مولانا محمد علی جوہر : جیل جانا پسند کیا لیکن برٹش حکومت سے معافی نہیں مانگی

مولانا محمدعلی جوہر

افروز عالم ساحل

یہ 1913کی بات ہے۔ مولانا محمد علی کی صحافت اب تک انگریزی تک محدود تھی۔ اسی درمیان ملک کا دارالسلطنت کلکتہ سے دہلی منتقل ہوگیا، ایسے میں مولانا کا اخبار ’کامریڈ‘ بھی دہلی پہنچ گیا۔ یہاں حکیم اجمل خان کے مشورے سے مولانا نے فروری 1913 میں اردو روزنامہ ’ہمدرد‘ جاری کیا۔

اسی درمیان پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر لندن کے مشہور اخبار ’ٹائمز‘ نے ایک افتتاحیہ میں ترکوں کو مشورہ دیا کہ وہ برطانیہ کا ساتھ دیں۔ اس کے جواب میں مولانا محمد علی نے ’چوائس آف دی ترک‘ لکھ کر ’ٹائمز‘ کے چیتھڑے اڑا دیے۔ اب حکومت یہ کیسے گوارا کرتی کہ ایسا مضمون لکھنے والا چین سے بیٹھا رہے۔ چناں چہ چند روز بعد ہی ’کامریڈ‘ اور ’ہمدرد‘ دونوں کی ضمانتیں ضبط کر لی گئیں۔ محمد علی نے اپیل کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں خود بحث و جرح کی لیکن ’کامریڈ‘ کی ضمانت کی ضبطی کا حکم بحال رہا۔ پھر چند دنوں بعد ہی دہلی کے ضلع مجسٹریٹ کا حکم ملا کہ دونوں بھائی اپنے آپ کو نظر بند سمجھیں۔ نظر بندی کی خبر سن کر محمد علی افسوس کے بجائے بےحد خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ نظربندی کے درمیان بھی ’ہمدرد‘ کے لیے مضامین لکھ سکتے ہیں۔ مگر حکومت کو یہ بھی گوارا نہ تھا اس لیے ان کو لینس ڈون بھیج دیا گیا اور ان کی قلم کی آزادی بھی سلب کر لی گئی۔

امپیریل کاؤنسل میں برطانوی حکومت سے جناح اور مسٹر مظہرالحق نے جب اس نظر بندی کی وجوہات طلب کیں تو جواب ملا، ’چوں کہ ان دونوں بھائیوں نے کھلم کھلا گورنمنٹ کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا اس لیے ان کو نظر بند کرنا ضروری سمجھا گیا اور اگر وہ آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہنے کا وعدہ کریں تو گورنمنٹ ان کی رہائی کے مسئلے پر غور کرسکتی ہے۔‘ مگر ایسا وعدہ کرنا معافی مانگنے کے برابر تھا اور محمد علی جیسے غیور شخص کے لیے معافی موت سے بدتر تھی۔ یہی نہیں، دوسری طرف محمد علی کو ہر طرح کا لالچ بھی دیا جاتا رہا تاکہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے خلاف بھڑکانا بند کردیں، لیکن محمد علی کو یہ کہاں گوارا تھا۔

محمد علی کے قانونی مشیر مسٹر گھاٹے کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد علی جب انگلینڈ میں تھے تو ان سے کہا گیا کہ وہ ’انڈو برٹش ایسوسی ایشن‘ میں شامل ہوں اور حکومت ہند کے اینگلو انڈین ارکان کے ساتھ لارڈ ہارڈنگ اور سر علی امام کے مقابلے میں کارروائی کریں لیکن محمد علی نے اس سازش میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

ستمبر 1917میں مسلم لیگ نے ان کو اپنا صدر منتخب کیا۔ لیکن برٹش حکومت نے انہیں جلسے میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی چناں چہ ان کی جگہ اس جلسے میں ان کی والدہ عبادی بیگم نے جو ’بی اماں‘ کے نام سے مشہور تھیں شرکت کی۔ اس جلسے میں صدارت کی کرسی پر محمد علی کی تصویر رکھی گئی تھی۔ اسی سال کانگریس کے سالانہ اجلاس میں بال گنگادھر تلک نے ایک ریزولیوشن پاس کرایا جس میں برٹش حکومت سے علی برادران کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

