مدھیہ پردیش پولیس نے اقلیتوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا، تشدد کے متاثرین کو ہی سزا دی: جماعت اسلامی ہند

بھوپال (مدھیہ پردیش)، ستمبر 7: ہندوستانی مسلمانوں کی ممتاز سماجی و ثقافتی تنظیم جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے الزام لگایا ہے کہ مدھیہ پردیش میں پولیس تشدد کرنے والوں کے بجائے متاثرین اور انصاف کے متلاشی افراد کو ہی قانون کی سخت دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے سزا دے رہی ہے۔

پچھلے چند مہینوں میں ایم پی کے مالوا علاقے میں مسلمانوں پر بلاوجہ تشدد اور ماب لنچنگ کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان تمام معاملات میں ملزمان ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، کیوں کہ پولیس نے ان کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔

مالوا کے علاقے میں ستمبر 2020 سے اب تک فرقہ وارانہ کشیدگی کے 12 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

نئی دہلی میں جے آئی ایچ کے ہیڈ کوارٹر سے چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اجین اور اندور کا دورہ کیا۔ انھوں نے ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) کے متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انھوں نے انھیں تسلی دی اور ہر قسم کی قانونی مدد کی یقین دہانی کرائی۔ انھوں نے نفرت انگیز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے سینئر پولیس حکام اور عوامی نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔

ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے آئی ایچ کے رہنماؤں نے مالوا کے علاقے میں فرقہ وارانہ واقعات میں تیزی سے اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ریاستی حکومت فرقہ ورانہ نفرت سے متعلق تشدد کو روکنے کے لیے فوری اقدامات شروع کرے۔

جماعت اسلامی ہند کے قومی نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے پوچھا ’’اجین میں پولیس نے محرم کی تقریب کی ویڈیو کی فارنسک تحقیقات سے قبل 14 افراد کو گرفتار کیا۔ پولیس یہ کیسے پتہ لگائے گی کہ نعرے کس نے لگائے؟ اور کیا ہوگا اگر ان میں سے صرف 4 نے نعرے لگائے اور باقیوں کو ان کی شمولیت کی تصدیق کیے بغیر جیل بھیج دیا گیا ہو؟‘‘

جن 14 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ ضلع اجین کے مہدی پور سے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر ملک مخالف نعرے ان 14 ملزمان نے محرم کے حوالے سے ایک تقریب میں بلند کیے تھے۔

لیکن فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ارکان نے الزام لگایا کہ محرم کے جلوس کی ویڈیو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔

پولیس کا جانبدارانہ رویہ

پروفیسر محمد سلیم نے کہا کہ پولیس کے پاس ان کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ملزمان کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ ملزمان بے خوف ہیں کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے سیاسی رابطوں کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’حالیہ واقعات میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے واضح جانبدارانہ رویے اور امتیازی سلوک کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

جے آئی ایچ کے قومی سیکریٹری ملک معتصم خان نے کہا کہ ہر شہری کو تحفظ اور انصاف کا حق ہے ’’لیکن حالیہ واقعات میں یہ پایا گیا کہ متاثرین کو ایسی شکایات پر جیل بھیج دیا گیا جن کی تصدیق نہیں کی گئی، جب کہ ملزمان پر کم سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور انھیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘

مسٹر خان نے مزید کہا کہ پولیس کی اس طرح کی کارروائیاں ایسے عناصر کو تقویت دیتی ہیں جو اس طرح کے مزید واقعات کو جنم دیتے ہیں جو کہ ملک میں جمہوریت کے لیے خطرناک رجحان ہوگا۔

دریں اثنا 22 اگست کو اندور کے نیو گووند نگر میں اتر پردیش کے ہردوئی سے ایک چوڑی بیچنے والے تسلیم علی (25) پر حملہ کیا گیا اور بعد میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن واقعات کے ایک عجیب موڑ میں خود علی کو ہی چھیڑ چھاڑ اور جعلسازی کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا جب اگلے دن اس کے ایک مبینہ حملہ آور کی 13 سالہ بیٹی نے اس پر چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا۔

