کیا ای ڈی ، حکومت کا کھلونابن گیا ہے؟

مرکزی ایجنسیوں کا سیاسی استعمال ملک کے مفاد میں نہیں

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حزب اختلاف کی جماعتیں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو مودی کا ہتھیار تصور کرنے لگی ہیں اور کھلے عام یہ بات کہی جارہی ہے کہ ای ڈی اور سی بی آئی جیسے مرکزی تفتیشی ادارے بی جی پی کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے ہیں۔ حکومت جس طرح چاہے اور جب چاہے انہیں حزب اختلاف کی جماعتوں پر استعمال کر رہی ہے۔ اس الزام میں کچھ صداقت اس لیے بھی نظر آتی ہے کیوں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ای ڈی نے حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں کے گھروں پر دھاوے کیے ہیں اور نوٹسیں جاری کی ہیں۔ ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کی سربراہ کی بھی ای ڈی نے تفتیش کی ہے۔ پھر بی جے پی کی ایک عرصے دراز سے حلیف رہنے والی شیو سینا جو بعد میں اس کی کٹر مخالف بن گئی اس کے لیڈر سنجے راوت کو ای ڈی نے پوچھ تاچھ کے لیے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں جن سے یہ تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ ای ڈی یا سی بی آئی واقعی حکومت کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی ساری جماعتیں بیک آواز ہو کر یہ کہہ رہی ہیں کہ مودی سیاسی خصومت نکالنے کے لیے ای ڈی کا استعمال کر رہے ہیں اور ای ڈی اس وقت مودی کا مترادف لفظ بن گیا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف کو کمزور کرنے اور انہیں سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے ای ڈی یا سی بی آئی کو استعمال کر رہی ہے؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا حزب اختلاف دودھ کا دھلا ہوا ہے یا وہ بے قصور ہے اور ان لوگوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، نہیں! بلکہ یہ ہے کہ جس کسی نے بھی عوامی دولت لوٹ کھسوٹ کر کے جمع کی ہے اس کی جانچ ہونی چاہیے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے اور ان کو اپنے کیے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف حزب اختلاف کے لوگوں نے ہی ناجائز دولت طریقہ سے دولت کمائی ہے اور اسی لیے ان پر کارروائی کی جارہی ہے؟ کیا حکم راں جماعت کے افراد کسی غبن یا گھوٹالہ میں ملوث نہیں ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا ان پر بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں؟ کسی ایجنسی کا غلط استعمال خود اس پر بھروسے اور اعتبار کو ختم کر دیتا ہے، اس طرح کی سیاسی انتقامی کارروائیوں سے نہ صرف سیاسی نقصان پہنچتا ہے بلکہ جمہوریت کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
در حقیقت ان ایجنسیوں کو کسی بھی حکومتی دباؤ کے بغیر اپنا کام کرنا چاہیے، انہیں یہ تاکید بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی کا دباؤ قبول نہ کریں، وہ یکطرفہ کارروائی نہ کریں، وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندوں کی طرح کام نہ کریں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جو سیاسی جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے وہ ان ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتی ہے، اپنے سیاسی حریفوں کو ختم کرنے کے لیے، انہیں ایجنسیوں کا خوف دکھا کر یا تو انہیں اپنی جماعت میں شامل کر لیا جاتا ہے یا انہیں بات نہ ماننے کی صورت میں پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ان ایجنسیوں سے متعلق میں کچھ اعداد وشمار پیش ہیں جو ان کی گزشتہ اٹھارہ، بیس سالوں کی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
پہلا : اگر 2004 تا 2014 کے دورانیے اور 2014 تا 2022 کے دورانیے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہو گا کہ ان کی کارکردگی کیسی کچھ رہی۔ 2014 تا 2022 کے دورانیے کا تقابل 2004 تا 2014 سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ای ڈی کی جانب سے کیے جانے والے دھاووں میں 27 گنا اضافہ ہوا ہے۔
دوسرا: 2014 تا 2015 کے دورانیے میں جہاں ای ڈی کی جانب سے درج کیے گئے جملہ مقدمات کی تعداد 1093 تھی وہیں 2021 تا 2022 کے دورانیے میں یہ تعداد بڑھ کر 5493 ہوگئی یعنی محض ایک سال کے درمیان مقدمات میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہاں حکم راں جماعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ چونکہ مودی حکومت بدعنوانی کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے اس لیے مقدمات درج کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی حکومتیں بدعنوانیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتی تھیں اس لیے مقدمات بھی درج نہیں ہوتے تھے، یہ تو مودی حکومت کی بدعنوانی پر عدم برداشت کا ثبوت ہے۔ بظاہر تو ان کا استدلال درست نظر آ رہا ہے لیکن اس کی حقیقت کیا ہے یہ تیسرا نکتہ ان کی صداقت کی قلعی کھول دے گا۔
