آخر مسلمان کہاں چلے گئے؟

‘‘The Muslim Vanishes’’ سعید نقوی کی ایک قابل مطالعہ کتاب

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ہندوستان کی عظمت رفتہ کا نوحہ۔‏ملک کی موجودہ صورت حال کی بھرپور عکاسی
ہندوستان میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی جو مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں وہ اگر کامیاب ہوگئیں تو یہ ملک مسلمانوں کے بغیر کیسا ہوگا؟ کیا مسلمانوں کی نسل کشی کردی جائے گی؟ نسل کشی سے بچ جانے والے مسلمان کہاں جائیں گے؟ اب تک ہم ان ہی سوالوں میں الجھے ہوئے تھے لیکن معروف وجہاں دیدہ صحافی سعید نقوی نے اپنی نئی کتاب ’’دی مسلم وینشز‘‘ (The Muslim Vanishes) میں ان سوالوں ہی کو پلٹ دیا ہے اور ان کے برعکس سوال اٹھایا ہے کہ اگر مسلمانوں کی نسل کشی کامیاب ہوگئی تو ہندوستان کا کیا ہوگا؟ کیا مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی شناحت برقرار رہ پائے گی؟ کیا مسلمانوں کی غیر موجودگی میں ہندوستان میں ذات پات، سماجی تفریق کے تنازعات ختم ہو جائیں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو گزشتہ تمام سوالات سے زیادہ اہم ہیں کیوں کہ ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ پورے ملک سے ہے اور یہاں کی تہذیبی و ثقافتی شناخت کے بقا کا سوال اسی سے منسلک ہے۔
پینگوئن رینڈم ہاؤس انڈیا کے زیر اہتمام شائع ہونے والی سعید نقوی کی کتاب’’دی مسلم وینشز‘‘ میں ڈرامے کے کرداروں میں مسلم مکت بھارت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ برجیش اور آنند کا کردار اور ان کے درمیان ہونے والے مکالمے میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے زوال کا نوحہ ہے۔ اگرچہ اس ڈرامے کو اسٹیج پر پیش کیا جانا باقی ہے مگر اس وقت ملک کے جو حالات ہیں مسلمانوں کے تعلق سے جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اس کو ذہن میں رکھ کر سعید نقوی کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم تھیٹر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ڈرامہ اپنے شباب پر ہے۔ حجاب پر پابندی، عوامی مقامات پر اذان اور نماز کے خلاف نفرت انگیز کارروائی، حلال گوشت کی فروخت پر پابندی، مسلم دکان داروں کا سماجی بائیکاٹ، ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کے مقامات سے مسلمانوں کے کھانے پینے کے اسٹالز کو ہٹانے کے مطالبات، دراصل یہ سب ان کی اسی خواہش کا مظہر ہے کہ ہندوستان کی عوامی اور معاشی زندگی سے مسلمان مٹ جائیں یا کم ازکم اپنے آپ کو منظرنامہ سے غائب کرلیں اور خود کو دوسرے درجے کے شہری تسلیم کرلیں۔
سعید نقوی کہتے ہیں کہ اگر یہ سب حقیقت میں واقع ہوجائے اور ہندوستان کے تمام مسلمان مکمل طور پر غائب ہوجائیں تو اس وقت کیا ہوگا؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک صحافی کو خبروں کی دنیا سے باہر کیا جاسکتا ہے لیکن آپ خبروں کی دنیا کو صحافی سے نہیں نکال سکتے۔ چناں چہ جہاں دیدہ اور تجربہ کار صحافی سعید نقوی اپنے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت ڈرامے کی شروعات بھی ’’انسائٹ ٹوڈے ٹی وی‘‘ کے نیوز روم سے کرتے ہیں۔
’’انسائٹ ٹوڈے ٹی وی نیوز چیل‘‘ کے نیوز چینل کا ماحول عام دنوں کی ہی طرح ہے۔مگر اچانک ایک بریکنگ نیوز آتی ہے۔ یہ ایک ایسی بریکنگ نیوز ہے جسے پیش کرنے میں نیوز اینکر ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اینکر اپنے باس سے کہتا ہے کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اس نیوز کو کس طرح پیش کروں، جناب والا کوئی نہیں بچا ہے۔
مطلب!
