میرٹھ کی عدالت نے 1987 میں ہوئے فسادات کے 39 ملزمین کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کیا

نئی دہلی، اپریل 3: میرٹھ ضلع کے ملیانہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 72 مسلمانوں کی ہلاکت کے چھتیس سال بعد اتر پردیش کی ایک عدالت نے گذشتہ ہفتے اس معاملے میں ملزم نامزد 39 افراد کو بری کر دیا۔

یہ فساد 23 مئی 1987 کو ہوا تھا جب ایک ہجوم نے اتر پردیش کے صوبائی مسلح کانسٹیبلری کے ارکان کے ساتھ مل کر ملیانہ گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور مبینہ طور پر مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر گولیاں برسائی تھیں۔

اس سے ایک دن پہلے صوبائی مسلح کانسٹیبلری نے میرٹھ کے ایک محلے ہاشم پورہ سے 42 مسلمان مردوں کو اٹھا کر ایک لاری پر بٹھا کر قریبی نہر کے پاس لے جا کر ان سب کو گولی مار دی اور پھر ان کی لاشیں پانی میں پھینک دی تھیں۔

2016 میں دہلی ہائی کورٹ نے ہاشم پورہ قتل عام میں ان کے کردار کے لیے کانسٹیبلری کے 16 ارکان کو مجرم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے اس حکم کو مسترد کر دیا، جس نے انھیں بری کر دیا تھا۔

جمعہ کو میرٹھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لکھویندر سنگھ سود نے ملیانہ تشدد کے 39 ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ انھیں مجرم قرار دینے کے لیے کافی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔

فسادات میں بچ جانے والوں میں سے ایک محمد یعقوب نے 93 لوگوں کے خلاف اصل شکایت درج کرائی تھی۔ ان میں سے 23 مقدمے کی سماعت کے دوران انتقال کر گئے اور باقی 31 افراد کا ’’سراغ نہیں لگایا جا سکا۔‘‘

یعقوب نے بتایا کہ ان ہلاکتوں میں صوبائی مسلح کانسٹیبلری کے کردار کا پہلی معلوماتی رپورٹ میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’میں ان لوگوں میں سے تھا جنھیں پکڑ کر بے رحمی سے پیٹا گیا کیوں کہ قتل عام جاری تھا جس میں بغیر کسی اشتعال کے پی اے سی کے جوانوں نے گھروں پر حملہ کرنا شروع کر دیا جب کہ ہجوم لوٹ مار اور فسادات میں ملوث تھا۔‘‘

متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل علاؤالدین صدیقی نے کہا کہ 39 افراد کو ایسے وقت چھوڑ دیا گیا جب ابھی کارروائی جاری تھی۔

وکیل نے کہا ’’34 پوسٹ مارٹم رپورٹس پر سماعت نہیں ہوئی تھی اور ملزمین سے سی آر پی سی کی دفعہ 313 کے تحت جانچ نہیں کی گئی تھی۔ ہم ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔‘‘

دریں اثنا ملیانہ کے رہائشیوں نے کہا کہ میرٹھ عدالت کا فیصلہ ہمارے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یعقوب نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’’اس نے ہمارے لڑنے کے عزم کو توڑ دیا ہے۔ موت کا مکروہ رقص ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ پورے خاندان کا صفایا ہو گیا۔ پھر بھی ہمیں عدلیہ پر اپنا اعتماد برقرار رکھنا ہے۔ کیا وہ قتل عام صرف ہمارے تصور میں ہوا؟‘‘

متاثرین کے خاندان کے ایک رکن مہتاب نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ یہ فیصلہ منصفانہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کے دن ان کے والد یاسین کو بغیر کسی وجہ کے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ گھر واپس جا رہے تھے۔ ان کی لاش بعد میں ایک شوگر مل کے قریب سے ملی تھی۔

وکیل احمد نے، ایک گواہ جس نے عدالت میں اپنے بیانات ریکارڈ کرائے، دی ہندو کو بتایا کہ صوبائی مسلح کانسٹیبلری نے دلتوں کو اس وقت تحفظ فراہم کیا تھا جب انھوں نے مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور کمیونٹی کے بہت سے افراد کو آگ لگا دی۔

انھوں نے کہا ’’ہم دلتوں کے ساتھ امن سے رہ رہے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں ہندوتوا عناصر نے فسادات کے دوران شہر کے دیگر حصوں میں جو کچھ ہوا اس کا بدلہ لینے کے لیے اکسایا تھا۔ شاید انھیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ مسلمان بھاگ جائیں گے اور وہ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔‘‘

میرٹھ میں 1987 میں ہندوؤں کی طرف سے عبادت کے لیے ایودھیا میں بابری مسجد کے تالے کھولنے کے خلاف احتجاج کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