذہبی تعلیم (Compulsory) ہوگی اور اس کا خرچ مسلمانوں کا مندرجہ بالا آرگنائزیشن برداشت کرے گا۔
ج۔ ریاست کے لیے جو اسمبلی یا پالیمنٹ بنے اس میں طریق انتخاب مخلوط تو ضرور ہو لیکن لازماً کوئی ایسا طریقہ انتخاب اختیار کیا جائے جس سے آبادی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا گروہ بھی نمائندگی سے محروم نہ رہ سکے۔ مثلاً متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کا وہ طریقہ جس میں ملک کو یک نشستی حلقہائے انتخاب میں تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ پورا ملک ایک حلقہ انتخاب ہوتا ہے اور رائیں منفرد نمائندوں کے حق میں نہیں بلکہ پارٹیوں کے حق میں ڈالی جاتی ہیں۔
د۔ دستور کی ترمیم پر ایسی پابندی عائد کی جائے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے وہ حقوق جو انہیں پہلے دستور میں دیے گئے ہوں بعد کی کسی ترمیم میں بآسانی سلب نہ کیے جاسکیں۔ مثلاً دستور کی ترمیم کے لیے استصواب رائے عامہ ضروری قرار دیا جائے اور کم از کم 80فیصدی یا 85فیصدی ووٹوں کے بغیر کوئی ترمیم پاس نہ ہوسکے۔
ھ۔ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ سرکاری محکموں اور ان کے کسی شعبے میں بھی مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے بہرحال گھٹنے نہ پائے گا اور کسی شعبے میں ان کے خلاف کوئی امتیازی پابندی عائد نہ کی جائے گی۔
و۔ ازروئے دستور تبدیلی مذہب پر پابندی عائد نہ ہوسکے گی۔
ان شرائط کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ریاست میں مکمل ذمہ دارانہ حکومت قائم ہو اور نظام صرف ایک دستوری فرمانروائی کی حیثیت سے رہیں۔ نظام کے لیے دستوری فرمانروا سے بڑھ کر کسی پوزیشن کے مطالبے پر مسلمانوں کو اصرار نہ کرنا چاہیے ورنہ وہ سمجھ لیں کہ یہ چیز ایک خاندان کے مفاد پر ایک پوری قوم کے مفاد کو قربان کرنے کے ہم معنی ہوگی جس کا خمیازہ آگے چل کر مسلمانوں کوبہت برا دیکھنا ہوگا۔
۴۔ مذکورہ بالا شرائط کے مطابق مسلمانوں کو اپنا جو قومی آرگنائزیشن قائم کرنے کا حق حاصل ہو اس سے انہیں پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ زکوۃ اور اوقاف کی آمدنی اتنی کافی ہوگی کہ اس سے ایک عظیم الشان بیت المال قائم ہوسکے گا۔ مسلمانوں کی تعلیم اخلاقی اصلاح، معاشی خوشحالی اور صنعتی ترقی کے لیے بہت سے کام کیے جاسکیں گے۔ ان کو سودی قرض سے نجات دلائی جاسکے گی اور ایسے ادارے قائم کیے جاسکیں گے جو دعوت دینی کے لیے مسلمان نوجوانوں کو تیار کریں۔ ملکی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمہ اور تفاسیر شائع کریں اور اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر اشاعت کریں۔ ان ذرائع سے یہ ممکن ہوگا کہ ہم بتدریج مسلمانوں کی طاقت حیدرآباد میں بڑھا سکیں اور اپنی سوسائٹی کو زیادہ سے زیادہ صالح بناکر غیر مسلم عناصر کو اپنے اندرجذب کرسکیں۔
۵۔ ان تحفظات کے ساتھ جو ذمہ دار حکومت قائم ہوگی اس میں مسلمان اپنا اثر اس طرح بڑھا سکتے ہیں کہ ان کی سیاسی پارٹی یعنی انجمن اتحاد المسلمین کوئی ایسا پروگرام پیش کرے جسے لے کر وہ صرف مسلمانوں ہی کے سامنے نہ جائے بلکہ غیر مسلم ووٹروں کے سامنے بھی جاسکے اور ان کی زیادہ سے زیادہ رائیں حاصل کرسکے۔ مثال کے طور پر اس کے پروگرام میں (Depressed Classes) کے لیے کوئی ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے ووٹ اونچی ذات کے ہندووں کی کوئی سیاسی پارٹی نہ حاصل کرسکے بلکہ وہ مسلم پارٹی کو حاصل ہوں۔ آج اگر آپ سیاسی جوڑ توڑ کرکے پست اقوام کو ہندووں سے توڑنے کی کوشش کریں گے تو آپ کچھ فائدہ حاصل کرسکیں گے اور یہ چیز ہندووں میں آپ کے خلاف اور زیادہ ضد پیدا کردے گی۔ لیکن کل نئے دستور کے مطابق اگر انتخابات میں آپ ایسا پروگرام لائیںجو پست اقوام کی اکثریت کو آپ کے ساتھ ہم آواز بنادے تو آپ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرسکیں گے اور رہنمائی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔
بہرحال اس نقشہ پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ مسلمان نئے حالات کے مطابق اپنے اندرسے ایک بہتر اور زیادہ بیدار مغز سیاسی لیڈر شپ پیدا کریں جو تنگ نظری کے ساتھ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی حفاظت پر مصر نہ ہوں بلکہ بڑے پیمانہ پر عدل و انصاف کے مقام سے اور عامۃ الناس کی حقیقی ترقی و فلاح کے کاموں سے مسلمانوں کے اصل مفاد کی خدمت کرسکے۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(بقلم محمد یونس صاحب، دستخط مولانا کی /ی خ ۳۱)
***

 

***

 سقوط حیدرآباد‘ کے مرتبین ڈاکٹر عمر خالدی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کا ’حیدرآبادی قائدین کے نام خط‘ پہلی بار سنہ 1982 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والی کتاب ’یادوں کے خطوط‘ میں شائع ہوا۔یہ کتاب (یادوں کے خطوط) مولانا مودودی کے اُن خطوط پر مشتمل ہے جو انہوں نے مختلف حیدرآبادی احباب بالخصوص مولانا محمد یونس کو لکھے تھے۔اپنے خط میں مولانا مودودی نے سنہ 1947 میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والےپرتشدد واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا: ’یہ جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں کو پیش آیا ہے میں چاہتا ہوں کہ حیدرآباد کے مسلمان اس سے سبق لیں اور جو تھوڑی سی مہلت ان کو سنبھلنے کے لیے ملی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘مولانا مودودیؒ کا یہ خط نہ صرف ان کی دوراندیشی و بصیرت مندی کا مظہر ہے بلکہ اس کے لفظ لفظ سے مسلمانان ہند بالخصوص حیدرآباد دکن کے ساتھ ان کے گہرے تعلق خاطر کااظہار ہوتا ہے۔مولانا کی یہ نایاب تحریر قارئین دعوت کی خدمت میں پیش ہے۔ (ایڈیٹر)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022