اس طرح سے برٹش حکومت ہر طرف سے دباؤ میں آنے لگی تو اُس سال حکومت نے علی برادران کے سامنے ایک عہد نامہ پیش کیا اور کہا گیا کہ اس پر دستخط کرنے سے ان کو رہائی مل سکتی ہے۔ بس عہد نامے کی رو سے ان کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ جنگ کے دوران میں وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ گورنمنٹ کے دشمنوں کو کسی قسم کی اخلاقی، عملی یا مالی مدد مل سکتی ہو اور نہ کوئی ایسی بات کریں گے جس سے ملک کے امن میں خلل پیدا ہوتا ہو۔ اب یہ علی برادران ساورکر تو تھے نہیں چناں چہ انہوں نے اس معاہدے پر بھی دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ہم کسی قسم کی پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یہی نہیں، اس کے بعد ستمبر 1918 میں ایک سرکاری کمیشن مقرر کیا گیا۔ اس کمیشن نے دونوں بھائیوں سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن یہ علی برادران کسی بھی طرح سے جھکنے کو تیار نہیں ہوئے لہٰذا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان کی نظر بندی کو جائز قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب انہیں سزا کافی مل چکی ہے، انہیں مزید نظر بند نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے دونوں بھائی رہا کر دیے جائیں۔ لیکن برٹش حکومت نے کمیشن کی اس سفارش کو بھی منظور نہیں کیا۔ بلکہ انہیں اب چھندواڑہ سے بیتول جیل منتقل کر دیا گیا۔ تھوڑی بہت آزادی جو چھندواڑہ میں حاصل تھی وہ بھی سلب کرلی گئی۔ علی برادران بیتول جیل میں ہی تھے کہ اس دوران ملک میں رولٹ ایکٹ پاس ہوا اور مہاتما گاندھی نے اس کے خلاف سول نافرمانی تحریک شروع کی۔ برٹش حکومت کو اس بات کا خطرہ تھا کہ یہ تحریک کہیں مسلح بغاوت کی صورت نہ اختیار کر لے۔ اس لیے حکومت نے اس غصہ کی لہر کو روکنے کے لیے ایک چال چلی اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس طرح دسمبر 1919 میں قریب پانچ سال کی نظربندی اور قید کے بعد یہ دونوں بھائی آزاد ہوئے۔

ان دنوں امرتسر میں خلافت کانفرنس، کانگریس و ملسم لیگ کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ اب دونوں بھائیوں نے امرتسر کا رخ کیا۔ جب ان کی گاڑی امرتسر پہنچی تو ایک عظیم الشان مجمع نے قومی نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ پنڈال میں مہاتما گاندھی و دیگر لیڈر ان کے خیر مقدم کے لیے جمع تھے۔ جس وقت یہ دونوں کانگریس کے پنڈال میں داخل ہوئے تمام حاضرین جوش میں کھڑے ہوگئے اور پندرہ منٹ تک مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔ پنڈت مدن موہن مالویہ نے ان دونوں بھائیوں کا اسٹیج پر استقبال کیا اور ان کے کانگریس ڈیلیگیٹ بننے کا اعلان کیا جس کے بعد ان کا ملک کی آزادی کا مشن شروع ہوا۔۔۔

تحریک خلافت کے سب سے بڑے رہنما

خلافت تحریک کی سب سے غیر معمولی بات ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی تھی اور اس کے سب سے اہم کردار تھے مولانا محمد علی جوہر، ان کے بڑے بھائی شوکت علی اور مہاتما گاندھی۔ تاہم، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آگے چل کر اس بھائی چارے میں تھوڑی بہت دراڑ آئی، لیکن ختم نہیں ہوئی۔ خلافت تحریک کے اصل بانی اور روح رواں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی ہی تھے۔ سال 1920 کے فروری مہینے میں ترکوں کے مستقبل پر ہندوستانی مسلمانوں کے نقطہ نظر کو پیش کرنے کے مقصد سے مولانا محمد علی ایک وفد کو لے کر یورپ گئے۔ انگلینڈ کے ساتھ ساتھ فرانس، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کا دورہ کیا۔ پورے 8 مہینے یورپ میں گزارنے کے بعد محمد علی اکتوبر مہینے میں واپس ہندوستان لوٹے اور برٹش حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں لگ گئے۔ اس طرح گاندھی کے ساتھ مل کر تحریک عدم تعاون کے ذریعے پورے ہندوستان میں کھلبلی مچا دی۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک حب الوطنی کی آگ بھڑکا دی۔ ہر شخص کو آزادی کا متوالا بنا دیا جس کے نتیجے میں انگریزوں کا ڈر ہر ہندوستانی کے دل سے نکل گیا۔ گاندھی جی اور مولانا محمد علی کی قیادت میں شروع ہوئی۔ یہ بغیر ہتھیار کی جنگ آزادی ہندوستان کی تاریخ کا پہلا سنہرا باب ہے۔