علی کے خاندان اور پڑوسیوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ پانچ بچوں کا باپ ایسا کچھ کرے گا۔ یہ ایک سوچا سمجھا عمل تھا کہ بیٹی کی جانب سے ایک شکایت اس وقت درج کی گئی جب تسلیم کی ویڈیو وائرل ہوئی اور مسلمانوں نے اس کی پٹائی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس نے 28 سے زائد مسلمانوں پر مقدمہ بھی درج کیا، جو تسلیم کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہوئے تھے۔ 28 میں سے چھ کو بیرونی نوٹس کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

زاہد خان نامی ایک ہاکر پر 25 اگست کو ہرجیت سنگھ (35) اور چتار سنگھ (40) نے آدھار کارڈ دکھانے میں ناکامی کے بعد مبینہ طور پر حملہ کیا اور انھیں لوٹ لیا۔ بعد میں ملزمان کی شناخت اندور کے رہائشی کے طور پر ہوئی اور ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 34 ، 294 ، 323 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ انھیں دیواس پولیس نے گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ضمانت دے دی۔ دیوس میں اس واقعے کے تین دن بعد ایک مسلمان سکریپ ڈیلر عبدالرشید کو، جو ضلع اُجین کے مہد پور قصبے کا رہنے والا تھا، ایک گاؤں میں دو افراد نے مبینہ طور پر مارا پیٹا اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ واقعہ کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ واقعہ کی دو ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا۔

جب اجین کے سکریپ ڈیلر پر حملے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں، اسی وقت ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جو اندور کے دیپالپور علاقے کی تھی۔ ویڈیو میں ایک شخص کو ایک مسلمان چاٹ والے الیاس پر الزام لگاتے ہوئے دیکھا گیا کہ وہ ہندو دیوتا ’’سواریہ‘‘ کے نام سے چاٹ بیچ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’مسلم ہوکر ہندو نام سے ٹھیلا لگاتا ہے، تمھارے پاس کھا کر میرا دھرم بھرشٹ ہوجائے گا۔‘‘

 

ڈی جی پی نے ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی کی شمولیت کو مسترد کیا

مسلم تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کا ’’کٹر ہندوتوا‘‘ ایجنڈا جاری ہے۔ بیشتر مسلمانوں کو این ایس اے کے تحت چارج کیا جاتا ہے۔ وہیں ہندو تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ تاہم ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی کے ملوث ہونے کے الزامات کو ریاست کے ڈی جی پی وویک جوہری نے معاملے کے منظر عام پر آنے کے دو دن بعد مسترد کر دیا۔ انھوں نے بھوپال میں نامہ نگاروں کو بتایا ’’اندور واقعہ کے ساتھ ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر عشرت علی، شہر قاضی اندور، نے کہا ’’حکمران جماعت کے رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقاریر آگ میں ایندھن ڈال رہی ہیں جو کہ ریاست میں ایک نیا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی عدم فعالیت صورت حال کو مزید خراب کرتی ہے۔‘‘

دریں اثنا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی، جو مالوا کے علاقے میں 2018 کے انتخابات میں شکست کھا چکی تھی، بلدیاتی انتخابات کے لیے ’’یو پی ماڈل‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اسے دوبارہ جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات میں مالوا نیمار کے علاقے میں 66 میں سے 56 نشستیں جیتنے والی بی جے پی نے 2018 میں کانگریس سے 28 نشستیں کھو دیں جس سے شیوراج سنگھ چوہان کے 13 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہوا۔

تجربہ کار صحافی اور سماجی کارکن ایل ایس ہاردینیا نے کہا ’’ریاست میں بی جے پی کے رہنما ہندوتوا کو فروغ دے کر اگلے اسمبلی انتخابات جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