تیسری بات: انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ جتنے مقدمات درج کیا کرتی ہے وہ (پی ایم ایل اے) پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کرتی ہے۔ جو بھی مالی بدعنوانیاں ہوتی ہیں اسی ایکٹ کے تحت ان کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ جب سے اس قانون کا نفاذ ہوا ہے تب سے لے کر آج تک جن افراد پر مقدمات درج ہوئے ہیں ان میں صرف 23 افراد کو ہی سزا سنائی گئی ہے، یعنی صفر اعشاریہ پانچ فیصد افراد کو ہی قرار واقعی سزا ملی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ای ڈی اپنے کام میں اور مودی حکومت بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔
جیسے ہی دھاوے بولے جاتے ہیں میڈیا میں ان پر مقدمہ چلایا جاتا ہے، انہیں ہر ممکن طریقے سے بدنام کیا جاتا یے، کہا جاتا ہے کہ جرح ہو رہی ہے اور پھر گرفتار کرلیا جاتا ہے، ضمانت بھی نہیں دی جاتی، اس طرح نفسیاتی طور سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر سے راست احکامات جاری ہوگئے ہیں لہٰذا کسی قسم کی ڈھیل نہیں دی جائے گی، جو بھی رقم بد عنوانی سے کمائی کی گئی اس کی ایک ایک پائی وصول کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ پھر اچانک خبر آتی ہے کہ وہ شخص بی جے پی میں شامل ہو گیا ہے۔ گویا بی جے پی نہ ہوئی گنگا ندی ہو گئی، جس میں شامل ہونے سے سارے پاپ دھل جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ای ڈی، بی جے پی کا مہم جو ادارہ ہے جو مجرموں کو اس شامل کروا کر انہیں پاک کر دیتا ہے۔
چوتھی بات: ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان سیاسی حریفوں پر کس وقت مقدمات درج کیے جارہے ہیں؟ کئی مرتبہ مقدمات یا پوچھ تاچھ ایسے موقع پر کی جاتی ہے جب کسی سیاسی لیڈر کی ریاست میں انتخابات قریب ہوں یا وہ ایسی سیاسی جماعت میں ہو جو کسی مخلوط حکومت کی حصہ دار ہو اور جسے اس کی جماعت سے توڑ کر ان کی حکومت کو گرانا مقصود ہو۔ پھر وہی بدعنوان لیڈر بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ایک ’’پوتر پرش‘‘ بن کر بی جے پی حکومت کا حصہ بن جاتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہوں گے وہاں ای ڈی پہنچ جاتی ہے۔ مغربی بنگال میں انتخابات کے قریب ترنمول کانگریس کے اہم ممبروں کے گھروں پر دھاوے کیے گئے۔ اسی طرح ہماچل پردیش میں انتخابات کے وقت دلی کے وزیر صحت کو گرفتار کیا گیا کیوں کہ وہ ہماچل پردیش میں عام آدمی پارٹی کے نمائندے تھے۔ پھر اسی طرح اتر پردیش میں انتخابات کے قریب اکھلیش یادو کے قریبی ساتھیوں پر دھاوے بولے گئے۔ یہ اور اسی طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بی جے پی نے ای ڈی کو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انتخابات ختم ہو جاتے ہیں دھاوے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ نہ ان پر درج مقدمات کی کارروائی آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے نہ کوئی فیصلہ سنائی دیتا ہے۔
پانچویں بات: اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ای ڈی کی فہرست میں صرف حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے یا ان کے قریبی ساتھیوں کے ہی نام ہوں گے۔ حکم راں جماعت سے تعلق رکھنے والے یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی کا نام نہیں ہو گا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی حریف پر انتقامی جذبے سے ہی کارروائیاں کرتی ہے اور اس کے لیے مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتی ہے۔ اور مرکزی ایجنسیوں کا انتقامی جذبے کے استعمال کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
***

 

***

 : ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان سیاسی حریفوں پر کس وقت مقدمات درج کیے جارہے ہیں؟ کئی مرتبہ مقدمات یا پوچھ تاچھ ایسے موقع پر کی جاتی ہے جب کسی سیاسی لیڈر کی ریاست میں انتخابات قریب ہوں یا وہ ایسی سیاسی جماعت میں ہو جو کسی مخلوط حکومت کی حصہ دار ہو اور جسے اس کی جماعت سے توڑ کر ان کی حکومت کو گرانا مقصود ہو۔ پھر وہی بدعنوان لیڈر بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ایک ’’پوتر پرش‘‘ بن کر بی جے پی حکومت کا حصہ بن جاتا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022