جب ان پر برٹش حکومت سے معافی مانگنے کا الزام لگا

مولانا محمد علی جوہر جنہوں نے جیل میں رہنا پسند کیا لیکن برٹش حکومت سے معافی نہیں مانگی انہی کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ وہ اور ان کے بھائی شوکت علی نے تحریک عدم تعاون کے دوران حکومت سے معافی مانگ لی ہے۔ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ایسے زبردست ’باغی‘ حکومت کے ڈر سے معافی نامہ لکھ دیں۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ مولانا محمد علی تقاریر بڑے جوشیلی انداز میں کرتے تھے، ان کی ایک تقریر افغانستان کے مسئلے پر تھی۔ اسی تقریر کے متعلق حکومت کا خیال تھا کہ وہ لوگوں کو تشدد کی ترغیب دیتی ہے۔ اسی زمانے میں پنڈت مالویہ کی کوشش سے لارڈ ریڈنگ اور مہاتما گاندھی کی ملاقات ہوئی تھی جس کے دوران وائسرائے نے شکایت کی علی برادران کی تقریریں حکومت کے خلاف نہ صرف بغاوت بلکہ تشدد کی ترغیب دیتی ہیں۔ گاندھی جی نے ان کی طرف سے صفائی پیش کی اور کہا کہ حقیقت میں دونوں بھائی مکمل طور پر عدم تشدد کے پابند ہیں۔ پھر گاندھی جی نے مولانا محمد علی سے گزارش کی کہ وہ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایک بیان شائع کردیں۔ چناں چہ دونوں بھائیوں نے ایک بیان شائع کیا جس میں انہوں نے عدم تشدد کے اصول کو تسلیم کیا اور اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ان کی تقریروں سے غلط مطلب نکالا گیا۔

علی برادران نے لکھا تھا، ’دوستوں نے ہماری کچھ تقریروں پر ہماری توجہ مبذول کروائی، جو ان کی رائے میں تشدد پر اکسانے والی ہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کبھی بھی تشدد کو بھڑکانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہماری تقاریر کی کچھ سطروں کی اس طرح غلط تشریح کی جائے گی۔ لیکن ہم اپنے دوستوں کے استدلال اور تشریح کی طاقت کو پہچانتے ہیں۔ اس لیے ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں تحریک عدم تعاون کے ساتھ ہیں — ہم موجودہ یا مستقبل میں تشدد کی حمایت نہیں کریں گے اور نہ ہی تشدد کی فضا پیدا کریں گے۔‘

محمد علی جوہر کے دشمنوں نے علی برادران کے اسی بیان کو معافی نامہ کہہ کر تشہیر کی اور کہا گیا کہ علی بھائیوں نے معافی مانگ کر آزادی خریدی ہے اور انہوں نے یہ سب گاندھی جی کے اکسانے پر کیا ہے، جو پہلے ہی لارڈ ریڈنگ کو معافی کا وعدہ کرچکے تھے۔ تاہم، مولانا محمد علی نے گجرات کی صوبائی خلافت کانفرنس میں اپنی تقریر میں یہ واضح کیا کہ انہوں نے برٹش حکومت کے لیے اپنا بیان شائع نہیں کیا تھا، بلکہ تحریک عدم تعاون کے لیے کیا تھا، جس سے وہ گاندھی جی ہی کی طرح گہرائی سے وابستہ ہیں…

ان دنوں موتی لال نہرو کو بھی گاندھی جی کی مدن موہن مالویہ سے زیادہ قربت پریشان کر رہی تھی۔ موتی لال نہرو نے واضح الفاظ میں لکھا — ’آپ شروع سے دیکھیں گے کہ جو لوگ جیل میں رہ چکے ہیں وہ اپنی رہائی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی بیان نہیں دے سکتے۔۔۔‘

جوڈتھ براؤن کے مطابق، محمد علی نہیں چاہتے تھے کہ گاندھی وائسرائے سے ملیں۔ گاندھی کی وائسرائے سے ملاقات کے پیچھے اصل وجہ مالویہ کے ذریعہ پیش کردہ ہندو تشویش تھی۔