جناب میری مراد مسلمانوں ہے۔ وہ سب کے سب چلے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ سب کچھ لے کر چلے گئے ہیں۔ قطب مینار اور افضل گرو کی لاش کو بھی لے کر گئے ہیں۔ دو سو ملین مسلمان اپنی ثقافت، کلچر، وراثت، زبان وادب و ثقافت اور کھانے پینے کی اشیاء لے کر چلے گئے ہیں۔ کیا اس میں بھی کوئی سازش ہے؟
ظاہر ہے کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑی خبر ہے، ان لوگوں کے لیے جو ہندوستان کے تمام مسائل کی جڑ مسلمانوں کو سمجھتے تھے، انہیں خوش ہوجانا چاہیے تھا کہ اب ان کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں مگر سعید نقوی بہت ہی خوبصورت انداز میں ڈرامے کو اس سطح پر پہنچاتے ہیں۔ مسلمانوں کے جانے کے بعد وراثت، ثقافت و کلچر پر قبضہ کرنے کی جو جنگ شروع ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ مسلم مکت بھارت کی خواہش رکھنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ اچھا تھا کہ مسلمان نہ جاتے۔مسلمانوں کے جانے کی وجہ سے ان کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اب ان کی برابری وہ لوگ کرنے لگے ہیں جنہیں وہ نیچ سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کا خوف دکھا کر ان کا جذباتی استحصال کر کے غلام بنائے رکھا تھا اب تو مسلمانوں کا خطرہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ لوگ مساوات کی باتیں کرنے لگے ہیں، اقتدار میں حصہ داری ہی نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل مسلمانوں نے جاتے ہوئے اپنی جو دولت اور جائیدادیں چھوڑی ہیں اس کو ہتھیانے کے لیے ایک نئی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ایک کی نگاہیں اس دولت پر مرکوز ہیں۔ اعلیٰ ذات کے اشرافیہ کو نچلی ذات کے لوگ اور دیگر پسماندہ طبقات نے شکست دے کر مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر دعویٰ کر دیا ہے، اور پریشانی صرف یہی نہیں ہے کہ پسماندہ اور دلت طبقات نے مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی دولت پر قبضہ جمالیا ہے، چونکہ دلت اور پسماندہ طبقات اکثریت میں ہیں اور انتخابات ہونے کی صورت میں ملک کا اقتدار ان کے ہاتھ میں جانے کا قوی امکان ہے جس کے نتیجے میں اعلیٰ ذات کے اشرافیہ کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑ جائے گی، لہٰذا اس کو روکنے کی تدابیر شروع ہو جاتی ہیں۔
مسلمانوں کو واپس بلانے کے آپشن پر بھی غور کیا جانے لگتا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے وجود سے ہی دلت اور پسماندہ طبقات کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن، سیاسی طبقہ، میڈیا اور عام لوگ دلتوں کے اس ’’انقلاب‘‘ سے پریشان ہیں۔ ڈرامہ اسی پوائنٹ پر کلائمس پر پہنچتا ہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے مولانا حسرت موہانی کے کنوینرشپ میں خصوصی عدالت قائم کی جاتی ہے۔ اس 11 رکنی جیوری میں گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہنے والے امیر خسرو دہلوی، مہاتما جیوتی راؤ پھولے، عبدالرحیم خان، سلبیگ، راسخان، محسن کاکوروی، سنت کبیر، منشی چنولال دلگیر، گرو نانک مہاراج کے گمنام نمائندے، تلسی داس اور استاد علاؤالدین خان شامل ہیں۔ اس جیوری کے سامنے مقدمہ رکھا جاتا ہے۔
دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں مصنف نے اپنے قاری کو جیوری ممبران کے ذریعہ ہندوستان کی ہزار سالہ گنگا جمنی تہذیب، تکثریت، رواداری اور بھائی چارہ کی داستان سے آگہی بہم پہچائی ہے کہ وہ ہندوستان کتنا خوبصورت تھا جو آج غائب ہو رہا ہے۔ برجیش اور آنند سرمئی رنگ کے دلچسپ رنگوں والے کردار ہیں۔ ان کی گفتگو ہندوستانی معاشرے کے روزمرہ کے تعصبات کے دھاگوں سے جڑی ہوئی ہے۔
جیوری میں بحث کے دوران ایک موقع پر امیر خسرو کہتے ہیں:
’’یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہندوستان کی ہزار سالہ ثقافت اور تہذیبی ورثے کو نقصان پہنچانے میں تمام طبقات شامل ہیں‘‘ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خسرو کہتے ہیں جو تیسری دنیا سے آئے ہیں۔ ہمارے لیے نفرت سے ڈوبی ہوئی موجودہ صورت حال سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں ایک خدا ترس مسلمان ہوں لیکن میں نے بھگوان رام کے لیے سنسکرت میں شاعری کی ہے۔ خسرو جگن ناتھ کے عقیدت مند سلبیگ کے کاموں کا ذکر کرتے ہیں عبد الرحیم خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی انہوں نے سنسکرت میں رام کی بھکتی کے گیت لکھے ہیں اور محسن کاکوروی کے بارے میں کہتے ہیں کاشی، متھرا اور ورنداون کی عظمتوں کا اعتراف ان کی گیتوں میں ہے۔ امیر خسرو کی زبانی اس پورے مسئلے کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی وی جرنلزم اور صحافت کے دیگر ذرائع کو تخلیقی پروگرام کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ میڈیا اور دیگر سماجی اور سیاسی افراد سے ذات پات اور فرقہ واریت کی برائیاں نکالنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
دراصل یہ کتاب ہندوستان کی عظمت رفتہ کا نوحہ ہے ملک کی موجودہ صورت حال کی عکاسی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ فاشزم دروازے کی گھنٹی زور سے بجا کر اپنی آمد کا اعلان نہیں کرتا ہے بلکہ فاشزم آہستہ آہستہ، تقریباً خاموشی سے رینگتے ہوئے آتا ہے اور اچانک لوگوں کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ آس پاس کی دنیا یکسر تبدیل ہوچکی ہے مگر اس وقت واپسی کی راہیں مسدود ہوچکی ہوتی ہیں۔
اس کتاب سے قبل سعید نقوی نے اپنی کتاب "Being the Other: The Muslims in India” میں مسلمانوں میں عدم تحفظ اور بیگانگی کے احساس کو واضح کیا تھا کہ اپنے ہی ملک میں ہندوستانی مسلمان کس طرح ’’دوسرے‘‘ بنتے جا رہے ہیں۔ جس طریقے سے مغرب میں مشرق کے شہریوں کو ’دوسرے‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کے ذریعہ سامراجی بالادستی کو قائم کیا جاتا ہے اسی عینک سے ہندوستان کے موجودہ حالات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہندوستان میں ایک پوری کمیونٹی کو جو کل آبادی کا 14 فیصد پر مشتمل ہے ’’دوسرے‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نقوی کتاب کے پیش لفظ میں مسلمانوں کو ’’دوسرا‘‘ یعنی غیر ثابت کرنے کے وجوہات سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمراں طبقے کو خوف ہے کہ اگر مسلمانوں کو غیر نہیں بتایا جائے گا تو ذات پات کے تنازع پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
جیوری کے درمیان بحث وتکرار کے دوران مصنف قاری کو ماضی میں لے جا کر ایسے حقائق سے روشناس کراتے ہیں جن کی آج کے ہندوستان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ ’’سبری مالا کی یاترا، بھگوان ایپّا کے درشن ایک مسلمان عقیدت مند کے مزار پر رکے بغیر نامکمل ہے‘‘۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے متعلق مصنف کا کہنا ہے جب ہندوؤں اور مسلمانوں نے ہاتھ ملایا تو برطانوی ہاؤس آف کامنز میں، بنجمن ڈزرائیلی نے ہندوستان میں نوآبادیاتی اتھارٹی کو سزا دی، کیوں کہ یہ ہندوستانی عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ ڈزرائیلی کو غصہ ہے کہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کو نظر انداز کر دیا گیا، جس کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف شانہ بشانہ لڑائی لڑی تھی، اسی لیے برادریوں کو تقسیم رکھنے کی چال برطانیہ کی مستقل پالیسی بن گئی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں علیحدگی کے بیج بوئے گئے تھے جو 1947 میں تقسیم کا باعث بنے تھے۔عظیم شاعر غالب کی سب سے طویل نظم ہندوؤں کے مقدس شہر بنارس پر ہے۔ اگر مسلمان اپنے ساتھ غالب کے سب سے طویل نظم لے کر چلے جائیں گے تو پھر کیا بچے گا؟ سعید نقوی نے ذات پات، ہندو مسلم تقسیم، پاکستان و کشمیر جیسے متنازع موضوعات سے نکلنے کے راستے کی نشاندہی کرنے کے لیے سوتے وقت دادی ماں کی کہانیوں سے لے کر ایسوپ کے افسانوں اور ملا نصیرالدین کی کہانیوں تک کو بیان کرتے ہیں۔