انہی دنوں مولانا محمد علی کراچی میں آل انڈیا خلافت کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے یہاں بھی اپنی تقریر میں یاد دلاتے ہوئے کہا — معافی یا جو بھی آپ اسے کہتے ہو… صرف اور صرف عوام کے لیے تھی۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پنڈت مدن موہن مالویہ کے لیے تھی، جنہوں نے افغان حملے کے ڈر کا لطف اٹھایا تھا۔ یہ پنڈت کے خوف کو آرام سے قائم کرنے کے لیے تھا… معافی صرف تشدد سے متعلق تھی نہ کہ کسی خاص تقریر کے بارے میں… ہم کبھی بھی حکومت سے معافی نہیں مانگ سکتے…سچ پوچھیں تو یہ ہندو مسلم اتحاد اور خاص طور پر علی بھائیوں اور گاندھی کے درمیان رشتوں میں پہلی دراڑ تھی۔ لیکن اس کے باوجود محمد علی جوہر نے ملک کی آزادی کے لیے گاندھی کا ساتھ نہیں چھوڑا، بلکہ مزید جارحانہ انداز اختیار کرلیا اور اب ان کی تقریریں پہلے سے زیادہ جوشیلی تھیں۔

مولانا مودودیؒ کی نظر میں مولانا محمد علی جوہر

1963 میں لاہور کے اشرف پریس سے شائع شدہ ایک کتاب ’علی برادران‘ میں مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اپنے ایک مضمون ’مولانا محمد علی : ایک پرانی داستان‘ میں لکھتے ہیں، ’لیڈروں سے یہ دنیا نہ کبھی خالی رہی ہے نہ رہے گی، لیکن اس درویش خدا مست کی قیادتِ شان ہی کچھ اور تھی، پھر اس کے بعد آج تک مسلمانوں میں کوئی لیڈر ایسا نظر نہیں آیا جو سیاسی بصیرت کے ساتھ ایسا گہرا دینی جذبہ رکھتا ہو۔‘

اس طویل مضمون میں مولانا مودودیؒ یہ بھی لکھتے ہیں، ’مولانا محمد علی کا ایک معمول یہ تھا کہ ہر جمعہ کو نماز کے بعد جامع مسجد کے اس منبر پر جو صحن میں تھا، کھڑے ہو کر حالات حاضرہ پر تقریر کیا کرتے تھے۔ میں ان کی یہ ہفتہ وار تقاریر پابندی سے سنتا تھا اور مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ ان تقریروں سے میں نے فکری طور پر بہت فائدہ اٹھایا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ایک سامع کی حیثیت سے اپنے قیامِ دہلی کے دوران شاید ہی کوئی تقریر میں نے ناغہ کی ہو۔‘ ان کے اس مضمون کے مطابق انہوں نے 1930 میں مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر ہی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی تھی۔

مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878 کو یو پی کے ضلع رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالعلی خان بجنور کے رئیس تھے اور رام پور کے نواب یوسف علی خان کے دربار میں ایک ممتاز منصب پر فائز تھے۔ محمد علی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، اس کے بعد بریلی کے ہائی اسکول میں ان کا داخلہ ہوا۔ آگے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے 1898 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1902 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پہلے ہندوستانی کے طور پر گریجویٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

4 جنوری 1931کو ہندوستان کے عظیم آزادی پسند جنگجو اور مجاہد اعظم مولانا محمد علی جوہر ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

مولانا جوہر ہندوستان کی آزادی کے لیے بیماری کی حالت میں 1930 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے تھے۔ یہاں پر انہوں نے اپنی ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا ’’میرے ملک کو آزادی دو یا میری قبر کے لیے مجھے جگہ دو۔ کیونکہ یہاں میں اپنے ملک کی آزادی لینے آیا ہوں اور اسے لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا‘‘

ان کے انتقال پر گاندھی جی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا کا انتقال ایسے وقت میں ہوا جب ملک کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے زبردست کام کیا ہے۔ انہوں نے تشکر آمیز الفاظ میں کہا تھا کہ مجھے مولانا محمد علی کی چھت کے نیچے جتنا اچھا سلوک ملا اتنا کہیں اور نہیں۔ میں نے یہاں سب سے زیادہ محبت کا تجربہ کیا ہے۔
***

’’لیڈروں سے یہ دنیا نہ کبھی خالی رہی ہے، نہ رہے گی، لیکن اس درویش خدا مست کی قیادتِ شان ہی کچھ اور رکھتی تھی، پھر اس کے بعد آج تک مسلمانوں میں کوئی لیڈر ایسا نظر نہیں آیا جو سیاسی بصیرت کے ساتھ ایسا گہرا دینی جذبہ رکھتا ہو۔‘‘
(مولانا مودودیؒ)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020