نقوی ایک اور مفروضے سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان سے ہندو ہندوستان آئے اور ہندوستانی مسلمان پاکستان ہجرت کر گئے، جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ صرف پنجاب اور بنگال تقسیم ہوئے۔ ہندو پنجابی امرتسر، جالندھر، لدھیانہ، دہلی، یو پی اور اس سے آگے آئے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان لاہور، راولپنڈی، پشاور تک پہنچے۔ دوسرے حصوں کے مسلمان جہاں تھے وہیں رہے۔ کراچی میں سکریٹریٹ میں صرف محدود تعداد میں لوگوں کا تبادلہ ہوا۔ یہی صورت حال مشرقی اور مغربی بنگال میں ہوئی۔
حقیقت میں مسلم مکت بھارت کیسا ہوگا اس کو دیکھنے کے لیے اس ڈرامے کو ایک تھیٹر میں دیکھنا دلچسپ ہوگا تاکہ ہندوستان کی ذات پات، مذہب اور پاکستان اور کشمیر کے مسائل کی بنیاد پر تقسیم کو سمجھا جا سکے۔ ہندوستان سے مسلمانوں کا اچانک غائب ہونا بذات خود ایک بہت ہی پیچیدہ خیال ہے مگر نقوی نے اسے بہت ہی آسانی سے پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کے انخلا کے سیاسی پس منظر کے کئی پہلووں کو بیان کرنے کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کے علاوہ ہندوستان میں رائج پدرانہ نظام، انفرادی و اجتماعی فرقہ پرستی، اخلاقی دیوالیہ پن، ذات پات، عدلیہ، پولیس اور صنفی تعصبات کو بھی بہت باریک بینی سے پیش کیا ہے۔
مگر جہاں تک اس ڈرامے کے اختتام اور اس سے اٹھنے والے سوال کا ہے کہ کیا پھر ہندوستان میں مسلمان واپس آجاتے ہیں اور حالات میں تبدیلی آتی ہے؟ اس کلائمکس سے پردہ نہیں ہٹا سکتا۔ اس کے لیے میں کتاب پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ ہر محب وطن ہندوستانی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ہندی میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہ ڈرامہ انہیں پڑھنا ضروری ہے جنہیں تاریخ کی قوت پر یقین نہیں ہے۔
جس ملک کا وزیر اعظم مسلمانوں کے قتل عام پر افسوس ظاہر کرنے کے بجائے یہ کہتا ہو کہ اس کی گاڑی کے نیچے کتا آ جائے گا تو افسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا ہوگا کہ مسلمانوں کے اچانک چلے جانے کی پروا کون کرے گا؟ جب ہر روز پیش آنے والی خبریں اور آنکھوں کے سامنے ہونے والے مسلمانوں کی تذلیل پر دل بے چین نہیں ہوتا ہے تو کیا مسلمانوں کے اچانک غائب ہونے کے محض تصور سے ہی ہندوستانی عوام فکر مند ہو جائیں گے؟
2003 میں خلیجی جنگ کے دوران یہ لطیفہ مشہورا ہوا تھا کہ عراق پر حملے سے قبل امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے درمیان ون ٹو ون میٹنگ ہوئی تھی۔ میٹنگ جب کافی طویل ہوگئی تو صدر بش کے اتاشی نے میٹنگ روم میں جاکر حالات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اتاشی اچانک میٹنگ میں روم میں داخل ہوتا ہے۔ اتاشی کو دیکھ کر صدر بش کہتے ہیں کہ "دیکھو ہم نے دس لاکھ مسلمانوں اور ایک گولڈ فش کو مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے” اتاشی پوچھتا ہے "گولڈ فش کیوں؟” تب صدر بش ٹونی بلیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "دیکھو! میں نے کہا نہ تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق کوئی بھی سوال نہیں کرے گا”
ہندوستان کے موجودہ حالات میں نقوی کا افسانہ سچ بھی ثابت ہوجائے تب بھی مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمانوں کے انخلا سے متعلق سوال نہیں کرے گا چہ جائیکہ مسلمانوں کے چلے جانے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ادراک؟
***

 

***

 ہندوستان سے مسلمانوں کا اچانک غائب ہونا بذات خود ایک بہت ہی پیچیدہ خیال ہے مگر نقوی نے اسے بہت ہی آسانی سے پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کے انخلا کے سیاسی پس منظر کے کئی پہلووں کو بیان کرنے کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کے علاوہ ہندوستان میں رائج پدرانہ نظام، انفرادی و اجتماعی فرقہ پرستی، اخلاقی دیوالیہ پن، ذات پات، عدلیہ، پولیس اور صنفی تعصبات کو بھی بہت باریک بینی سے پیش کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022